احسن اقبال بھی کرپٹ نکلے! بائیس کروڑ کی آبادی میں اب پاک باز اور دیانت دار کتنے رہ گئے؟ عمران خان، مراد سعید، فیصل واوڈا یا ان جیسے چند نیک طینت؟ اللہ کا شکر ہے یہ نفوسِ قدسیہ باقی ہیں ورنہ ہم تو عذابِ خداوندی کو آواز دے بیٹھے تھے۔ اتنی کرپشن… اف توبہ!
احسن اقبال تو چالاک بھی بہت تھے۔ کسی کو اپنی دولت کی ہوا نہیں لگنے دی۔ ایک روز، ایک مشترکہ دوست کے ساتھ، میں ان کے گھر گیا۔ بنی گالہ میں کہیں دور ایک مکان میں وہ رہتے تھے۔ مجھے بڑے شوق سے اپنی کتابیں دکھائیں کہ اس گھر میں شاید دکھانے کے لیے یہی کچھ تھا۔ ‘تدبرِ قرآن‘ سب سے اوپر رکھی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مولانا امین احسن اصلاحی سے میرا محبت اور عقیدت کا تعلق ہے، بطورِ خاص اس کی طرف متوجہ کیا۔ مولانا، احسن صاحب کے خالو بھی تھے۔
واپس لوٹا تو اپنے ہم راہ سے سوال کیا کہ انہوں نے اتنی دور گھر کیوں لیا؟ شہر کے کسی پُررونق علاقے میں رہتے تو ملنے والوں کو آسانی ہوتی۔ پتا چلا کہ مجبوری تھی۔ اسلام آباد میں کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جہاں اس سے کم کرائے پر گھر مل سکتا۔ آج جب معلوم ہوا کہ انہوں نے بہت مال بنایا ہے تو مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا اور میں نے سوچا: کتنا چالاک آدمی تھا؟ کیسے کھلا دھوکہ دیا؟
مجھے یہ بھی یاد آیا کہ نواز شریف صاحب نے انہیں سیکرٹری اطلاعات بنانا چاہا تو گریز کرتے رہے۔ درخواست کی کہ انہیں یہ منصب نہ دیا جائے۔ وجہ یہ بتائی کہ کل وقتی سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔ انہیں گھر چلانے کے لیے کوئی کام کرنا ہے۔ کوئی نوکری، کوئی ملازمت۔ اہم پارٹی منصب کے ساتھ وہ یہ نہیں کر پائیں گے۔ وہ کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار تو ہیں نہیں کہ زمینوں اور ملوں سے پیسہ آتا رہے گا اور وہ سیاست کا شوق فرماتے رہیں گے۔ میاں صاحب نے ان کی بات نہیں مانی۔
دو دن پہلے ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں ایک روایت بیان کی جو کسی واسطے سے مجھ تک پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل کی میرے دل میں بہت قدر ہے۔ اس لیے ان کی بات کو دھیان سے سنا۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام عمر درس و تدریس میں گزاری۔ گزشتہ کئی برسوں میں مختلف جامعات میں پڑھاتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے انہیں بتایا کہ احسن اقبال ان کے پاس آئے تھے۔ وہ بطور وزیٹنگ پروفیسر پڑھانا چاہتے تھے۔ امریکی یونیورسٹی کے ایک فارغ التحصیل کو، اپنا گھر چلانے کے لیے یہی ایک راستہ معلوم تھا۔ یا پھر کوئی تحقیقی ادارہ اپنے کسی منصوبے کے لیے ان سے ماہرانہ مشاورت چاہے، جسے مارکیٹ کی زبان میں ‘کنسلٹنسی‘ (Consultancy) کہتے ہیں۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ان کے دورِ وزارت میں، میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک دو مرتبہ، سرِ راہ آمنا سامنا ہوا۔ ایک بار ایک تقریب کے دوران میں، جب جامعات میں ‘سیرت چیئرز‘ کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ پشاور کے لیے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کا انتخاب کیا گیا۔ احسن صاحب چاہتے تھے کہ ہماری جامعات میں رسالت مآبﷺ کی سیرت پر اس پہلو سے تحقیق کا عمل شروع ہو کہ ہم جدید اداروں کی تشکیل میں سیرتِ سراجِ منیر سے روشنی لے سکیں۔ انہیں اس پر افسوس تھا کہ ملک میں ایسے افراد میسر نہیں جنہیں ان چیئرز پر تعینات کیا جا سکے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں اس بے مائیگی کا ذکر بھی کیا تھا۔
آج جب سنا کہ احسن اقبال صاحب بھی ملک کے کرپٹ لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں تو مجھے اُن کا یہ خواب یاد آیا۔ دل میں اضطراب کی لہر اٹھی جسے میں نے زبردستی دبا دینے کی کوشش کی۔ خود کو تسلی دی کہ جب انہیں کرپٹ کہہ دیا گیا تو مجھے بھی مان لینا چاہیے۔ اب اگر وہ کرپٹ نہیں ہیں تو یہ ثابت کرنا ان کا کام ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں۔ جب تک وہ یہ ثابت نہیں کرتے، مجھے انہیں کرپٹ ہی سمجھنا چاہیے۔
مجھے لگا کہ اس ملک کے عوام بھی یہی سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ نون لیگ بھی۔ کسی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی، سوائے رسمی بیان بازی کے۔ نون لیگ تو لگتا ہے کہ شریف خاندان سے لے کر احسن اقبال تک، سب کے بارے میں وہی رائے رکھتی ہے جو مراد سعید صاحب کی ہے۔ عدالت بے شک رانا ثنااللہ کو ضمانت دے دے لیکن نون لیگ شہریار آفریدی صاحب کی طرح رانا صاحب کو مجرم ہی سمجھتی ہے۔ لیگیوں نے بھی آخر خدا کو جان دینی ہے، اس لیے وہ کسی مجرم کے حق میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے؟
احسن صاحب کی گرفتاری کے بعد، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں ہر کوئی کرپٹ ہے سوائے چند کے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ یہاں تحریک انصاف موجود ہے۔ ورنہ ہم دنیا کو کیا منہ دکھاتے۔ خان صاحب کو بھی اس بات کی بہت فکر ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک ہی جماعت ہو یا زیادہ سے زیادہ ق لیگ اور ایم کیو ایم۔ ذرا سوچیے! اگر ملک میں پیپلز پارٹی نہ ہو، نون لیگ نہ ہو، جمعیت علمائے اسلام نہ ہو تو یہ ملک کتنا صاف شفاف ہو جائے؟ نہ نون لیگ ہو گی نہ احسن اقبال۔ نہ جمعیت علمائے اسلام، نہ فضل الرحمن۔ پھر تحریک انصاف ہو گی اور بی آر ٹی جیسے منصوبے۔ اللہ اللہ خیر سلا!
