میری والدہ کے گھر والوں نے 12 سال کی عمر میں اُن کی منگنی کر دی تھی اور جب وہ 14 برس کی تھیں تو انھیں رخصت کر کے اُن کے شوہر کے گھر بھیج دیا گیا۔
جب اُن کی اپنے والدین کے گھر سے رخصتی ہوئی اُس وقت وہ مکمل طور پر جوان بھی نہیں ہو پائی تھیں۔ میری والدہ کے جوانی کے خواب اور آرزوئیں کبھی پوری نہ ہو پائیں۔
فیروزہ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ’اور حقیقت پوچھیے تو یہ (اتنی کم عمر میں رخصتی) میرے والد کا فیصلہ بھی نہیں تھا۔ شادی کے بعد میری والدہ اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری نہ رکھ پائیں تھیں۔‘
فیروزہ اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں یعنی 14 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی۔ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
فیروزہ بتاتی ہیں کہ ’میری والدہ نے انتہائی کم کم وقفے سے 14 بچوں کو جنم دیا۔ میرے والد نے میری والدہ پر بہت ظلم کیا۔ میری والدہ اس قابل بالکل نہیں تھیں کہ وہ اُوپر تلے 14 بچوں کو جنم دیں مگر میرے والد نے اُن کی جنسی اور جسمانی مسائل کو بالکل نظرانداز کیا اور بغیر کسی احتیاط کے، جیسا کہ حمل ٹھہرنے سے روکنے کے لیے کنڈوم یا مانع حمل گولیوں کا استعمال، یہ سلسلہ جاری رکھا۔‘
’نتیجہ یہ ہوا کہ میری والدہ نے 14 بچوں کو جنم دیا اور پھر وہ بیمار رہنے لگیں۔‘
فیروزہ کا ماننا ہے کہ اگرچہ اُن کے والد نے انھیں کبھی بھی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کو نہیں کہا مگر انھوں نے ’میری والدہ کو بےتحاشہ ظلم کا نشانہ بنایا۔‘
’میں اپنے بہن بھائیوں میں 14ویں نمبر پر ہوں اور جب میری پیدائش ہوئی تو میری والدہ اس قابل بھی نہیں رہیں تھی کہ وہ میری دیکھ بھال کر سکیں، مجھے کبھی بھی ممتا کا پیار نہیں ملا۔‘
فیروزہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ اب میری والدہ ایک مریضہ بن چکی ہیں مگر انھیں اب بھی میرے والد کی ’اطاعت‘ کرنی پڑتی ہے۔‘
اسلامی فقہ میں’اطاعت‘ کیا ہے؟
فضل الرحمان فقیہی ہرات کی ایک یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے پروفیسر اور محقق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اطاعت کا مطلب اپنے اوپر کسی کو اختیار دینا ہے۔ اور بیوی اور شوہر کے رشتے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’شوہر کو حاصل حقوق کے تحت بیوی اُس کے ساتھ رہے اور رات کو اس کے قریب سوئے۔ (اور ایسا کرتے ہوئے بیوی) شرم محسوس نہ کرے اور سرکشی کا رویہ نہ اپنائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ادارہ جاتی فقہ کے مطابق یہی ’اطاعت‘ ہے اور ’جب بھی کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ قربت کے معاملے میں بے اعتنائی برتے تو یہ نافرمانی ہو گی۔‘
مرد کی جنسی خواہشات سے عورت کی نافرمانی کا قانونی نتیجہ
فضل الرحمان کہتے ہیں کہ ’عورت کو لطف اندوز ہونے یا خوشی حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ اپنے آپ کو شوہر کی اطاعت میں دینا چاہیے اور شوہر کی خوشنودی کو کسی خاص وقت، مقام یا معیار تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی بیوی ایسا نہیں کرتی یا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے چلی جاتی ہے یا اپنے شوہر سے اختلاف رائے رکھتی ہے تو کامل اسلامی فقہ کے مطابق شوہر اسے جو نان نفقہ دینے کا پابند ہے وہ اس پابندی سے مستثنی ہو جائے گا۔‘
فضل الرحمان فقیہی کے مطابق ’دیگر وجوہات کے علاوہ مرد دوسری شادی صرف پہلی بیوی کے نافرمان ہونے کی صورت میں بھی کر سکتا ہے۔ شوہر کی دوبارہ شادی کرنے کی ایک وجہ بیوی کی نافرمانی بھی ہو سکتی ہے۔‘
کیا عورت کا جسم ہمیشہ جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے؟
