مزار ِ قائد ایکٹ کے تحت کیپٹن صفد رکے خلاف مقدمہ اور گرفتاری اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ علی زیدی اس کے لیے جنرل ضیا الحق کے دور کا حوالہ لائے‘ جب ایم آر ڈی کے کارکن بھی اسی ایکٹ کے تحت گرفتار کئے گئے تھے۔ یہ1983ء کا اگست تھا جب ایم آر ڈی ضیا الحق کے مارشل لاء کے خلاف جلسوں جلوسوں کی صورت میں عملی جدوجہد کا آغاز کررہی تھی ۔کارکنوں نے مزار قائد پر حاضری دی اور مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے حق میں نعرے لگا ئے۔یہ نعرے قائد کے افکار ونظریات کے عین مطابق تھے لیکن مزار قائد پر یہ ”نعرے بازی‘‘ اس کے تقدس کے منافی قرار پائی ۔ علی زیدی نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف بھی یہیں پاکستان کا قومی پرچم نذرِ آتش کرنے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا(یہ بھی جنرل ضیاء الحق کا دور تھا) یہ الگ بات کہ شہری سندھ کی اردو سپیکنگ کمیونٹی نے اس الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ورنہ قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے مہاجروں کی اولادیں‘پاکستان کے پرچم کی توہین کرنے والے کواڑھائی تین دہائیوں تک اپنا قائد کیسے تسلیم کئے رکھتیں؟اب تازہ مقدمہ صرف کیپٹن صفدر کے خلاف نہیں‘ مریم نواز سمیت200افراد اس میں ملوث ہیں‘ ان میں مریم اورنگ زیب اور نہال ہاشمی سمیت بعض افراد تو سب کو نظر آرہے ہیں‘ باقی حضرات کو ویڈیو کے ذریعے شناخت کرلیا جائے گا۔ مقدمے میں (More overکے طور پر) جان سے مارنے کی دھمکیوں کا الزام بھی شامل ہے۔
کراچی میں یہ پی ڈی ایم کا دوسرا پاور شو تھا جس کے لیے مریم نواز اتوار کی دوپہر لاہور سے اکانومی کلاس میں روانہ ہوئیں۔ کراچی ایئر پورٹ پر کارکنوں کی بڑی تعداد خیر مقدم کے لیے موجود تھی۔ گوجرانوالہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) میزبان تھی‘ کراچی میں میزبانی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ 18اکتوبر کو پاکستان (اور خصوصاً پیپلز پارٹی ) کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم اور یاد گار دن کی حیثیت حاصل ہے۔ 2007ء میں یہی دن تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو 9سالہ (خود ساختہ)جلا وطنی ختم کرکے دبئی سے کراچی پہنچی تھیں۔دو ہفتے پہلے (5اکتوبر )کو پرویز مشرف کے ساتھ این آر او سائن ہوچکا تھالیکن غیر تحریری مفاہمت کے مطابق محترمہ کو عام انتخابات کے بعد پاکستان آنا تھا ۔ محترمہ نے پرویز مشرف سے اپنے لیے سکیورٹی انتظامات کا پوچھا تو جواب ملا: اس کا انحصار میرے ساتھ آپ کے معاملات پر ہے۔ پرویزمشرف18اکتوبر کو محترمہ کی آمد کو ”معاہدے‘‘ کی خلاف ورزی قرار دے رہے تھے۔ محترمہ نے اپنے قتل کی صورت میں جن افراد کو ذمہ دار قرار دیا‘ ان میں صدر مشرف کے علاوہ‘ بریگیڈیئر اعجاز شاہ (تب ڈی جی انٹیلی جنس بیورو) وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور جنرل حمید گل شامل تھے۔ 18اکتوبر کی شب کراچی ایئر پورٹ سے قافلہ روانہ ہوا تو چاروں طرف انسانوں کا ہجوم تھا‘ بہت سوں کو 10اپریل 1986ء یاد آیا‘ تب بھی وہ جلا وطنی سے لوٹی تھیں لیکن وہ عرصہ تین سال کے لگ بھگ تھا۔ لاہور ایئر پورٹ سے مینار پاکستان تک جیالوں نے پچھلے سارے قرض‘ تمام حساب چکا دیئے تھے۔ 18اکتوبر کی شب انسانوں کا سمندر‘ کار ساز پہنچا تو دھماکہ ہوگیا۔ اصل نشانہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں‘ لیکن وہ جو کہاجاتا ہے‘ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ انہیں27دسمبر تک زندہ رہنا تھا اور موت بھی کارساز میں نہیں‘ راولپنڈی کے لیاقت باغ سے مری روڈ پر جنرل ہسپتال کے درمیان کہیں لکھی تھی۔ سانحہ کار ساز میں شہدا کی تعداد 177کو پہنچ گئی تھی۔ زخمی بھی تین سو سے زائد تھے جن کی عیادت کے لیے بے نظیر بھٹو‘ سکیورٹی کے تمام ترخدشات کے باوجود‘ اگلے روز ہسپتالوں میں پہنچیں۔ پیپلز پارٹی ہر سال18اکتوبر کو شہدا کا رساز کی یاد کا اہتمام کرتی ہے۔ اس بار اس نے اسے پی ڈی ایم کاپاور شو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
