اداروں میں تصادم کے خدشے کو پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے، بابر اعوان
وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے کہا ہے کہ اداروں میں تصادم کے خدشے کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے کے پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کے تصادم کی گفتگو ہورہی ہے کہ ادارے آپس میں لڑپڑیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کا تصادم پاکستان میں صرف ایک مرتبہ ہوا ہے، 1997 میں جب سجاد علی شاہ کی کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا حملہ کرنے والوں میں سینیٹرز، ایم این ایز، ورکرز اور لیڈرز بھی تھے اور ان میں سے بیشتر ملک سے باہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلانے کے لیے اور انہیں آئینی و قانونی فریم ورک کے تحت عزت و احترام کے مطابق چلانے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کے تصادم کے خدشے کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے کے پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے، حکومت کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔
’کسی بھی سزا یافتہ شخص کو حکومت باہر جانے کی اجازت نہیں دے گی‘
معاون خصوصی نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قانون 80 کی دہائی میں بنائے گئے تھے جنہیں 2010 میں تبدیل کیا گیا جس کے مطابق جو سزا یافتہ ہو اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بابر اعوان نے کہا کہ اس میں عمران خان یا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا جب ہم نے نواز شریف کو یہ کہا تھا کہ بیماری کی وجہ سے ضمانتی بانڈ دے دیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ نواز شریف جب باہر گئے تو کسی ہسپتال میں نہیں گئے ابھی تک ان کا علاج شروع ہی نہیں ہوسکا تو یہ ایک طرح سے پاکستان کے ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور ٹیسٹ لیبارٹریز پر عدم اعتماد اور پاکستان کا سارا نظام جس پر 20 کروڑ لوگ جی رہے ہیں اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ صرف لندن میں نواز شریف کا علاج ممکن ہے ان سے پہلے بھی جو بیمار گئے وہ لندن جا کر صحت یاب ہوجاتے ہیں، حکومت کو کسی کے صحت مند رہنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن عدالتوں کو سچ بتائیں۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ہم یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ جو لیڈرشپ کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں ٹھیک بات کرنی چاہیے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکلوانے کے لیے درخواست وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں آئی تھی اس کے سامنے بھی یہی قانونی پوزیشن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سیاست نہیں، نہ اس وقت کوئی سیاست تھی جب انہوں نے کہا کہ ہم بیمار ہیں وہ خود ہی بتاتے تھے کہ پلیٹلیٹس کی تعداد اتنا اوپر گئی یا نیچے گئی، لندن جاتے ہی وہ اکاؤنٹ بند ہوگیا نہ اوپر گیا نہ نیچے گیا کدھر گیا کسی کو معلوم نہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی قیمت پر کسی بھی سزا یافتہ شخص کو حکومت اجازت نہیں دے گی، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جو ایک اجازت دی گئی دوستوں نے یہ بھی کہا کہ اب ایک نہیں 2 پاکستان ہوگئے دیگر کو بھی اجازت دینی چاہیے۔
بابر اعوان نے کہا کہ وہ ایک اسپیشل کیس تھا، مریم نواز نے جو درخواست دی ہے وہ عدالت میں ہے میں اس پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن پھر قانون میں ترمیم کرلیں پارلیمنٹ میں آجائیں کہیں ‘جس کو بھی ابا جی سے ملنے کو دل چاہے، اسے جیل سے نکال دیا جائے اور ملک سے جانے کی اجازت دی جائے‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قانون کی موجودگی میں اجازت نہ دینا قانون کی بالادستی ہے۔
’ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی جواز نہیں ہے‘
انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ کوئی اِن ہاؤس تبدیلی آسکتی ہے اور اس کے لیے کہتے ہیں کہ رہبر کمیٹی کو کہہ دیا گیا ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی کا بندوبست کریں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کوئی حلیم کی دیگ نہیں ہے کہ بہت سارے لوگ اس میں مل کر کام کریں کوئی چاول کا دانہ لائے کوئی دال کا دانا لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آؤٹ ہاؤس یہ ناکام ہوچکے ہیں، ان ہاؤس کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی موقع ہے۔
‘حکومت مناسب سمجھے گی تو پرویز مشرف کیس پر عدالت جائے گی‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا وفاقی حکومت پرویز مشرف کیس پر عدالت جائے گی؟ سیاسی عناد پر بنے ہوئے کیس میں اگر حکومت مناسب سمجھے گی تو حکومت کو بھی جانے کی اجازت ہوگی۔
اگرچہ شکایت نواز شریف نے شہباز شریف کے مشورے پر دائر کی تھی اور وہ دونوں اب خاموش ہیں، خاموشی کا مطلب ہے کہ ان سے غلطی ہوگئی تھی انہیں کھل کر کہہ دینا چاہیے کیونکہ جس وزارت سے وہ کاغذ نکلا تھا ان کو تو اپنی حکومت میں ساتھ بٹھالیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ حکومت مدعی ہے اس لیے نہیں جاسکتی جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے جب ایک وفاقی حکومت نے اندرون اور بیرون ملک الزامات کی بنیاد پر نااہل قرار دلوایا تھا اور جب حکومت بدلی تو وفاقی حکومت نے انہیں اہل کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اس کے ساتھ متاثرہ فریق بھی عدالت میں جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بحث چل رہی ہے کہ وہ ملزم جسے غیر حاضری میں سزا دی جائے وہ سرنڈر کرے گا یا سرنڈر کیے بغیر اس کی اپیل سپریم کورٹ میں سنی جائے گی اس حوالے سے بھی عدالتی فیصلہ موجود ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’چونکہ سزا غیرحاضری میں ہوئی تو اپیل بھی غیرحاضری میں سنی جاسکتی ہے‘۔