سنہ 1971 میں منعقدہ پہلے ہاکی ورلڈ کپ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے جو پاکستان کی اس ایونٹ کی میزبانی سے محرومی پر شروع ہو کر اس کے عالمی چیمپیئن بننے پر ختم ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ ایئرمارشل نور خان کی شخصیت تھی جنھوں نے ہاکی ورلڈ کپ کے خیال کو حقیقت کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
انھوں نے سنہ 1969 میں لاہور میں منعقدہ بین الاقوامی ہاکی ٹورنامنٹ کے موقع پر مجوزہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے اس وقت کے صدر رینی فرینک کو پیش کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوتا ہے تو وہ تمام ٹیموں کے سفری اور دیگر اخراجات بھی برداشت کریں گے۔
پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان کو ملی لیکن اس وقت کے خراب سیاسی حالات کے سبب ورلڈ کپ کا انعقاد یہاں ممکن نہ ہو سکا۔ انڈین ہاکی ٹیم کے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے بھی ملک میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔
اس دوران ورلڈ کپ کی میزبانی انڈیا کو دینے کی بازگشت بھی سنائی دی لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ اگر عالمی کپ کی میزبانی انڈیا کو دی گئی تو وہ اس میں شرکت نہیں کرے گا، بالآخر مارچ 1971 میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پہلا ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ سپین کے شہر بارسلونا میں منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔
پاکستانی ہاکی کا عروج
ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں پاکستانی ہاکی کی بالادستی کی خوبصورت یادوں میں روم اور میکسیکو اولمپکس کے بعد بارسلونا کے ورلڈ کپ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ہاکی ٹیم نے سنہ 1968 میں میکسیکو اولمپکس اور سنہ 1970 میں بنکاک ایشین گیمز جیتنے کے بعد سنہ 1971 میں بارسلونا میں پہلا ورلڈ کپ جیت کر ہاکی کا گرینڈ سلیم مکمل کیا۔
اس فاتح ٹیم کے کپتان خالد محمود تھے۔
24 اکتوبر 1971 کو کھیلے گئے فائنل میں پاکستان نے میزبان ملک سپین کو ایک گول سے شکست دی تھی، یہ فیصلہ کن گول فل بیک اخترالاسلام نے پنالٹی کارنر پر کیا تھا۔
سب سے قیمتی گول
سپین کے خلاف فائنل میں وننگ گول کرنے والے فل بیک اخترالاسلام سے اگر پوچھا جائے کہ وہ گول کیسے ہوا تھا تو وہ ایک لمحے کے لیے اس کے سحر میں کھو جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ’اس گول کو کیسے ُبھلایا جا سکتا ہے جس نے پاکستان کو ورلڈ چیمپیئن بنایا ہو۔‘
’وہ چوتھا پنالٹی کارنر تھا جو میں نے لیا تھا اور دائیں جانب ہٹ لگائی تھی۔‘
اخترالاسلام کہتے ہیں ’کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس سے زیادہ خوشی کا موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا جب آپ نے پاکستان کی گرین شرٹ پہنی ہو۔ چاند تارے والا نشان آپ کے دل پر سجا ہو۔ قومی ترانہ بجے اور قومی پرچم لہرانے لگے۔ ان احساسات کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔‘
اخترالاسلام کے لیے یہ فائنل اس لیے بھی اہم تھا کہ ہالینڈ کے خلاف گروپ میچ میں ان کی سٹک سے ٹائیز کراؤزے زخمی ہوگئے تھے جس پر انھیں ایک میچ کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔