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور برطانیہ میں بطور ماہر اطفال کام کرنے والی ڈاکٹر ایویڈ ڈیہار کہتی ہیں کہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے بچوں میں کم وقفہ رکھنا اُن کی صحت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انتہائی مختصر وقفوں سے خواتین میں حمل ٹھہرنا نہ صرف اُن میں خون کی کمی باعث بنتا ہے بلکہ دائمی جسمانی کمزوری کا بھی، کیونکہ حمل کے دوران اور بعدازاں بچے کی پیدائش کے وقت ماں اپنے جسم میں موجود توانائی کا تمام ذخیرہ صرف کر بیٹھتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بچے کی ولادت کے بعد کسی عورت کے جسم کو معمول میں آنے میں چھ سے آٹھ ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے اور سی سیکشن (یعنی بڑے آپریشن) ہونے کی صورت میں زچہ کے شفایاب ہونے کے عمل میں اس سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
’خواتین کے جسمانی لحاظ سے مختلف افعال ہوتے ہیں۔ خواتین کے ہارمونز حیض کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ہارمونز میں یہ ماہانہ بنیادوں پر ہونے والا اُتار چڑھاؤ افسردگی، تھکاوٹ اور جسم میں کم ہوتی توانائی کا سبب بن سکتا ہے اور ایسی صورت میں خواتین جنسی طور پر تذبذب کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی جنسی خواہش کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
’لہذا اگر شوہر اپنی اہلیہ کے جسم اور رویے میں ہونے والی اِن تبدیلیوں کو بروقت سمجھ پائے تو وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہتر جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ خواتین کے جسم میں ہارمونز کے عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنسی تعلقات کے قائم کرنے کے لیے دستیاب یا تیار نہیں ہو سکتیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ دودھ پلاتی مائیں رت جگے، بے خوابی، اور تھکاوٹ کے باعث بعض اوقات سیکس کرنے کی خواہش عارضی طور پر کھو بیٹھتی ہیں۔ دوسری جانب وہ ہارمونز جو حمل کے دوران بڑے لیول پر ہوتے ہیں وہ بچے کی پیدائش کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں اور ہارمونز کے اس چڑھاؤ اور اتار کی وجہ سے چند خواتین بچے کی ولادت کے بعد افسردگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان میں جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے۔
ایویڈ ڈیہار کہتی ہیں کہ ’ایسی صورتحال میں مردوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس باتوں کو سمجھیں اور گھر کے کام کاج میں اپنی بیویوں کے ہاتھ بٹائیں اور پیدا ہونے والے بچے کی دیکھ بھال میں ان کی مدد کریں تاکہ عورت دن کے اوقات میں تھوڑی دیر سو سکے اور ہارمونل تبدیلیوں کے باعث ہونے والی تھکاوٹ دور کر سکے۔‘
انھوں نے بتایا کہ مینوپاز کے دوران بھی یعنی وہ وقت جب حیض آنا بند ہو جاتا ہے خواتین ہارمونل اتار چڑھاؤ کا تجربہ کر سکتی ہیں جن سے مردوں کو آگاہ ہونا چاہیے۔ مینوپاز صرف حیض کا خاتمہ نہیں بلکہ اس دوران خواتین کو بے چینی، نیند میں دشواری، دھیان دینے میں دشواری اور انتہائی تھکاوٹ ہو سکتی ہے۔ ایسے میں سر درد، پٹھوں اور جوڑوں کے درد میں اضافہ، مباشرت کی خواہش میں کمی، اندام نہانی کی خشکی اور درد اور رات کے اوقات میں زیادہ پسینہ آ سکتا ہے۔
’ایسی صورتحال میں خواتین کو سیکس کرنے پر مجبور کرنا خطرناک ہو سکتا ہے اور اس سے اندام نہانی کے پھٹنے اور خون بہہ نکلنے کے ساتھ ساتھ خواتین پر شدید نفسیاتی ضرب لگ سکتی ہے اور اس کے علاج کے لیے متاثرہ خاتون کو برسوں جسمانی اور ذہنی علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
ایویڈ ڈیہار کے مطابق ’مردوں کو یہ سب سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ ہارمونز کا یہ اتار چڑھاو خواتین کے کنٹرول میں نہیں ہے اور درحقیقت یہ ان کی جسمانی ساخت کا حصہ ہے۔ اور صحت سے متعلقہ اِن عارضی ادوار سے بہتر انداز میں گزرنے کے لیے انھیں ایک ماہر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اپنے شوہروں کی سپورٹ درکار ہوتی ہے۔‘
