Site icon DUNYA PAKISTAN

موسم سرما میں کووڈ: ہمیں کتنا فکر مند ہونا چاہیئے؟

Share

ایسا لگ رہا ہے کہ اس بار سردیوں کا موسم مشکل ہو گا۔ پورے برطانیہ میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، ہماری روزمرہ گرمیوں پر پابندیاں پہلے سے سخت کی جارہی ہیں، خدشہ ہے کہ ہسپتال اپنی صلاحیت سے زیادہ بھرنا شروع ہو گیے ہیں اور وبا پر سیاسی اور سائنسی تنازعات جاری ہیں۔

ہر وقت معلومات کا مستقل سلسلہ جاری ہے جو الجھن پیدا کر سکتا ہے۔

اس لیے آئیے سیدھے اور آسان طرقے سے بات کریں۔ ہم کس حال میں ہیں، کیا یہ موسم بہار کی واپسی ہے اور ہمیں کتنا فکر مند ہونا چاہئے؟

کووڈ اب بھی زیادہ تر کم سنگین ہے

واضح رہے کہ زیادہ تر لوگ کووڈ سے صحت یاب ہو جاتے ہیں اور یہ اکثر غیرسنگین بیماری ہوتی ہے۔

اس کی اہم علامات کھانسی، بخار اور سونگھنے کے احساس کم ہونا ہیں اور زیادہ تر لوگ گھر میں صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس وائرس کے زد میں آنے والے 1 سے 3 فیصد افراد کو ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن یہ عام فلو سے زیادہ مہلک ہے

وائرس کی زد میں آنے کے بعد مرنے والے افراد کی تعداد جسے انفیکشن کی اموات کی شرح کہتے ہیں تقریباً

0.5 فیصد ہے۔ اگر دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہر 200 متاثرہ افراد میں ایک کی موت ہوتی ہے۔

جبکہ عام غلط فہمی کہ کووڈ ایک موسمی فلو کے انفیکشن کی طرح ہی ہے یہ پانچ سے 25 گنا زیادہ مہلک ہے۔

انفلوئنزا سے متاثرہ افراد میں 0.02 فیصد اور 0.1 فیصد کے درمیان موت واقع ہوتی ہیں۔

کچھ لوگوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے

کسی بھی عمر کے لوگ کووڈ سے مر سکتے ہیں لیکن عمر رسیدہ لوگوں میں موت کا خطرہ زیادہ ہے۔

45 سال سے کم عمر کے افراد میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ وائرس کے وجہ سے مرتا ہے لیکن یہ خطرہ 65 سال کی عمر کے بعد کافی بڑھ جاتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنعمردرازوں میں موت کا خطرہ زیادہ ہے

اور دوسرے صحت کی پریشانیاں جیسے ٹائپ 2 ذیابیطس اور دل کی بیماری میں مبتلا افراد کو بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

یہ خطرہ کچھ خاص نسل کے لوگوں میں بھی زیادہ ہوتا ہے۔

کووڈ کی زد میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے

اعداد و شمار ایک سنگین کہانی بیان کرتی ہیں۔

روزانہ معاملہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ہسپتال میں داخل ہونے والے لوگوں کی تعدادبھی بڑھ رہی ہے۔اور مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے

وبا کے عروج پہ ہر روز 3،000 افراد ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے۔ فی الحال یہ تعداد ایک ہزار سے نیچے ہے۔

یہ مسئلہ رفتار کا ہے۔

یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ معاملات بالآخر نیشنل ہیلتھ سروس کے صلاحیت پر غالب ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کووڈ اور دیگر اسباب سے زیادہ لوگ مرجائیں گے کیونکہ ہسپتال میں بستر اور ڈاکٹروں کی شدید کمی ہو جایگی۔

،تصویر کا کیپشننئے انفیکشن کی تعداد بڑھ رہی ہے

لیکن یہ وائرس پہلے سے زیادہ آہستہ پھیل رہا ہے

ہم اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں جو چیزیں کر رہے ہیں وہ وائرس کے پھیلاؤ میں فرق لا رہے ہیں۔