کراچی ایئر پورٹ پر شرجیل میمن کی بم پروف گاڑی‘ مریم نواز کے لیے موجود تھی۔ مزار ِ قائد تک یہ سفر بھی تاریخی بن گیا تھا۔ کراچی نے لاکھوں کے بڑے بڑے جلوس دیکھے ہیں۔ 16 دسمبر 1971ء کے بعد ”نئے پاکستان‘‘کی بات کریں تو پی این اے کی موومنٹ میں ایئر مارشل اصغر خان کا جلوس‘ جو 9گھنٹے میں ایئرپورٹ سے مزارقائد پہنچا تھا۔ 18اپریل 1993ء کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی کے بعد‘ نوازشریف کا ایئر پورٹ سے مزارِ قائد تک جلوس بھی یاد گار جلوسوں میں شمار ہوتا ہے۔ جاوید ہاشمی کی ”ہاں میں باغی ہوں‘‘ میں اس کی دلچسپ تفصیل موجود ہے۔
18اکتوبر کی سہ پہر مریم نواز کا جلوس بھی بہت بڑا تھا لیکن مزارِ قائد پر وہ واقعہ ہوگیا۔روایت کے مطابق قاری صاحب کی تلاوت کے بعد فاتحہ خوانی ہوچکی‘ مریم اور ان کے دیگر رفقا نے پھولوں کی چادر چڑھادی تو جنگلے کے باہر کارکن مریم نواز‘ زندہ باد کے نعرے لگانے لگے‘ کیپٹن صفدر نے انہیں مریم کے نعرے لگانے سے منع کیا اور مادرِ ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگوائے ۔
ووٹ کو عزت دو کے الفاظ نواز شریف کے ہیں لیکن یہ فکروفلسفہ نیا نہیں‘ پاکستان کی سیاسی وغیر سیاسی آمریتوں کے خلاف تحریکوں میں عوام کے حق رائے دہی کا حصول اور اس کے تحفظ کا جذبہ ہی بنیادی محرک رہا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں بھی مادرِ ملت یہی پرچم لے کر نکلی تھیں۔
18اکتوبر کی شام ان نعروں کے بعدپی ٹی آئی کو اور کیا چاہئے تھا؟ حلیم عادل شیخ کی زیر قیادت پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز مزارِ قائد کے تقدس کی پامالی پر مقدمے کے اندراج کے لیے تھانہ بریگیڈپہنچ گئے تھے۔ کیپٹن صفدر ”بڑے‘‘ملزم تھے۔ علی زیدی بھی اس ”کارِ خیر‘‘ میں حصہ ڈالنے کے لیے چلے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ کیپٹن صفدر اور دیگرملزمان جانے نہ پائیں۔ ادھر گورنر عمران اسماعیل‘ آئی جی اور ڈی آئی جی سے جواب طلبی کررہے تھے‘ اتنا سنگین معاملہ ہوگیا اور ذمہ داروں کے خلاف ابھی تک پرچہ درج نہیں ہوا ؟ ۔آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور آئی جی اس کی ماتحتی میں آتے ہیں‘ تو گورنر صاحب کس حیثیت میں آئی جی اور ڈی آئی جی کی گوشمالی فرمارہے تھے؟ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا اصرار تھا کہ وہ ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر تھانے سے نہیں جائیں گے۔ بالآخر وہ ”جیت‘‘ گئے‘ صبح6بجے پرچہ درج ہوگیا اور سات بجے کے قریب پولیس ”بڑے ملزم‘‘ کو ہوٹل سے گرفتار کر کے لے گئی‘ مریم کے ٹویٹ کے مطابق پولیس نے گرفتاری کے لیے کمرے کا دروازہ توڑ دیا تھا۔ کیا ملزم گرفتاری دینے سے انکاری تھا اور اس نے دروازہ کھولنے سے انکارکردیا تھا؟ جس وقت یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں‘ پولیس ملزم کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لے جارہی تھی اور پی ٹی آئی والے مریم کی گرفتاری مطالبہ بھی کررہے تھے ۔
17اکتوبر کو ٹائیگرز سے خطاب میں یوں تو ساری اپوزیشن جناب وزیر اعظم کی غضب بھری تنقید کی زد میں تھی لیکن نوازشریف خصوصی ہدف تھے۔ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: نئے پاکستان کے بعد اب تم ایک نیا عمران خان دیکھو گے۔ میں تمہیں جیل میں ڈالوں گا اور جیل بھی عام ملزموں والی‘ جہاں کوئی خصوصی سہولت حاصل نہیں ہوگی۔
18اکتوبر کو بھی میڈیا کا بیشتر فوکس مریم پر رہاتھا‘ 19اکتوبر بھی کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے حوالے سے مریم بی بی کا دن بن گیا ۔