دوسری رائے
مذہب میں جدت پسندی کے قائل افراد کا ماننا ہے کہ ہر مذہب، ثقافت اور تہذیب کی الگ الگ وضاحتیں کی جا سکتی ہے ، اور دنیا میں کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی وضاحت اس کے تمام پیروکاروں اور مبصرین کے لیے ایک جیسی ہو۔
محمد محق افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک محقق اور مذہب میں جدت پسندی کے قائل ہیں۔ وہ اسلامی معاشروں میں تنوع پر لکھتے ہیں اور اس شعبے میں بہت سی کتابیں اور مضامین شائع کر چکے ہیں اور تقریبا گذشتہ 15 برسوں سے مذہبی جدیدیت پسند تحقیق سے نپٹ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’آج اجتہاد اور غوروفکر کے لیے بہت سی گنجائش موجود ہے۔‘
’جب دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے جا رہے ہیں تو انھیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور اس رشتے (میاں، بیوی) کی بنیاد دونوں لوگوں کے مابین جذباتی لگاؤ اور باہمی برکات پر ہونی چاہیے۔‘
ان کے بقول اگر بات قانونی پہلو کی جائے تو دونوں (میاں بیوی) کو بیٹھ کر بات کرنے کا حق ہے، اور باہمی افہام و تفہیم کے نتیجے میں ہر کوئی اپنی حدود کا تعین کر سکتا ہے، میاں، بیوی کے تعلقات کے آغاز میں بھی یا اس کے بعد کے مراحل میں بھی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی پہلے سے قائم کردہ مسئلہ نہیں ہے کہ خواتین کو سو فیصد مطابقت پذیر (ہر وقت اطاعت کے لیے تیار) ہونا چاہیے اور مردوں کو اس سلسلے میں لامحدود طاقتیں ملنی چاہییں۔
فیروزہ کس نتیجے پر پہنچی ہیں؟
مگر سوال یہ ہے کہ اگر فیروز کی والدہ 14 بچوں کو جنم نہ دیتیں اور اس کام کو روکنے کی کوشش کرتیں تو ان کے ساتھ کیا ہو سکتا تھا؟ ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنے پر انھیں جسمانی سزا دی جاتی، شاید اس کے شوہر دوسرا نکاح کر لیتے یا انھیں طلاق دے دیتے اور نان نفقہ کے حق سے محروم کر دیتے۔
اور اسلامی شریعت کے مطابق چونکہ اُن (فیروز کی والدہ) کے اور اُن کے بچوں کے تمام اخراجات بشمول کھانا پینا، لباس اور دیگر اخراجات ان کے شوہر نے ادا کی تھی اس لیے شاید بچوں کی تحویل بھی انھیں (والد) کے پاس ہوتی۔
ایک ایسی عورت، جس کی بچپن میں شادی کر دی گئی ہو، جو اپنی تعلیم جاری نہ رکھ پائی ہو اور اسے دیگر آزادیاں حاصل نہ ہوں، کے پاس اور کیا انتخاب ہو سکتا ہے ماسوائے یہ کہ وہ اپنے شوہر کی تمام تر جنسی خواہشات کو پورا کرے؟
فیروزہ کہتی ہیں کہ ’اسلام کی حقیقی روح کے مطابق خواتین انتہائی قابل احترام ہیں انھیں ملکہ جیسا درجہ حاصل ہے لیکن افغان معاشرے میں خواتین تعلیم اور انتخاب کے حق سے محروم ہیں، انھیں جسمانی طور پر سزا دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اسلام بالکل بھی ایسا نہیں ہے، یہ سب افغانستان میں رائج ثقافت اور روایات کے باعث ہے۔‘
فیروزہ کی والدہ اور افغانستان میں ہزاروں دیگر خواتین کو اب بھی اپنے شوہروں کے مطالبات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے لیکن فیروزہ نہیں چاہتیں کہ وہ اس ’شیطانی کھیل‘ کو جاری رکھیں۔
وہ چاہتی ہے کہ اُن کے خواب اور خواہشات حقیقت کا روپ دھاریں اور وہ اپنی تعلیم مکمل کریں، ڈاکٹر بنیں اور اپنے شوہر کا انتخاب خود کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’مردوں کی خواہشات کا پابند رہنا قبائلی روایات کی ایک مکروہ ثقافت ہے جو آج کے ہمارے حالات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ روایات خواتین کو جنسی طور پر بدنام کرتی ہیں اور مردوں کو یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جب چاہیں خواتین کا جنسی استحصال کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ مردوں کو اس طرح کا لامحدود حق دینے کی ’سخت مخالف‘ ہیں جو خواتین کے حقوق اور مساوی خاندان بنانے کے امکان کی نفی کرتا ہے۔