کپتان خالد محمود کہتے ہیں ’فائنل کھیلتے وقت ہمارے ذہن میں سپین کے خلاف گروپ میچ اچھی طرح یاد تھا جس میں امپائر کو اچانک تبدیل کر دیا گیا تھا اور ہمیں جان بوجھ کر ہروایا گیا تھا۔ پاکستان نے امپائرنگ پر باضابطہ احتجاج بھی کیا تھا لیکن اس احتجاج کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ اسی شکست کی وجہ سے ٹورنامنٹ میں ہماری پوزیشن بھی خراب ہو گئی تھی۔‘
اخترالاسلام کہتے ہیں ’ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے خطرے سے دوچار ہو گئی تھی۔ ایسے میں یہ اتفاق ہوا کہ جاپان نے ہالینڈ کو ایک گول سے شکست دے دی اور پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔‘
تنویر ڈار کھیلنے کے قابل نہ رہے
تنویر ڈار کا شمار اپنے دور کے پنالٹی کارنر کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔
مضبوط جسم کے مالک تنویر ڈار سنہ 1971 کے عالمی کپ میں بہترین فارم میں تھے۔ انھوں نے پاکستان کے پہلے میچ میں، جو اولمپک سلور میڈلسٹ آسٹریلیا کے خلاف تھا، ہیٹ ٹرک کی اور دو کے مقابلے میں پانچ گول کی جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ ورلڈ کپ کی تاریخ کی پہلی ہیٹ ٹرک تھی۔
تین روز بعد پاکستان اور ہالینڈ کے میچ میں جو تین تین گول سے برابر رہا تھا۔ تنویر ڈار نے ایک بار پھر حریف ٹیم کے گول کو صحیح نشانے پر رکھتے ہوئے ایک اور ہیٹ ٹرک کر ڈالی۔
سیمی فائنل تک وہ چار میچوں میں آٹھ گول کر چکے تھے لیکن انڈیا کے خلاف سیمی فائنل میں ان کا ان فٹ ہو جانا پاکستانی ٹیم کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔
جب رشید جونیئر نے تنویر ڈار کے ایک سکوپ پر گیند قابو کرتے ہوئے انڈیا کے خلاف گول کر کے مقابلہ برابر کر دیا تو اپنے ہاف میں کھڑے ہوئے تنویر ڈار خوشی میں ہوا میں اچھلے لیکن زمین پر آتے ہوئے ان کا گھٹنا بھاری جسم کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور مڑ گیا۔ تنویر ڈار کو میدان سے باہر لے جایا گیا اور ان کے لیے ورلڈ کپ وہیں ختم ہو گیا اور وہ فائنل نہ کھیل سکے۔
نوجوان منورالزماں ہیرو بن گئے
تنویر ڈار کے باہر جانے کے بعد پاکستانی ٹیم کو میچ ختم ہونے سے تیرہ منٹ پہلے پنالٹی کارنر ملا۔ اس موقع پر کپتان خالد محمود نے بیس سالہ نوجوان فل بیک منورالزماں کو ہٹ لگانے کے لیے کہا۔
اس وقت مقابلہ ایک ایک سے برابر تھا۔ منورالزماں کا یہ بین الاقوامی کریئر کا محض دوسرا میچ تھا اور انھیں پہلی بار پنالٹی کارنر مارنے کا موقع ملا تھا جس پر انھوں نے گول کر کے پاکستانی ٹیم کو فیصلہ کن برتری دلا دی اور فائنل میں پہنچا دیا۔
منورالزماں انڈیا کے خلاف گول کرنے کے معاملے میں مشہور ہو گئے تھے۔انھوں نے سنہ 1974 اور سنہ 1978 کے ایشین گیمز کے فائنل میچوں میں بھی انڈیا کے خلاف گول کیے تھے۔
منورالزماں کے سلیکشن کے معاملے میں فیڈریشن میں دو آرا تھیں۔ کچھ لوگ ایک اور فل بیک کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن ٹیم منیجمنٹ کا خیال تھا کہ منورالزماں کو ٹیم میں ہونا چاہیے۔
اس موقع پر فیڈریشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل کے ایم اظہر کا ووٹ منورالزماں کے حق میں گیا تھا۔
یحیٰی خان نے اخترالاسلام سے کیا کہا؟
فاتح ٹیم جب وطن واپس لوٹی تو صدر جنرل یحیٰی خان نے کراچی میں ٹیم کو استقبالیہ دیا۔ اس موقع پر انھوں نے اخترالاسلام سے ملتے ہوئے مسکرا کر کہا ’آپ نے ہالینڈ کے کھلاڑی کو ہاکی سٹک کیوں ماری تھی؟‘
