Site icon DUNYA PAKISTAN

خون کے مخصوص گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں تعلق دریافت

Share

او بلڈ گروپ کے حامل افراد میں نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کا خطرہ دیگر سے کم ہوتا ہے اور اگر وہ اس کا شکار ہوبھی جائیں تو بھی سنگین پیچیدگیوں کا امکان کم ہوتا ہے۔

یہ دعویٰ طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع 2 تحقیقی رپورٹس میں سامنے آیا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ہی طبی ماہرین کی جانب سے کورونا وائرس کے خطرات بڑھانے والے عناصر اور علاج کے ممکنہ اہداف کی شناخت کے لیے کام کیا جارہا ہے۔‎

ان میں سے ایک خون کے گروپ سے بیماری سے متاثر ہونے اور پیچیدگیوں کے خطرے میں کردار ایک اہم سائنسی سوال کی شکل میں ابھرا ہے۔

ان نئی تحقیقی رپورٹس سے ان شواہد میں اضافہ ہوا ہے جو خون کے گروپ اور کووڈ 19 کے خطرے کے درمیان ایک تعلق کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے بارے میں زیادہ علم ہوسکے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کا مریض کے لیے کیا مطلب ہے۔

جریدے میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کو کووڈ 19 سے کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

اس تحقیق میں ڈنمارک کی ہیلتھ رجسٹری کے تحت 4 لاکھ 73 ہزار سے زائد افراد کے کووڈ 19 کے ٹیسٹوں کے ڈیٹا کا موازنہ عام آبادی کے 22 لاکھ افراد سے کیا گیا۔

کووڈ 19 سے متاثر افراد میں دریافت کیا گیا کہ ان میں او بلڈ گروپ کے افراد کی تعداد بہت کم جبکہ اے، بی اور اے بی بلڈ گروپس والے افراد کی بہت زیادہ ہے۔

تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملا کہ بلڈ گروپ اے، بی یا اے بی والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان او بلڈ گروپ والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

اوڈینسے یونیورسٹی ہاسپٹل اور سدرن ڈنمارک یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ کنٹرول گروپ کو مدنظر رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خون کا گروپ مختلف اقلیتی گروپس اور مختلف ممالک میں مختلف ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایاک مضبوط کنٹرول گروپ کا فائدہ تھا کیونکہ ڈنمارک میں ایک چھوٹا اور نسلی اعتبار سے مختلف النوع افراد کا ملک ہے جہاں کا عوامی صحت کا نظام بہترین اور لیب ڈیٹا کے لیے ایک سینٹرل رجسٹری موجود ہے، تو تحقیق کے نتائج مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

دوسری تحقیق کینیڈا میں ہوئی جس میں دریافت کیا گیا کہ اے اور اے بی بلڈ گروپس والے افراد میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں وینکوور میں کووڈ 19 کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار 95 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور دریافت ہوا کہ او یا بی بلڈ گروپ والے افراد میں پیچیدگیوں کا خطرہ اے یا اے بی بلڈ گروپ والے افراد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

محققین نے دریافت کیا کہ اے یا اے بی بلڈ گروپ والے مریضوں میں وینٹی لیٹر کی ضرورت زیادہ ہوسکتی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں کووڈ 19 سے پھیپھڑوں کی انجری کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ اے اور اے بی بلڈ گروپ والے مریضوں کو گردوں کے فیلیئیر کے باعث ڈائیلاسز کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

دونوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ان دونوں بلڈ گروپس والے مریضوں میں اعضا کے افعال رک جانے یا فیلیئر کا خطرہ او یا بی بلڈ گروپ والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

مزید براں اے اور اے بی بلڈ گروپ والے افراد کو اگرچہ ہسپتال میں او یا بی بلڈ گروپ کے مریضوں جتنے وقت تک ہسپتال میں قیام نہیں کرنا پڑتا، مگر انہیں اوسطاً آئی سی یو میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے، جو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا ایک اور اشارہ ہے۔

کینیڈا کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کاا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں مخصوص بلڈ گروپ پر کووڈ 19 کے اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے مریضوں میں پھیپھروں اور گردوں کے نقصان کا مشاہدہ کیا اور مستقبل میں تحقیق کے دوران ہم بلڈ گروپ اور کووڈ 19 کے دیگر اہم اعضا پر اثرات کا جائزہ لیں گے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہم وبا کے درمیان میں ہیں، ہمارے ارگرد ایسے متعدد افراد ہیں جو کووڈ 9 کا شکار ہوکر صحتیاب ہوئے، مگر ہمیں اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات کے خطرات کے میکنزمز کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی۔

