منتخب تحریریں

ناکامی، مایوسی اور امید

Share

ناکامی دراصل محض خالی خولی ناکامی کا نام نہیں، یہ مایوسی اور نا امیدی کا نام ہے۔ جیسا کہ فیض احمد فیض کا شعر ہے ؎
دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے
یہ 1990ء کا واقعہ ہے۔ اس کی مانچسٹر سے لندن جانے والی ٹرین لیٹ ہو گئی تھی۔ اس کہانی کا پہلے پہل خیال اسی انتظار کے دوران اس کے دماغ میں آیا تھا۔ لیکن یہ محض بنیادی خاکہ تھا۔ ابھی چیزیں اس کے ذہن میں واضح نہیں تھیں۔ یہ کہانی اس کے دماغ میں اگلے سات سال گردش کرتی رہی اور اس کی جزئیات اس کے ذہن میں اس کہانی کو مکمل کرتی رہیں۔ وہ چالیس سال کی ہو چکی تھی اور ابھی تک خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بطور محقق اور مترجم کام کرنے کے عوض ملنے والا معاوضہ برطانیہ میں زندگی گزارنے کے لیے اس حد تک کافی تھا کہ وہ اپنی بنیادی ضرورتیں بہرحال آسانی سے پوری کر سکتی تھی مگر اسے خوشحال زندگی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ گھر، گاڑی، کھانا پینا اور پہننا وغیرہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جو وہاں معمولی سے معمولی نوکری کرنے والے کو بھی بہرحال میسر ہوتی ہیں۔ کم از کم اجرت کے قانون نے کام کرنے والے کو یہ ضروریات پوری کرنے کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ یہ وہ سہولیات ہیں جو وہاں ہر محنت سے کام کرنے والے شخص کو حاصل ہیں۔ لیکن اسے آپ خوشحالی نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے ہاں صرف یہی چیزیں خوشحالی کی علامات سمجھی جاتی ہیں۔
اگلے سات سال اس کے لیے مشکل بھی تھے اور جذباتی طور پر مشکل تر بھی۔ اسی دوران اس کی ماں بیمار ہوئی اور رخصت ہوئی۔ اس کی پہلی بیٹی بھی انہی سات سال کے دوران پیدا ہوئی اور اس کا خاندان ایک اور مشکل مرحلے سے گزر کر بکھر گیا۔ 1995ء میں اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی۔ شدید ڈپریشن اور جذباتی طور پر بکھری ہوئی اس خاتون نے اس مرحلے پر بکھرنے کے بجائے خود کو سمیٹا اور اپنے ڈپریشن کو اپنی کمزوری کے بجائے اپنی طاقت بنایا اور لکھنا شروع کر دیا۔ گزشتہ پانچ سات سال کے دوران وہ اپنے ذہن میں جس کہانی کے تانے بانے بنتی رہی تھی اسے اس نے سپرد قلم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپرد قلم کرنا محض محاورہ ہے۔ وہاں لوگ کہانی قلم سے لکھنے کے بجائے ٹائپ کرتے ہیں۔ لیکن یہ کتاب واقعتاً ہاتھ سے ہی لکھی گئی تھی۔ پہلی بار کتاب لکھنے والی مصنفہ کے پاس تب ٹائپ رائٹر بھی نہیں تھا۔ اس نے کہانی ڈیڑھ پونے دو سال میں مکمل کی اور اسے ایک پبلشر کے پاس لے گئی۔ پبلشر نے اس کا مسودہ دیکھا‘ پڑھا اور مسترد کر دیا۔ یہ ابھی محض ابتدا تھی۔
