ان دنوں ہم لوگوں نے بھی آہ و زاری کے لئے یہودیوں کی طرح اپنی اپنی دیوار گریہ تعمیر کر رکھی ہے تاہم سب سے بڑی دیوار گریہ واشنگٹن میں ہے اگر وہاں سے معافی مل جائے تو سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں بصورت دیگر منزل دور ہو جاتی ہے۔
یہ وہ آستانہ ہے جہاں سے معافی ملتی ہے یا پھانسی اور یا جلاوطنی۔ یہ ساری ذلتیں ہمیں اس لئے ا ٹھانا پڑتی ہیں کہ ہم سے وہ ایک سجدہ ادا نہیں ہوتا جو آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے۔
ہماری آنکھوں سے عرق انفعال کے وہ قطرے نہیں ٹپکتے جو شان کریمی موتی سمجھ کر چن لیتی ہے اور نتیجہ یہ کہ ہم در در دھکے کھاتے ہیں۔ اپنی اپنی دیوار گریہ پر حاضری دیتے ہیں لیکن اس سے صرف ہماری ذلتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
میں جب اقبال کو پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ خدا نے کنول کا یہ پھول کن پانیوں میں اگایا ہے؟ گزشتہ رات کلیات ِاقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے میں ایک دفعہ پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اقبال اپنی گری پڑی ہوئی قوم کو کھینچ کر اپنی سطح پر لانا چاہتا ہے لیکن قعر مذلت میں گری ہوئی قوم کے سبھی طبقے اسے کھینچ کر اپنی سطح پر لانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ہم کلیاتِ اقبال میں سے اپنے سائز کا اقبال تلاش کرتے ہیں اور پھر اسے محفلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ اقبال وہ جن ہے جس کا قد آسمان سے باتیں کررہا ہے اور جس کے بازو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اسے دیکھ کر ہمیں اپنی کوتاہ قامتی کا احساس ہونے لگتا ہے چنانچہ ہم جنتر منتر پڑھ کر اس جن کو مکھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح پرانی داستانوں میں کوئی مکروہ جادوگر کسی خوبصورت شہزادے کو مکھی بنا کر بوتل میں قید کردیتا ہے۔
اقبال ممولے کو شہباز سے لڑانا چاہتا ہے لیکن ہم وہ ممولے ہیں جو خود شکار ہونا چاہتے ہیں ۔اقبال ذہنوں کو کشادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ دماغ کو کام کرنے کی اجازت دینی چاہئے لیکن ہم ہیں کہ دولے شاہ کے چوہے بننے پر اصرار کرتے ہیں۔ اقبال کو ’’ملّا‘‘ سے کیوں چڑ ہے؟
صرف اس لئے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے سے بڑے ملّا کی سند تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے اور یوں اس کا ذہن کشادہ نہیں ہوپاتا؎
فقیہ شہر کی تحقیر، کیا مجال میری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد!
سبھی طبقے محروم ہوچکے ہیں۔ بعض اوقات ہماری عدالتیں بھی ذہنی کشادگی سے محروم نظر آتی ہیں۔ہم لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اختلافی رائے سن ہی نہیں سکتے۔
ہمارا ایک محدود نقطہ نظر ہے جو محدود خواہشات سے پیدا ہوا ہے، جو اس کے منافی بات کرتا ہےوہ گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ ہماری قوم دنیا کی شاید واحد قوم ہے جو پوری زندگی اپنا صرف ایک ہاتھ استعمال کرتی ہے ، دوسرے ہاتھ سے کھجلاتی رہتی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ دائیں ہاتھ کو اہمیت دیتے ہیں اور کچھ بائیں ہاتھ کو، چنانچہ پوری قوم دائیں اور بائیں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اب اس تقسیم کی نوعیت اور طرح کی ہے۔
کاش سوچ کے یہ دونوں انداز متوازن راستہ اختیار کریں اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے دونوں ہاتھ استعمال کرسکیںمگر اللہ جانے ہمیں ’’ٹنڈا‘‘ کہلوانے کا اتنا شوق کیوں ہے؟
جھگڑا لیفٹ رائٹ میں نہیں ،رائٹ اور رانگ میں ہونا چاہئے، اگر کوئی شخص پاکستان پر ایمان رکھتا ہے اور یہاں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے تو اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔
اگر کسی شخص کے ذہن میں پاکستان کو خوبصورت بنانے کا کوئی اور نقشہ ہے اور ہمیں اس کی جزئیات سے اختلاف ہے تو بھی ہمیں اس کی بات پورے تحمل سے سننا چاہئے لیکن اگرکوئی شخص برصغیر کے مسلمانوں کی ا س عظیم پناہ گاہ کو اکھنڈ بھارت بنانے اور یوں تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو اس سے مفاہمت نہیں ہوسکتی۔
اخبارات اگر ایسے لوگوں یا ایسی جماعتوں کو پروجیکٹ کرتے ہیں تو وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک شخص کتا لئے جارہا تھا کسی نے اسے روکا اور کہا’’یہ کتا مجھے خاصی گھٹیا نسل کا لگتا ہے‘‘ کتے والے صاحب نے کہا’’نہیں یہ بہت اعلیٰ نسل کا کتا ہے‘‘واقف کار نے نفی میں سر ہلایا اور کہا’’اے ڈاگ ازنون بائی دی کمپنی ہی کیپس‘‘(کتا اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے)۔ اب یہ کام قوم کا ہے کہ وہ دیکھے کہ کس کی گردن میں کس کی زنجیر ہے ۔
آج کے بہت سے جاگیرداروں کے بزرگ انگریز کے ایجنٹ تھے اور ان کی جوتیاں صاف کرتے تھے اور انہی جاگیرداروں کی اولاد ہم پر حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ ڈیڑھ سو سال بعد اقبال اور قائد اعظم کی کوششوں سے ایک بار پھر ہمیں اس خطے میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا ہے۔ خدا کیلئے اب غداروں سے ہوشیار رہیں۔
ان کے چہرے کی پلاسٹک سرجری پر نہ جائیں، ان کی چکنی چپڑی باتوں پر کان نہ دھریں صرف یہ دیکھیں کہ انہوں نے ماضی میں کیا کیا ہے ؟اور ان دنوں کیا کررہے ہیں؟ اگر پرامن تحریک آزادی کشمیر سبوتاژ ہوتی ہے، ایٹمی پلانٹ کو کچھ ہوتا ہے،
پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہوتی ہے تو پاکستانی قوم اب اپنے غداروںکو معاف نہیں کرے گی۔ خدانخواستہ اگر پاکستان کو کچھ ہوتا ہے تو یاد رکھیں پورے برصغیر میں کوئی ایسی دیوار گریہ نہیں ہے جس سے لپٹ کر ہم رہ سکیں۔ شان کریمی بے غیرتی کے آنسو موتی سمجھ کر نہیں چنا کرتی،
انہیں کھولتے ہوئے پانیوں میں تبدیل کردیتی ہے اور جہنم کے اس ابلتےتالاب میں گناہگار اور ان کی آنے والی نسلیں ابد تک قیام کرتی ہیں۔