غیر قانونی اسرائیلی آباد کاری کی سرگرمیوں میں ملوث کمپنیوں کی فہرست تیار کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی پر غصے میں مبتلا اسرائیل نے ایجنسی کے عملے کا کئی مہینوں سے ویزا روک رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کے ترجمان روپرٹ کولویل نے ایک ای میل میں کہا کہ ‘ویزا کی درخواستوں سے باضابطہ طور پر انکار نہیں کیا گیا ہے تاہم اسرائیلی حکام نے جون سے ہی ویزا کا اجرا یا اس کی تجدید پر ٹال مٹول سے کام لیا ہے’۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل نے دفتر کے کسی بھی ویزا درخواست سے باضابطہ انکار نہیں کیا ہے تاہم نئے ویزا کی درخواستوں یا اس میں تجدید کی درخواستوں پر عمل نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘بین الاقوامی عملے کے پہلے رکن کے ویزا ختم ہونے کے بعد اگست میں اسے وہاں سے جانا پڑا تھا، اس کے بعد سے اب تک ایسے 9 اراکین کے ویزا کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے انہیں وہاں سے رخصت ہونا پڑا ہے’۔تحریر جاری ہے
انہوں نے کہا کہ ‘3 نیا بین الاقوامی عملہ تعینات نہیں کر سکے ہیں کیونکہ انہیں ویزا نہیں دیا گیا ہے’۔
ایجنسی کے صرف تین بین الاقوامی عملے کے اراکین کے پاس ابھی بھی ملک میں کام کرنے کے لیے درست ویزا موجود ہے۔
روپرٹ کولویل نے افسوس کا اظہار کیا کہ ‘یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورتحال کی جارہی ہے جس سے ہمارے مینڈیٹ کو پورا کرنے کی ہماری صلاحیت پر منفی اثر پڑے گا’۔
اسرائیل نے سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی وضاحت فراہم نہیں کی ہے۔
یہ رکاوٹ اقوام متحدہ کے کے دفتر کی جانب سے فروری میں اسرائیلی آباد کاریوں کی سرگرمیوں میں ملوث 100 سے زائد کمپنیوں کی فہرست جاری کرنے کے بعد سامنے آئی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں۔
اس وقت اسرائیل نے اس اقدام کو ‘شرمناک’ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس فہرست کو آباد کاریوں سے تعلقات رکھنے والے اداروں کے بائیکاٹ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اعلان کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کے ساتھ اپنے تعلقات معطل کردے گا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے رابطے پر بتایا کہ ان کے پاس فروری میں جاری کردہ بیان میں شامل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ میں ‘اسرائیل مخالف امتیازی سلوک’ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو روکنے کے لیے ‘کارروائی’ کرنے کا عزم کیا تھا۔
روپرٹ کولوِیل نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے حقوق کی ایجنسی کے دفاتر کھلے ہیں جس میں 26 قومی عملے کے ممبر اور بقیہ تین بین الاقوامی عملہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ بقیہ بین الاقوامی عملہ دور سے ہی کام کر رہا ہے اور اس کا اب تک آپریشنز پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ کورونا وائرس کی صورتحال کی وجہ سے ویسے بھی بہت سے مقامات پر دفتر سے دور رہ کر کام معمول بن گیا ہے۔