اخترالاسلام کہتے ہیں انھوں نے صدر یحیٰی خان کو بتایا ’میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا دراصل یورپی کھلاڑی عام طور پر گیند کو کافی آگے رکھ کر کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں ان سے گیند چھیننے کی کوشش میں میری سٹک ان کے گھٹنے پر لگی تھی۔‘
اختر الاسلام کہتے ہیں ’صدر یحیٰی خان نے ہر کھلاڑی کو دس ہزار روپے نقد انعام دیا۔ یہ واحد انعام ہے جو ٹیم کے کھلاڑیوں کے حصے میں آیا تھا۔حکومت فاتح ٹیم کو مزید انعامات اور ایوارڈز دینا چاہتی تھی لیکن پاکستان اور انڈیا جنگ کی وجہ سے کچھ بھی ممکن نہ ہو سکا۔‘
خصوصی ٹرین اور ٹیم کا استقبال
پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ جیت پر خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے گئے تھے۔ ٹیم جب وطن واپس پہنچی تو ایک خصوصی ٹرین اہتمام کر کے اسے پورے ملک میں لے جایا گیا۔
تمام بڑے شہروں میں یہ ٹرین رُکتی رہی اور کھلاڑیوں کو کُھلی جیپوں میں سوار کر کے جلوس کی شکل میں ان شہروں میں لے جایا جاتا جہاں ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوا کرتی تھی۔
خالد محمود کہتے ہیں ’ہر جگہ لوگوں کا بے پناہ جوش و خروش تھا۔ جب یہ ٹرین جہلم کے قریب سے گزر رہی تھی تو وہاں کے لوگوں نے اسے روک لیا اور انجن کو بقیہ ٹرین سے الگ کر دیا۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ فاتح ٹیم ان کے شہر میں بھی جلوس کی شکل میں آئے۔ اس موقع پر پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی تھی۔ لاہور میں لوگوں کے رش کا یہ عالم تھا کہ کھلاڑیوں کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔‘
اتنا عروج دیکھنے کے بعد پھر زوال کیوں ؟
خالد محمود کہتے ہیں ’پاکستانی ہاکی نے اگر عروج دیکھا ہے تو اس کی وجہ اس وقت کی مخلص قیادت تھی۔ایئرمارشل نور خان اور بریگیڈیئر عاطف نے جیسے اپنی زندگیاں پاکستانی ہاکی کو عروج پر لے جانے کے لیے وقف کر دی تھیں۔ پاکستانی ہاکی کو آج ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔‘
خالد محمود جو خود پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری رہ چکے ہیں کہتے ہیں ’پچھلے چند برسوں کے دوران فیڈریشن میں جو بھی آیا اس نے اپنے بارے میں ہی سوچا ہے اور جو بھی یہ کہتا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اب کھلاڑی نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہاکی اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘
خالد محمود کا کہنا ہے ’مجھے حیرت ہوتی ہے جب فیڈریشن کے ارباب اختیار پیسے نہ ہونے کا رونا روتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر پیسہ کیوں نہیں بچتا؟ بالکل بچتا ہے لیکن اس صورت میں جب بندے کو اپنی لالچ نہ ہو۔ میں بھی کچھ عرصے پاکستان فیڈریشن کا سیکریٹری رہا جب میر ظفراللہ جمالی فیڈریشن کے صدر تھے، جب ہم گئے تو اس وقت نو کروڑ روپے اکاؤنٹ میں تھے جس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں قاسم ضیا اور آصف باجوہ کو حکومت نے ایک سو پچاس کروڑ روپے دیے تھے اُن کا کیا بنا؟ کسی نے اس کا آڈٹ کرایا؟ آج پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن وہی آصف باجوہ پھر فیڈریشن میں موجود ہیں۔‘