وبائی امراض کے آغاز میں ہر تین سے چار دن میں متاثرہ افراد کی تعداد دوگنی ہوتی رہی تھی۔ اب دوگنا ہونے کی وہ شرح ہر پندرہ دن کے قریب ہے۔

ریپرودکشن یا آر نمبر (اوسطا تعداد جنہں ہر متاثرہ شخص وائرس پھیلاتاہے) مارچ کے اوائل میں برطانیہ میں تقریبا 3.0 تھا۔ اب یہ تقریباً اس کے نصف پر ہے۔

ہم بہتری کی طرف گامزن ہیں لیکن کم اضافہ بھی تو اضافہ ہی ہے اور جب تک کہ R ( آر ) کی تعداد 1.0 سے کم نہیں ہوجاتی ہے متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا رہے گا۔

کووڈ کے علاج میں پہلے سے بہتری آئی ہے

وبا کے آغاز سے اب تک متاثرین کے مرنے کے امکان میں کمی آئی ہے۔

قطعی قیاس لگانا تو مشکل ہے لیکن ہسپتالوں میں اموات کی شرح لگ بھگ ساڑھے تین سے ایک کے درمیان کم ہوئی ہے۔

ڈاکٹروں کو اب بہتر اندازہ ہے کہ شدید کووڈ مریضوں کے ساتھ کیا پیچیدگی پیدا ہوتی ہے جس سے علاج میں بہتری آئی ہے۔

اسکے علاوہ ہمارے پاس زندگی بچانے والی دوائیڈیکسامیٹھاسون زندگی بچانے والی دوائی ہےہے جو مدافعتی نظام کو اختیار میں لاتا ہے جب وہ اپنے ہی جسم پر حملہ کرتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنڈیکسامیٹھاسون زندگی بچانے والی دوائی ہے

لیکن ہمیں ‘طویل کووڈ’ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے

تاہم اس بات کا اعتراف ہے کہ کورونا وائرس انفیکشن ہماری جسم پربہت دباؤ ڈال سکتا ہے۔

ہم نہیں جانتے کہ اس سے کتنے دن تک یا قطعی طور پر کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن طویل مدتی تھکاؤٹ اور صحت کی دیگر پریشانیاں سامنے آئی ہیں۔

یہ علامات جوان اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ ہلکے انفیکشن والے لوگوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔

آپ شاید مدافعتی نہیں ہیں

زیادہ تر لوگ اس وائرس سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں ابھی بھی 10 میں سے نو افراد اس کے زد میں آ سکتے ہیں۔

کووڈ کا دو بار ہونے کے امکان کم ہوتے ہیں۔ تاہم قطعی طور پر ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ وائرس سے لڑنے کی قوت معدافت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔

ابھی بھی ویکسین کا انتظار ہے

ایک موثر ویکسین یا تو لوگوں کو متاثر ہونے سے روکے گی یا کم از کم اس مرض کو کم سنگین بنا دے گی۔

اس محاذ پر کام ہو رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی ویکسین کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے۔

ہماری زندگیوں کو دوبارہ معمول پہ لانے کے لیے ویکسین اہم ثابت ہوگی لیکن تب تک حکومت کی حکمت عملی اس وائرس کے پھیلاؤ کو سست کرنے پر مرکوز ہے اور اس کا مطلب ہماری زندگی کی عام سرگرمیوں پر پابندیاں ہے۔

‘ٹیسٹ اور ٹریس’ جدوجہد کر رہا ہے

دوسرا اقدام جو وائرس کو روکنے میں مدد فراہم کرسکتا تھا وہ تھا حکومت کا ٹیسٹ اور ٹریس پروگرام۔

وبائی بیماری کے آغاز سےاب تک جانچ کی صلاحیت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اب ایک دن میں 300،000 سے زیادہ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

تاہم یہ پروگرام اس وقت بہتر کام کرتا ہے جب وائرس کی موجودگی کم سطحی پر ہو اور حکومت کے سائنس کے مشیر سیج کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ اور ٹریس سے “ٹرانسمیشن پر معمولی اثر” پڑ رہا ہے۔

Exit mobile version