قومی ٹیم کے مایہ ناز فاسٹ باؤلر عمر گل نے ہر طرز کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
جمعہ کو نیشنل ٹی20 کپ میں اپنی ٹیم بلوچستان کے ایونٹ سے اخراج کے بعد 36سالہ عمر گل نے ہر طرز کی کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
اپنی عمدہ یارکرز کی وجہ سے ‘گُل ڈوزر’ کے نام سے مشہور عمر گل نے 2003 میں بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف بالترتیب ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا اور 47 ٹیسٹ، 130 ون ڈے اور 60 ٹئی20 میچوں میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی
انڈر 19 سطح پر پاکستان کی نمائندگی خصوصاً 2002 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی جرسی پہننے والے عمر گل نے صرف 9 فرسٹ کلاس میچز کھیلے تھے جب 2003 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد قومی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے نتیجے میں انہیں پاکستانیی ٹیم کے لیے طلب کیا گیا۔
بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں نوجوان عمر گل نے 15 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن دراصل انہیں اصل شہرت 2004 میں پاکستان کے دورے پر آئی بھارتی ٹیم کے خلاف عمدہ باؤلنگ سے ملی۔
ملتان میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں مہمان ٹیم کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد عمر گل کو لاہور ٹیسٹ کے لیے پاکستانی ٹیم کا حصہ بنایا گیا اور یہ فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا۔
سچن ٹنڈولکر اور وی وی ایس لکشمن سمیت تمام بھارتی بلے باز عمر گل کی سوئنگ باؤلنگ کے سامنے بے بس نظر آئے اور انہوں نے اننگز میں 5 وکٹیں لے کر پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھی، اس عمدہ باؤلنگ پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا اور پاکستان نے باآسانی میچ جیت لیا۔
عمر گل کا بین الاقوامی ٹیسٹ کیریئر 2003 سے 2016 تک جاری رہا لیکن اس دوران وہ انجری مسائل کی وجہ سے پاکستان کی مستقبل نمائندگی نہ کر سکے۔
ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ سے قطع نظر ٹی20 کرکٹ دنیا بھر میں مقبول ہوئی تو عمر گل اس فارمیٹ کے سب سے کامیاب باؤلر کے طور پہر ابھر کر سامنے آئے اور 2007 اور 2009 کے ورلڈ ٹی20 میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر رہے۔
اپنی شاندار یارکرز کی وجہ سے وہ دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے وبال جان بنے رہے اور ایک عرصے تک ٹی20 کرکٹ میں عالمی نمبر ایک باؤلر کے منصب پر فائز رہے۔
عمر گل نے 2007 کے ورلڈ ٹی20 میں نیوزی لینڈ کے خلاف صرف 6رنز دے کر 5 وکٹیں لی تھیں جو اس وقت اس فارمیٹ میں بہترین باؤلنگ کا عالمی ریکارڈ تھا۔
2012 تک عمر گل قومی ٹیم کا مستقل حصہ رہے خصوصاً ون ڈے اور ٹی20 میں ان کی کاکرردگی قابل ستائش تھی جبکہ 2010 کے لارڈز ٹیسٹ میں محمد آصف اور محمد عامر پر پابندی کے بعد مشکل وقت میں معر گل نے ہی پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ لائن کو سہارا دیا تھا۔
لیکن 2012 میں گھٹنے کی انجری کے بعد ان کی کارکردگی پہلے جیسی نہ رہی، ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتی ہوئی کارکردگی اور رفتار کے نتیجے میں انہیں قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
گھٹنے کی سرجری کی وجہ سے 2013 اور 2014 کے اکثر حصے میں وہ وہ قومی ٹیم کی نمائندگی نہ کر سکے جس کے نتیجے میں سینٹرل کنٹریکٹ بھی حاصل نہ کر سکے اور 2015 ورلڈ کپ اسکواڈ میں بھی انہیں شامل نہیں کیا گیا۔
عمر گل نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ 2013 میں دورہ جنوبی افریقہ کے دوران کھیلا تھا جبکہ 2016 میں آخری ون ڈے اور ٹی20 میچ کھیلا تھا۔
عمر گل نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے اہلخانہ، دوستوں، ٹیم کے کھلاڑیوں اور کوچز کا مکمل تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ دو دہائیوں تک مختلف سطح پر اپنے ملک، کلب، شہر اور صوبے کی نمائندگی کرنا اعزاز کی بات ہے، میں اپنے پورے کیریئر سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوا جس نے مجھے سخت محنت، احترام، عزم و ہمت اور فیصلہ کن ارادے جیسی اقدار سکھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے کیریئر میں مختلف لوگوں سے ملا جنہوں نے مجھے کسی نہ کسی طرح سکھایا یا مدد کی، میں ان تمام لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں 400 سے زائد وکٹیں لینے والے فاسٹ باؤلر نے کیریئر میں مکمل سپورٹ کرنے پر اپنے شائقین اور اہلخانہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