پانچ سال کی سوچ اور ڈیڑھ پونے دو سال کی مشقت۔ یعنی تقریباً سات سال کی مسلسل عرق ریزی، اور انجام کیا نکلا؟ پبلشر نے مسودہ مسترد کر کے اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ذہنی، جذباتی اور گھر ٹوٹنے کے صدموں کے بعد یہ ایک اور تازیانہ تھا۔ ڈپریشن کی اس منزل پر کوئی اور ہوتا تو شاید یہ مسودہ ردی کی ٹوکری میں پھاڑ کر پھینک دیتا مگر اسے نہ جانے کیوں اپنی لکھی ہوئی کہانی پر اور اپنے قلمبند کیے گئے خیال پر بہت زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ یہ مسودہ لے کر ایک اور پبلشر کے پاس گئی لیکن پبلشر بدلنے کے باوجود نتیجہ نہ بدلا اور اس پبلشر نے بھی مسودہ دیکھنے کے بعد اسے مسترد کر دیا۔ دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا۔ یہ سلسلے اگلے گیارہ پبلشرز تک چلا۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کسی کتاب کے مسودے کو لگاتار بارہ پبلشر مسترد کر دیں اور پہلی بار کہانی لکھنے والی مصنفہ ان ناکامیوں پر مایوس ہونے کے بجائے اسے تیرھویں پبلشر کے پاس لے جائے۔ لیکن بارہویں ناکامی بھی اسے مایوس نہ کر سکی۔ ان تمام ناکامیوں کے باوجود اس کی امید ابھی زندہ تھی۔ وہ مسودہ تیرہویں پبلشر کے پاس لے کر گئی۔ پبلشر نے مسودہ رکھ لیا اور اسے کہا کہ وہ اسے دیکھ کر فیصلہ کرے گا کہ وہ اسے چھاپے گا یا نہیں۔
اس تیرہویں پبلشر نے اس مسودے پر موٹی موٹی نظر دوڑائی اور اس نے اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی اثنا میں اس پبلشر نے یہ مسودہ اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے دے دیا۔ اس کی بیٹی اس مسودے کو پڑھنے لگی تو جیسے اس میں کھو گئی۔ یہ کھو جانا محض محاورہ نہیں، وہ واقعتاً اس کہانی کو پڑھتے ہوئے ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی۔ یہ نئی دنیا کیا تھی؟ ایک جادونگری تھی۔ کتاب ختم کر کے اس نے اپنے باپ کو کہا: یہ تحریر کتاب کی صورت بننی چاہئے‘ ہر حال میں۔ پبلشر باپ نے اپنے تجربے کو درمیان میں ڈال کر اسے مسترد کرنے کا اپنا ارادہ دوبارہ دوہرایا لیکن اس کی بیٹی تھی کہ مان نہیں رہی تھی۔ بیٹی کے اصرار کے آگے اس کے عشروں سے تجربہ کار پبلشر باپ نے ہتھیار ڈال دیئے اور مصنفہ کو خوشخبری سنائی کہ وہ اس کی کتاب چھاپنے پر تیار ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد مصنفہ کے لیے کئی برسوں بعد یہ پہلی اچھی خبر تھی جو اس کو ملی۔ اس کی کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی۔ مارکیٹ سے ملنے والا ریسپانس ناقابل یقین تھا۔ کتاب چند ہی روز میں ختم ہو گئی۔ کتاب کو بار بار چھاپنا پڑا۔ لیکن طلب تھی کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ قریب دو سو صفحات پر مشتمل پہلے ایڈیشن کی کتاب کی موجودہ قیمت پانچ ہزار نو سو ڈالر یعنی نو لاکھ پندرہ ہزار روپے کے برابر ہے۔ کتاب زیادہ پرانی نہیں، محض چوبیس سال پرانی ہے۔
