یہ کہانی ایک ایسے بازار کی ہے جہاں بقول مقبول امریکی کاروباری شخصیت وارن بفیٹ ’بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘ اور جہاں ایک بروکر کے مطابق آپ ایک ہی دن میں آسمان کی بلندیاں چھونے کے بعد زمین پر پٹخے جا سکتے ہیں۔
26 سال کی عمر میں کراچی کے رہائشی اور حال ہی میں گریجویٹ ہونے والے جہانزیب طاہر کو ٹینس کورٹ میں اس بازار سے متعلق آگاہی ملی۔
اس وقت ان کی تنخواہ محض 18 ہزار روپے تھی۔ انھوں نے ہچکچاتے ہوئے بہت چھوٹے پیمانے پر یہاں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن آج وہ اس سرمایہ کاری کو ’منافع بخش‘ قرار دیتے ہیں۔
یہ کیسا بازار ہے جہاں لالچ اور جلد بازی کے فیصلوں کے نتیجے میں آخر نقصان ہی ہوتا ہے لیکن سٹے بازی کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ جہاں صبر کی اہمیت سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن متوسط طبقے اور معاشی امور سے نابلد افراد کے لیے جگہ بنانا بھی انتہائی مشکل ہے۔
یہاں بات بازارِ حصص یعنی سٹاک مارکیٹ کی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں رواں برس پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باوجود سٹاک مارکیٹ کی مثبت کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے اس میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔
عموماً پاکستان میں جب ایک نوجوان اپنی پہلی نوکری کا آغاز کرتا ہے تو اسے بچت کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے مختلف مشورے دیے جاتے ہیں لیکن بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنا ان مشوروں میں شامل نہیں ہوتا۔
تو بازارِ حصص ہے کیا اور یہاں نوجوان کیسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے بروکرز، ٹریڈرز، یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں سمیت سٹاک ایکسچینج کی کوریج کرنے والی ایک صحافی سے بھی بات کی ہے۔
بازارِ حصص یا سٹاک مارکیٹ کیا ہے؟
عام فہم زبان میں یہ بازار کمپنیوں کے حصص یعنی شیئرز کی خرید و فروخت کی جگہ ہے۔ کسی بھی کمپنی کا ایک شیئر اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
فرض کریں ایک کمپنی کی مالیت 100 روپے ہے اور آپ نے اس کے 50 روپے کے شیئرز خرید لیے ہیں تو آپ اس کے 50 فیصد حصے کے مالک بن جائیں گے۔
یہاں موجود کمپنیاں سٹاک مارکیٹ میں اندراج شدہ یعنی ’لسٹڈ‘ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہوتی ہیں۔
بازارِ حصص میں اندارج کے لیے ان کمپنیوں کو پیچیدہ مراحل اور چند شرائط پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 35 مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 542 اندراج شدہ کمپنیاں ہیں۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے 400 کے قریب فعال رکن یعنی ’بروکرز‘ ہیں جن کے ذریعے مارکیٹ میں خرید و فروخت کا عمل چلایا جاتا ہے۔
بروکر دراصل سرمایہ کاری کرنے والوں کی جانب سے ضامن کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور بازار حصص میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آپ کو ایک بروکر کے پاس اکاؤنٹ کھلوانا ضروری ہوتا ہے۔
اسی اکاؤنٹ کے ذریعے رقم کی لین دین بھی ہوتی ہے اور شیئرز کی خریدوفروخت بھی۔
ان چند بروکرز کے اپنے بروکریج ہاؤسز ہوتے ہیں جہاں مختلف ٹریڈرز آپ کو شیئرز کی خرید و فروخت مختلف حکمت عملیوں کے حوالے سے معاونت دینے کے لیے آپ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ تاہم آپ ایک ٹریڈر کی معاونت کے بغیر بھی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔
سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے کا طریقہ کار
بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو کسی بھی فعال بروکر کے پاس اپنا اکاؤنٹ کھلوانا ہوگا۔
اس حوالے سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ پر بروکرز کی فہرست موجود ہے۔
یہ کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے جیسا ہی ہوتا ہے تاہم اس میں بروکر کے اعتبار سے مختلف دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح ابتدا میں جمع کروائی جانے والی رقم بھی بروکر کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے۔
اکاؤنٹ کھلوانے کے بعد آپ کے پاس ’لیوریج‘ کا آپشن بھی ہوتا ہے۔ لیوریج دراصل بروکر اور سرمایہ کار کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت آپ ابتدا میں جمع کروائی گئی رقم کی بنا پر سرمایہ کاری کے لیے مزید رقم لے سکتے ہیں۔
تاہم اس کی واپسی بمعہ سود کرنی ہوتی ہے اور عام طور پر نئے سرمایہ کاروں کو لیوریج کی بنا پر سرمایہ کاری کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
سنیچر، اتوار اور کسی بھی عام تعطیل کے علاوہ آپ مارکیٹ میں مقررہ اوقات کے دوران سٹاکس کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔
ہر روز شیئرز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک جانب ٹریڈنگ ہے یعنی کم عرصے کے لیے تو دوسری جانب انویسٹنگ یا لمبے عرصے کے لیے سرمایہ کاری۔ فوری سٹاک ٹریڈ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دنوں میں سٹاکس کی خرید و فروخت کریں۔ آپ ایک ہی دن میں کئی سٹاکس خرید بھی سکتے ہیں اور بیچ بھی سکتے ہیں۔
یہ زیادہ منافع بخش تو ضرور ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔
اسی طرح اگر اچھی حکمتِ عملی کے ساتھ لمبے عرصے تک سرمایہ کاری یا سٹاکس ’ہولڈ‘ کیے جائیں تو یہ مستقبل میں منافع کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بڑی اور منافع کمانے والے کمپنیوں کے سٹاک طویل عرصے تک خریدنے سے ’ڈویڈینڈ‘ بھی ملنے کی امید ہوتی ہے۔ ڈویڈینڈ دراصل اس کمپنی کو ہونے والا منافع ہوتا ہے جو یا تو شیئر ہولڈرز میں تقسیم کر دیا جاتا یا کمپنی میں دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے سٹاکس کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یعنی آپ نے جس کمپنی کے سٹاکس خرید رکھے ہیں اگر اسے منافع ہوتا ہے تو آپ کو بھی اس کی وجہ سے منافع ہو گا کیونکہ اب آپ بھی اس کا حصہ ہیں، وہ یا تو ڈویڈنڈ کی صورت میں ہو گا، یا سٹاکس کی قیمت بڑھنے کی صورت میں۔
یہ ڈویڈینڈ کمپنی سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھی دے سکتی ہے۔
نوجوان سٹاک مارکیٹ میں کیوں سرمایہ کاری کریں؟
جہانزیب طاہر بتاتے ہیں کہ جب انھیں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ دیا گیا تو حالانکہ ان کی تنخواہ صرف 18 ہزار روپے ہی تھی لیکن انھیں یہی سب سے اچھی آپشن لگی۔
’پراپرٹی، سونا، کاروبار وغیرہ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آپ کو ایک خطیر رقم درکار ہوتی ہے جبکہ سٹاکس میں سرمایہ کاری کرنا بہت آسان بھی ہے اور چھوٹی رقم سے آغاز کیا جا سکتا ہے۔‘
’میری حکمت عملی فی الحال ایک لمبے عرصے تک سٹاکس ہولڈ کرنا اور اپنا پورٹ فولیو بنانا ہے۔ یہ صبر کا کھیل ہے، مجھے بھی لالچ ہوتی ہے کہ میں ٹریڈ کروں لیکن مجھے معلوم ہے کہ میں ایک لمبی گیم کھیل رہا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ آپ کو نوکری کے علاوہ آمدن کا ایک دوسرا ذریعہ فراہم کرتی ہے اور فی الحال میری یہی حکمتِ ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بروکر کا کہنا تھا کہ سٹاک مارکیٹ کے ذریعے آپ اس طرح کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ اس کے علاوہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ہمارا تجزیہ بتاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں تعمیراتی شعبہ ترقی کرے گے اور اس کی وجہ سے شیشے، سیمنٹ یا سٹیل کی کمپنیوں کو فائدہ ہو گا، تو کیا آپ فوری طور پر فیکٹری لگانے کے قابل ہوں گے، اگر آپ فیکٹری لگا بھی لیں تو آپ کو اسے قائم کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال درکار ہوں گے۔
