منتخب تحریریں

غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کا بیانیہ

Share

گوجرانوالہ کے جلسہ پر کیا لکھیں؟ ہم خود وہاں موجود نہیں تھے۔ اب لے دے کر اخبارات رہ جاتے ہیں اور فریقین کے بیانات‘ اور فریقین کے بیانات کیا ہیں‘ گویا کہ مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم‘‘ کے خان صاحب کی شادی پر پڑنے والے حق مہر کے پھڈے کی منظر کشی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ جلسہ نہ صرف کامیاب تھا بلکہ حکومت کے دسمبر تک خاتمے کی نوید تھا۔ اور یہ جلسہ حکومتِ وقت کے تابوت میں گویا پہلا نہیں شاید آخری کیل ثابت ہو گا۔ دوسری طرف فیاض چوہان ہیں اور شبلی فراز ہیں‘ جن کے بقول یہ جلسہ بالکل فلاپ تھا اور وہ آج بھی اپوزیشن کے ہر جلسے کا موازنہ عمران خان کے مینارِ پاکستان والے جلسے سے کر کے اس جلسے کو ناکام قرار دینے کی روش پر قائم و دائم ہیں۔ ایک تو ہمیں اس مینارِ پاکستان والے جلسے نے بڑا تنگ و پریشان کر رکھا ہے۔ نہ اتنا کامیاب ہوتا اور نہ ہی عوام کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑتا۔
ایک طرف اپوزیشن کے دعوے ہیں اور دوسری طرف حکومتی بیانات۔ دونوں ایک دوسرے کی ضدہیں۔ یعنی ایک سو اسی ڈگری والا معاملہ ہے۔ اب بندہ اس سے کیا نتیجہ نکالے؟ ایک طرف شرکا کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے اور دوسری طرف لاکھوں کا دعویٰ۔ اب ایسے میں مشتاق احمد یوسفی کی ”آبِ گم‘‘ میں خان صاحب کی شادی میں حق مہر پر پڑنے والے پھڈے کی یاد تازہ نہ ہو تو اور کیا ہو؟ عین نکاح کے وقت پر حق مہر کی رقم پر قضیہ کھڑا ہو گیا۔ لڑکی والوں کا مطالبہ تھا کہ حق مہر ایک لاکھ روپے باندھا جائے اور لڑکے والے کہہ رہے تھے کہ حق مہر شرعی ہو گا یعنی بتیس روپے۔ بات بڑھ گئی اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ بارات واپس جانے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ معاملہ خراب ہوتے دیکھ کر ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔ ایک سیانا کہنے لگا :بزرگوار! ایک لاکھ روپے اور بتیس روپے کے بیچ کوئی بھی درمیانہ راستہ صرف اور صرف بندوق سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ اب یہی معاملہ گوجرانوالہ کے پی ڈی ایم کے جلسہ کے معاملے پر آن پڑا ہے۔ اب بندہ ہزاروں اور لاکھوں کے درمیان کونسا درمیانی راستہ نکالے جس پر یقین کیا جا سکے کہ کیا سچ ہے یا جھوٹ۔
گوجرانوالہ میں جلسے کا مقام طے کرنے کے پیچھے یقینا وجہ تو وہی ایک ہی ہے کہ یہ شہر اور اس کا گرد و نواح بمعہ جی ٹی روڈ مسلم لیگ (ن) کیلئے حسابی کتابی اور شماریاتی حوالے سے بہت مناسب بلکہ بہترین تھا اور پھر جب سے جلسہ گاہ کو بھرنے کیلئے علاقائی عوام کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے سو کلو میٹر والے علاقے سے لوگوں کو ہانک کر لانے کا رواج عام ہوا ہے‘ جلسہ گاہ کو بھرنا قطعاً مشکل کام نہیں رہا‘ بشرطیکہ اس کو بھرنے کیلئے بھری ہوئی جیبیں موجود ہوں۔ سو اس جلسہ گاہ کو بھرنے کیلئے سارے ضروری لوازمات موجود تھے۔ تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں کے قابلِ ذکر رہنما‘ لاہور سے لیکر جہلم تک کے پارٹی کارکنان‘ مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طلبہ اور اساتذہ‘ بقول فیاض الحسن چوہان ایک ارب تین کروڑ روپے کا خرچہ اور اس پر سب سے بڑھ کر موجودہ حکومت کی کارکردگی سے تنگ و پریشان عوام۔ بھلا کسی جلسے کی کامیابی کے لیے اور کیا درکار ہے؟صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے معاملات کسی فریق کی اپنی مقبولیت سے زیادہ فریقِ ثانی کی خرابیوں کے باعث طے پاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ 2018ء کے الیکشن میں بہت سے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ اس لیے دیا کہ وہ باری باری لوٹ کھسوٹ کرنے والی دونوں پرانی سیاسی پارٹیوں سے بیزار تھے۔ انہیں عمران خان کی کئی باتوں سے اختلاف بھی تھا مگر مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی اور کرپشن کے باعث وہ کسی بھی تیسری قوت کو آزمانے کیلئے تیار تھے۔ ان کا عمران خان کی طرف جھکاؤ عمران خان کی کسی کارکردگی سے زیادہ گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی سے مایوسی پر مبنی تھا۔ یہی حال اس وقت ملکی سیاسی صورتحال کا ہے۔ گزشتہ روز صبح سویرے ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکہ سے ہمدمِ دیرینہ غضنفر ہاشمی کا فون آ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کا کیا خیال ہے آئندہ امریکی صدارتی انتخاب میں کون جیتے گا؟ صورتحال اس وقت یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ شاید یہ حالیہ امریکی تاریخ کا سب سے متنازعہ صدارتی انتخاب ہو گا۔ غضنفر کہنے لگا کہ میرا خیال ہے ٹرمپ جیت جائے گا۔ میں نے کہا: اپنی حماقتوں‘ بے وقوفیوں‘ غلط فیصلوں اور کردار کے حوالے سے لگنے والے ڈھیروں الزامات کے باوجود بھی وہ جیت جائے گا؟ غضنفر کہنے لگا: اصل بات یہ ہے کہ جوبائیڈن کمزور امیدوار ہے۔ بالکل ڈھیلا اور فارغ آدمی ہے۔ اگر کوئی اچھا امیدوار ہوتا تو ایسی صورتحال میں ٹرمپ کو فارغ کرنا خاصا آسان ہو سکتا تھا مگر جوبائیڈن جیسا مخالف امیدوار بذات ِخود ٹرمپ کی فتح میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ فی الوقت یہی حال پاکستان میں اپوزیشن کا ہے۔کوئی دن تھے جب لوگ عمران خان کو حکمرانوں کی کرپشن‘ نالائقی اور نا اہلی کے باعث اپنی پہلی ترجیح کے طور لے رہے تھے آج بالکل الٹ معاملہ ہے اور عوام مہنگائی‘ بے روزگاری‘ نا اہلی‘ نالائقی اور ہاں! کرپشن کے اسی طرح جاری و ساری رہنے بلکہ کرپشن کے ریٹ بڑھ جانے کی وجہ سے تنگ و پریشان ہیں۔ دن بدلتے محض دو سال لگے ہیں اور عوام عمران خان کی حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آ کر دوسرے کیمپ کے جلسوں میں جانے پر تیار ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں صرف مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی یا دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز اور حامی صرف اپنی پارٹیوں سے محبت کے باعث نہیں آئے تھے بلکہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے لوگ بھی اس جلسے میں آئے تھے۔ ویسے بھی ہماری سیاست ایک عرصے سے اسی منفی بیانیے پر چل رہی ہے۔
عام آدمی کو ووٹ کی عزت کی نہیں اپنی روٹی کی فکر ہے اور اسے Elected اور Selected کے مفہوم و مطالب سے بھی کوئی غرض نہیں۔ اب جلسے والے بے شک اسے اپنے بیانیے کی فتح قرار دیں یا اپنے بیانیے کی مقبولیت‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ جلسہ اور آئندہ ہونے والے جلسوں میں بھی عوام میاں نواز شریف کے بیانیے کی حمایت میں نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کے عملی بیانیے کی نفی اور اسے رد کرنے کی غرض سے شریک ہوں گے۔ یہ جلسے میاں نواز شریف کے بیانیے کی کامیابی کی نہیں بلکہ عمران خان کے بیانیے کی ناکامی کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے کہ اب عوام مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں مقتدر قوتوں سے نہیں‘ مہنگائی سے تنگی ہے۔ انہیں سلیکٹرز سے نہیں بے روزگاری اور غربت سے تنگی ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ حکومت کی نالائقیوں کا سارا ملبہ مقتدر قوتوں پر گر رہا ہے اور اس سے ان کی عوامی مقبولیت کا گراف روز بروز نیچے آ رہا ہے‘ لیکن اگر یہ حکومت ویسا پرفارم کر دیتی جیسے اس کے وعدے تھے تو کسی کو بھی نہ تو سلیکٹڈ سے کوئی غرض یا لینا دینا ہوتا اور نہ ہی کسی نے مقتدر حلقوں پر انگلی اٹھانی تھی کہ لوگوں کا اصل مسئلہ ان کے ذاتی مسائل ہیں‘ زندگی گزارنے کیلئے درکار بنیادی چیزوں کی بہ آسانی دستیابی ہے اور ان کی ترجیحات میں اسی کا پہلا نمبر ہے۔ اگر آٹا عام آدمی کی خرید کی پہنچ سے باہر ہو‘ چینی کی خرید دسترس سے نکل چکی ہو‘ سبزیاں‘ دالیں‘ گھی‘ بجلی‘ گیس اور دیگر اخراجات کی حاصل جمع جیب کی پہنچ سے باہر ہو جائے تو بات ووٹ کی عزت سے کہیں آگے نکل کر انقلاب تک آ جاتی ہے۔ اس وقت عام آدمی بھوک اور غربت کے بیانیے کا مارا ہوا ہے‘ اسے نہ ووٹ کی عزت کا مسئلہ در پیش ہے اور نہ وزیراعظم کے سلیکٹڈ یا الیکٹڈ ہونے سے کوئی پرابلم ہے۔ عوام کو فی الوقت ووٹ کی عزت سے نہیں عزت کی روٹی سے غرض ہے اور یہ بات حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی۔