خیال رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 اور خون کے مخصوص گروپس کے درمیان تعلق کے حوالے سے کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بلڈ گروپ اے کے حامل افراد میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

بائیو ٹیکنالوجی کمپنی 23 اینڈ می کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بلڈ او گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس کمپنی کی جانب سے اس حوالے سے کافی عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے جس کے ابتدائی نتائج جون میں جاری کیے گئے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ او گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ وائرس کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں جیسے طبی عملہ اور ضروری کاموں میں مصروف افراد یا ایسے لوگ جو کسی متاثرہ فرد کے رابطے میں رہتے ہیں، تو ان میں او بلڈ گروپ افراد میں وائرس کا خطرہ 13 سے 26 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے دیگر بلڈ گروپس کے خطرے میں کوئی نمایاں فرق دریافت نہیں کیا مگر یہ ضرور بتایا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کا ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق پر اپریل میں کام شروع ہوا تھا اور اس میں شامل رضاکاروں سے سروے میں سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے جیسے کیا انہیں فلو یا نزلہ زکام جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کب ان میں تشخیص ہوئی، علاج ہوا یا کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونا تو نہیں پڑا۔

ان رضاکاروں کی جینیاتی معلومات بھی حاصل کی گئی۔

ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اے بی او جین جو مختلف بلڈ گروپس کا تعین کرتا ہے، بیماری کی تشخیص کا خطرہ کم کرتا ہے۔

او بلڈ گروپ کے مریضوں کی مجموعی تعداد 1.3 فیصد تھی جبکہ اے بلڈ گروپ کے مریضوں کی تعداد 1.4 اور بی اور اے بی بلڈ گروپس کے مریضوں کی تعداد 1.5 فیصد تھی۔

اس سے قبل جولائی میں بھی ایک تحقیق بھی بتایا گیا تھا کہ او بلڈ گروپ والے مریضوں میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان اے، بی یا اے بی کے حامل افراد کے مقابلے میں کسی حد تک کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں 13 سو کے قریب کورونا وائرس کے مریضوں کے خون کے گروپس کا جائزہ لیا گیا تھا جو میساچوسٹس کے 5 ہسپتالوں میں مارچ اور اپریل کے دوران داخل ہوئے تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ او بلڈ گروپ کورونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت آنے کا امکان کم کرتا ہے جبکہ بی اور اے بی ٹائپ میں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں اے بلڈ گروپ کا وائرس کی تشخیص کے حوالے سے کوئی لنک سامنے نہیں آسکا۔

مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ او بلڈ گروپ کے مالک افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ مختلف بلڈ گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں فرق ممکنہ طور پر خون میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

جون میں جرمنی اور ناروے کے سائنسدائنوں کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ خون کا ایک مخصوص گروپ بھی اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت میں نمایاں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی سنگین ترین قسم کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں انسانی جینوم میں ایسے 2 مقامات دریافت کیے گئے جو کووڈ 19 کے شکار افراد میں نظام تنفس ناکام کرنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، ان میں سے ایک مقام اس جین میں تھا جو خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کووڈ 19 ہونے کی صورت میں آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

تاہم تحقیق میں شامل جرمنی کی کایل یونیورسٹی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے۔

انہوں نے کہا ‘ہم اب تک یہ فرق نہیں کرسکے تھے کہ بلڈ گروپ یا بلڈ گروپ سے منسلک کچھ جینیاتی عناصر بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے کام کے دوران ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد تخمینہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فیصد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے’۔

محققین نے اٹلی اور اسپین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج کووڈ 19 کے 1610 مریضوں کے خون کے نمونے جمع کیے گئے جن کو آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی تھی، خون کے نمونوں میں سے ڈی این اے کو اکٹھا کرکے ایک تیکنیک جینوٹائپنگ کے ذریعے اسکین کیا گیا۔

بعد ازاں ان کا موازنہ ایسے 2205 افراد سے کیا گیا جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے تھے۔

محققین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈی این اے کا بھی تجزیہ کیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ ان میں کسی قسم کا جینیاتی کوڈ مشترکہ تو نہیں۔

مگر محققین اس حوالے سے تاحال پریقین نہیں کہ یہ تعلق کیوں موجود ہے۔

Exit mobile version