’اس کے برعکس آپ کسی بھی سیمنٹ یا سٹیل بنانے والی کمپنی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اور اس معاشی ترقی کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘
معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والی صحافی اریبہ شاہد کا کہنا تھا کہ اگر سٹے کی سوچ سے سرمایہ کاری نہ کی جائے تو سٹاک مارکیٹ آپ کے لیے منافع بخش ہو سکتی ہے اور یہ سب آپ گھر بیٹھے کر سکتے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بروکر نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ کاروبار کو سہارا دینے اور سرمایہ اکھٹا کرنے کا بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر کسی کاروبار کو سرمائے کی ضرورت ہے تو وہ سٹاک مارکیٹ کو اس مقصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے اور یہاں اندراج کروا کر اپنے حصص بیچ کر مزید سرمایہ اکھٹا کر سکتا ہے۔
تاہم بازارِ حصص میں کمپنی کا اندراج کروانا ہی ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے اور ایس ای سی پی کی متعدد شرائط اور آئی پی او کرنے کے لیے بھاری فیس کے باعث یہ عمل اتنا آسان نہیں ہے۔
تاہم یہ تمام افراد ایک بات پر متفق تھے اور وہ یہ کہ بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کمپنیوں کے بارے میں پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔
کمپنیوں سے متعلق دستاویزات ان کی ویب سائٹس پر موجود ہوتے ہیں اور ان کی جانب سے کی جانے والی بورڈ میٹنگز کی کارروائی سے متعلق معلومات بھی عام کی جاتی ہیں۔
سٹے بازی، متوسط طبقہ اور سٹاک مارکیٹ سے متعلق خدشات
کراچی سے تعلق رکھنے والے جس بروکر سے ہماری بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط کہ مارکیٹ مجموعی طور پر سٹے بازی کا بازار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اربوں ڈالر مالیت کی کمپنیوں کے ساتھ ایسا ممکن نہیں، ہاں کہیں ایسا ضرور ہوتا ہو گا لیکن اب 08-2007 جیسے دن بھی نہیں ہیں اور مارکیٹ میں قوانین انتہائی سخت ہو چکے ہیں۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک ٹریڈر کا کہنا تھا کہ ایسا چھوٹے پیمانے پر تو بالکل ہوتا ہے اور فوری ٹریڈنگ کرنے والے بھی ایسا کرتے ہیں لیکن آخر کار یہ مارکیٹ ایسا کرنے والوں کو اپنا آپ دکھاتی ہے اور انھیں مجموعی طور پر نقصان ہی ہوتا ہے۔
اریبہ شاہد کا کہنا ہے کہ یہ مارکیٹ متوسط طبقے اور معاشی امور سے نابلد افراد کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اکثر ایسی معلومات جو ابھی کمپنی کی جانب سے عام نہیں کی جاتیں وہ کمپنی کے مالکان کے قریبی حلقوں کو معلوم ہو جاتی ہیں اور اس بات کا فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اسی طرح جب ایسے افراد اس مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جو معاشی امور سے نابلد ہوں تو انھیں اکثر ٹریڈرز کی جانب سے بیوقوف بنایا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اکثر ناتجربہ کاری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
جب اس حوالے سے ایک ٹریڈر سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ اگر ایمانداری سے جواب دوں تو میں کسی ایسے ہلکے سرمایہ کار پر اپنا وقت کیوں ضائع کروں گا۔