جاپان سفید بالوں والے لوگوں کا ملک بنتا جارہاہے۔اس بات سے قطع نظر کہ آبادی کی اکثریت خضاب کا استعمال کرتی ہے،مگرپھر بھی ضعیف العمری کے اپنے تقاضے اور مظاہر ہوتے ہیں۔تازہ ترین مردم شماری کے مطابق جاپان کی مجموعی قومی آبادی میں گزشتہ پانچ برس کے دوران دس لاکھ افراد کی کمی ہوگئی ہے۔اس خبر نے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے،چونکہ یہ زمانہ امن میں آبادی میں کمی کارجحان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ریاست کو گزشتہ پانچ برس میں نہ تو کوئی جنگ درپیش تھی اور چندسال پہلے آنے والے زلزلے و سیلاب میں ہلاک ہونے والے کچھ ہزار افراد کو اگر نظرانداز کردیا جائے توکوئی بڑی قدرتی آفت بھی آبادی میں کمی کا سبب نہیں بنی ہے۔شہریوں کو جدیدطبی سہولیات کی باآسانی فراہمی اور صحت کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے سبب اوسط عمر بڑھی ہے،کم نہیں ہوئی ہے۔سرکاری اعدادوشمار پر غور کریں توتمام ترقدرتی آفات وناگہانی واقعات کے باوجود ملک کے باشندوں کے زندہ رہنے کے امکانات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔عہدسازسخن طراز ابنِ انشاء کا یہ قول اپنی جگہ معتبر سہی کہ ”جھوٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں،اوّل جھوٹ،دوم سفید جھوٹ اور سوم سرکاری اعدادوشمار، جھوٹ کی قسم کے طور پربیان کی گئی ہے۔یہاں صورت حال بالکل برعکس ہے۔سرکاری اعدادوشمار اور اطلاعات کو عوامی سطح پر زیادہ معتبر مانا جاتا ہے،اور حقیقتاً وہ زیادہ قابل اعتمادہوتے بھی ہیں۔
آبادی میں کمی کی سب سے اہم اور کھلی وجہ تو کم شرح پیدائش ہی ہے۔پانچ سال پہلے کی گئی مردم شماری کے مطابق بارہ کروڑتہتر لاکھ افراد جاپان میں زندگی گزار رہے تھے،جبکہ اس ماہ شائع ہونے والے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایک ملین افراد کی کمی کے بعد،اب اس ملک کے باسیوں کی تعداد بارہ کروڑچونسٹھ لاکھ کے قریب ہے۔آبادی کے لحاظ سے جاپان اب بھی دنیا کا گیارہواں بڑا ملک ہے اور اس عالم رنگ وبومیں سانس لینے والے انسانوں کی کل تعداد میں سے قریباًدو فیصد یہاں آباد ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر آبادی میں کمی کا یہی تناسب جاری رہاتواقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 2050ء تک جاپان کی آبادی محض 10کروڑ نفوس تک محدودہو جائے گی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1955ء میں اس ملک کی آبادی 9کروڑافراد پر مشتمل تھی۔
کم شرح پیدائش کی وجوہات پر غور کریں توہمیں گرتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔میرے خیال میں اس کی سب سے اہم وجہ تو مہنگائی ہے۔پچھلی دو دہائیوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں،ہر سال دنیاکے مہنگے ترین دس شہروں میں جاپان کے دو تین شہرشامل ہوں گے۔ٹوکیواوراوساکاتوعموماً اس فہرست کے مہنگے ترین پانچ شہروں میں شامل رہے ہیں۔ایسے مہنگے ملک میں بچے ّپالنایقیناًبہت مہنگا ہے،اس لئے لوگ ایک دوبچوں کے بعدمہنگائی کے خوف کا اکثرشکار ہوجاتے ہیں۔ملک میں قائم مثالی امن وامان اور جان ومال کا تحفظ جہاں بہت بڑی نعمت ہے،وہیں کم شرح پیدائش کی وجہ بھی ہے۔عالمی طور پر یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جنگ زدہ علاقوں اورجنگ کے دوران شرح پیدائش میں اضافہ ہو تا ہے۔