ممکن ہے اس موقع پر بعض کوتاہ اندیش جمہوریت کا راگ الاپیں۔ کوئی بنیادی انسانی حقوق کی دہائی دے۔ کوئی سماجی زوال کا قصہ چھیڑے۔ کوئی بتائے کہ اس سے شخصی حکومت اور آمریت جنم لے گی جسے فسطائیت کہتے ہیں۔ ایسی کسی آواز پر ہم نے کان نہیں دھرنا۔ کم عقلوں کو اندازہ ہی نہیں کہ اصل مسئلہ کرپشن ہے اور وہ بھی اس جماعت کی جو اپوزیشن میں ہو۔ کرپشن کے خاتمے کی پہلی سنجیدہ کوشش 2018ء کے انتخابات سے پہلے ہوئی جب سب کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کی مہم چلی۔ دوسری انتخابات کے بعد جب کرپٹ عناصر کے گرد قانون کا شکنجہ کسا گیا۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کو اس وقت کئی خارجی خطرات کا سامنا ہے‘ لیکن ان خطرات کا کوئی تعلق جمہوریت کے مستقبل یا آزادیٔ رائے یا سماجی ارتقا یا معاشی ترقی سے نہیں ہے۔ ان خطرات کا سامنا کرنے کے لیے یہ بہت ہے کہ قوم کسی مخصوص معاملے میں یک زبان ہو۔ کسی کے حق میں جلوس برآمد ہوں، پوسٹر لگیں۔ اس وقت قوم کا ایجنڈا یہی ہونا چاہیے۔ اس سے ملک دشمن حلقوں کو یہ پیغام جائے گا کہ قوم بیرونی خطرات کے خلاف متحد ہے۔ اور ہاں، شاہد خاقان اور احسن اقبال جیسوں کے خلاف تو شدید کارروائی کو ایک دن بھی مؤخر نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا کوئی تعلق ملکی سلامتی یا استحکام سے نہیں ہے۔
سننے میں آ رہا تھا کہ احسن اقبال اب شہباز شریف کیمپ میں تھے۔ گویا مصلحت کوشی کو شعار کیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر کرپشن کا تمغہ ان کے گلے میں کیوں لٹکا دیا گیا ہے؟ اس کا جواب تو شہباز شریف صاحب کو دینا ہے۔ یہ احسن صاحب جانیں اور شہباز صاحب جانیں۔ مجھے تو لگتا ہے نون لیگ کو بھی اب گناہِ بے لذت ہی میں لذت آنے لگی ہے؟
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
21 دسمبر کو احسن صاحب کا ایک میسج ملا۔ وہ ‘نظریہ قائد‘ (Quid Doctrine) پر میری رائے جاننا چاہتے تھے کہ 25َ دسمبر کو انہیں اس موضوع پر بات کرنا تھی۔ 24 دسمبر ہی کو انہیں تیرہ دن کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ 25 دسمبرکا دن انہوں نے قید میں گزارا۔ معلوم نہیںاس دن انہیں ‘قائد ڈاکٹرائن‘ کا کتنا خیال آیا ہو گا؟ وہ سوچتے ہوں گے: قائد نے کیا اسی ‘آزادی‘ کے لیے جدوجہد کی تھی؟
قائد کا نظریہ جو بھی تھا، ہم نے تو پاکستان کو شاہد خاقان اور احسن اقبال جیسے کرپٹ لوگوں سے نجات دلانا ہے۔ پاکستان اسی وقت ترقی کرے گا جب اِس کی قیادت مراد سعید، زلفی بخاری، فیصل واوڈا اور زرتاج گل صاحبہ کے ہاتھ میں ہو گی۔ نیا پاکستان، نئی قیادت! صاف چلی، شفاف چلی‘ تحریکِ انصاف چلی!