کتاب کی محیرالعقول فروخت نے جہاں ریکارڈ توڑے اور بنائے وہیں مصنفہ کو دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور ساتواں حصہ لکھنے پر اکسایا۔ ان سات کتابوں پر مشتمل اس سیریز کے کل پچاس کروڑ ناول فروخت ہوئے جو کسی سیریز کی فروخت کا عالمی ریکارڈ ہے۔ یہ سات حصے دس سال کے دوران یعنی 1997ء سے 2007ء کے دوران چھپ کر مارکیٹ میں آئے۔ اب تک اس کتاب کا اسی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ آخری چار کتابوں نے تو تیز ترین فروخت کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا۔ آخری کتاب کی ایک کروڑ دس لاکھ کاپیاں صرف امریکہ میں چوبیس گھنٹے میں فروخت ہوئیں۔ یہ کسی کتاب کا چوبیس گھنٹوں میں فروخت کا اب تک کا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس سیریز کے چوتھے ناول کو پریس سے دوکانوں تک پہنچانے کے لیے FEDEX کے 9000 ٹرک استعمال ہوئے۔ اس کتاب نے مختلف حوالوں سے اتنے ریکارڈ بنائے کہ ان کی تفصیل کے لیے ایک بالکل علیحدہ کالم درکار ہے لیکن مقصد اس کتاب کے ریکارڈ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ اس کتاب کی مصنفہ کی دلجمعی، محنت اور امید کو اجاگر کرنا ہے۔ انسان ناکام تب ہوتا ہے جب مایوس ہو جاتا ہے۔
یہ مصنفہ جے کے رولنگ تھی اور کتاب ہیری پوٹر تھی۔ سات حصوں پر مشتمل اس سیریز پر بننے والی فلم کے آٹھ حصے ہیں۔ وارنر برادرز نے یہ فلم بنائی۔ یہ فلم بھی کمائی کے حساب سے دنیا کی سب سے زیادہ آمدنی والی فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ ان آٹھ فلموں کی لاگت ایک ارب دس کروڑ ڈالر تھی جبکہ آمدنی سات ارب ستر کروڑ ڈالر تھی۔ آمدنی کے اعتبار سے یہ دنیا میں تیسرے نمبر کی حامل فلم سیریز ہے۔ فلم اور ناول کے علاوہ ہیری پوٹر پر کم از کم آٹھ ویڈیو گیمز ریلیز ہو چکی ہیں۔ ہیری پوٹر سے متعلق چار سو کے لگ بھگ مختلف اشیا، اس برانڈ کے لیے مخصوص لائسنس کی حامل ہیں اور ان سے پچیس ارب ڈالر کی کمائی کی جا چکی ہے۔ یعنی پاکستان کے کل بجٹ کے قریب قریب برابر۔ یونیورسل سٹوڈیو اورلینڈو (فلوریڈا) امریکہ میں ہیری پوٹر کی فلم سے متعلق پورا ایک سیکشن ہے جو کئی ایکڑ پر مشتمل ہے۔
پورا ایک بازار ہے۔ Hogwarts school of witchcraft and wizardry بنایا گیا ہے۔ ایک پوری جادونگری تشکیل دی گئی ہے۔ میری منجھلی بیٹی آسٹریلیا سے امریکہ آئی ہوئی تھی۔ اسے کتابوں سے دلچسپی ہے۔ اس نے ہیری پوٹر کی ساری کتابیں بھی پڑھ رکھی تھیں۔ میں اپنی امریکہ والی بیٹی، اپنے داماد، دو نواسوں اور اپنی منجھلی بیٹی کے ہمراہ اورلینڈو گیا تو یہ جادونگری بھی دیکھ آیا۔ اور بہت سی خرابیوں کے ساتھ ساتھ مجھ میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مجھے فلم دیکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ لیکن اورلینڈو سے ٹولیڈو واپسی پر روزانہ شام گھر میں ہیری پوٹر کا ایک حصہ لگایا جاتا ہے اور ناظرین میں میں بھی شامل ہوتا ہوں۔ سارے کرداروں سے ابتدائی واقفیت کا منبع میری منجھلی بیٹی اور بڑا نواسہ ہے‘ جو میری لا علمی پر ہنستا ہے اور بتاتا ہے کہ بڑے بابا! اس فلم میں وزرڈز دراصل جادوگر ہیں اور مگلز عام انسان کو کہتے ہیں۔ پھر ہم دونوں مل کر ہنستے ہیں۔ چھ حصے ختم ہو چکے ہیں اور ابھی دو حصے باقی ہیں۔ یہ پاکستان جانے سے پہلے ختم ہو جائیں گے۔ لیکن مایوس نہ ہونے اور امید کا دامن تھامے رکھنے کا سبق کبھی ختم نہیں ہو گا۔