آپ فلسطین اور افغانستان کی تازہ مثالیں ہی دیکھ لیں،اتنی بڑی مقدار میں جنگ کی وجہ سے ان علاقوں سے ہجرت ہوئی مگر آبادی میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔عدم تحفظ کا احساس شرح پیدائش میں اضافے کا سبب ہے اور تحفظ اس شرح میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی،بہتر مستقبل کی تلاش میں چھوٹے قصبوں اور دیہات سے لوگ ترک سکونت کر کے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔جاپان کی کل آبادی کا چھ فیصد اب دیہات میں زندگی گزار رہاہے،جبکہ 94فیصدلوگ شہروں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔بڑے شہروں میں زندگی کی سہولیات یقینا یہاں بھی زیادہ ہیں مگر زندگی زیادہ مصروف اور مہنگی بھی ہے، نیز شہروں میں رہائش گاہوں کا عمومی سائز اتناچھوٹااور مختصرسا ہے کہ اس میں بڑا کنبہ سمانا تو ممکن ہی نہیں ہے۔شہری زندگی اوررہائش گاہوں کارقبہ بھی آبادی میں کمی کاکااہم سبب ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی ملک اور معاشرہ جتنا زیادہ مذہبی ہو گااس میں آبادی میں اضافے کی رفتاربھی اتنی زیادہ تیز ہوگی۔یورپ،روس اور چین مذہب سے بیگانگی کی بڑی مثالیں شمار کی جاتی ہیں،اور ان میں آبادی کے بڑھنے کی شرح بھی بہت ہی کم ہے۔غالباً توکل،ایثار اور صلہ رحمی خالصتاًمذہبی معاشرے سے منسوب چیزیں ہیں،جیسے جیسے مذہب سے دورہٹتے جائیں،یہ دوسرے لوگوں پر احسان اور قربانی کے جذبات بھی ماندپڑتے جاتے ہیں،ان کی جگہ خودغرضی لے لیتی ہے۔حضورپاکؐکابڑا ہی خوبصورت فرمان ہے،جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ”جو کھاناایک شخص کا پیٹ بھر سکتا ہے،وہ دو افراد کی شکم پروری کے لئے بھی کافی ہے“۔اگر کوئی مجھ سے جاپانیوں کی مذہبی عبادات اور رجحانات کے بارے میں پوچھے تویہ پریشان کن سوال ہو گا۔اس معاشرے میں روحانیت کے اثرات تو بہت گہرے ہیں مگرمذہب اور مذہبیت سے یہاں کے لوگ کافی دور ہیں۔ گرتی ہوئی آبادی کی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرہ مذہب سے دور ہوتاجارہا ہے۔سوسال سے زیادہ عمر کے حامل افرادکی سب سے زیادہ تعداداسی ملک میں ہے۔کم عمراورزیادہ توانالوگ محنت کی منڈی میں نسبتاًکم ہوتے جارہے ہیں۔ملکی باشندوں کی اس
و قت اوسط عمر47سال ہے۔
آبادی میں کمی کے رجحان اوراس کے اثرات کو سب سے نمایاں طور پر زرعی شعبے میں دیکھا جاسکتاہے۔ملکی زراعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس شعبے سے منسلک افرادکی تعدادبیس لاکھ سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔یوں تو کئی عشروں سے جاپان میں زراعت کا شعبہ بوڑھے لوگوں کے ہاتھ میں ہے،مگر وزارت زراعت کے مطابق اتنے شدیدبوڑھے توکسان بھی نہ تھے۔یعنی 67فیصد کسانوں کی عمراب67برس سے بھی زیادہ ہے۔ملک میں مجموعی طور پرزیرِکاشت رقبہ مسلسل کم ہوتاجارہاہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں زراعت سے روزی،روٹی کمانے اوراس شعبے پرزندگی کا انحصارکرنے والے افراد کی تعدادمیں چودہ فیصد کمی ہوئی ہے۔اب زرعی شعبے سے متعلق افراد کی تعدادمحض سترہ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔باقی شعبہ ہائے زندگی میں بھی گھٹتی ہوئی آبادی کے اثرات محسوس کئے جارہے ہیں،گرچہ زرعی شعبے میں یہ زیادہ شدیدہیں۔پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی کے کنٹرول پر تو بات ہوتی ہے مگر یہ نقطہ نظر سامنے نہیں آیاکہ بڑی آبادی،بڑی افرادی قوت کا مظہراورترقی کا زینہ بھی ہے۔ہمار ے ملک کے وسائل کے مطابق یقینابڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول ضروری ہے مگرجاپان میں معاملہ الٹ ہے،گرتی ہوئی آبادی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