پاکستان کی حزب اختلاف کی جانب منعقد کردہ حکومت مخالف جلسے اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں جہاں نیوز چینلز اور اخبارت کی شہ سرخیوں میں ہیں وہیں سوشل میڈیا پر ہر روز اس سے متعلق آئے روز ایک نیا موضوع زیر بحث ہوتا ہے۔
حالیہ تنازع پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے مزار قائد کے احاطے کے اندر اتوار کے روز لگائے گئے چند نعرے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کے مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر اور ن لیگ کے کارکنوں کے ہمراہ مزار قائد فاتحہ خوانی کے لیے اتوار کی دوپہر پہنچیں۔ فاتحہ خوانی ہوئی اور پھر مریم نواز کے مزار کے احاطے سے نکلتے ہی کیپٹن صفدر نے وہاں ’ووٹ کو عزت دو‘ ’مادر ملت زندہ باد‘ اور ’ایوبی مارشل لا مردہ باد‘ جیسے نعرے لگائے۔
اس اقدام پر نہ صرف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہوا بلکہ پیر کی علی الصبح کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے اس کمرے سے گرفتار کر لیا گیا جہاں وہ مریم نواز کے ہمراہ ٹھہرے ہوئے تھے۔
تاہم اب سوشل میڈیا صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا مزار قائد میں نعرے بازی کرنا قابل گرفت جرم ہے؟
مزار قائد تحفظ قانون کیا کہتا ہے؟
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ’قائد اعظم مزار پروٹیکشن اینڈ میٹینینس آرڈینینس 1971‘ کے تحت بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اِس کو نقصان پہنچانے اور یہاں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی منعقد کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا تین سال قید تک ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف اسی قانون کے تحت ایک شہری کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں مزار کے تقدس کو پامال کرنے، سیاسی نعرہ بازی، اور املاک کو نقصان پہچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
14 اکتوبر 1971 کو جاری کیے گئے اس آرڈیننس کے مطابق مزار کے اندر اور بیرونی دیوار کے دس فٹ کی حدود میں کسی بھی نوعیت کی میٹنگ، سیاسی جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کی اجازت نہیں ہو گی۔
آرڈینینس کے مطابق اگر کوئی شخص ایسا عمل کرے گا جس سے مزار کا تقدس پامال ہو، مزار کی املاک کو کسی قسم کا نقصان پہنچے تو یہ قابل گرفت جرم ہے۔
اس قانون کے تحت مزار کی دیواروں پر کوئی تحریر لکھنے یا کسی قسم نشان لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
کوئی بھی شخص اسلحہ یا ایسا کوئی اوزار جو بطور اسلحہ استعمال کیا جا سکتا ہو لے کر مزار میں داخل نہیں ہو سکتا۔ قانون کے مطابق مذکورہ جرائم کے مرتکب شخص کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔
اس حوالے سے درج ہونے والا مقدمہ سمری عدالت میں چلایا جائے گا جبکہ مقدمے میں پاکستان کے فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعات 265 اور 262 شامل کی جائیں گی۔
مزار قائد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مینیجمنٹ بورڈ مزار کرتا ہے جو نیشنل ہسٹری اینڈ ہیریٹیج وزارات کے ماتحت ایک ادارہ ہے، اس وزارت کے وزیر تحریک انصاف کے شفقت محمود ہیں۔
بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق مزار کے لیے کل 131 ایکڑ رقبہ مختص کیا گیا ہے جس میں سے 61 ایکڑ پر باغ جناح اور مزار موجود ہے جبکہ دیگر اراضی مستقبل کے منصوبے کے لیے وقف کی گئی ہے۔
مزار کی ضروری مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات مزار کے فنڈ سے حاصل کیے جاتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت بھی گرانٹ فراہم کرتی ہے۔
محمد علی جناح کا مزار شہر کی ایک بڑی تفریحی گاہ ہے، جہاں نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ بھی سیاحت کے لیے آتے ہیں، یہاں ایک میوزیم بھی واقع ہے جس میں محمد علی جناح اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے زیر استعمال اشیا اور گاڑیاں وغیرہ نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
جہاں حکومتی وزرا مزار قائد کے احاطے میں سیاسی نعرہ بازی پر سیخ پا نظر آتے ہیں وہیں چند سوشل میڈیا صارفین کی رائے ان سے کچھ مختلف ہے۔
کالم نگار مشرف زیدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ’مزار قائد ایک مقدس جگہ ہے اور میں وہاں فاتحہ خوانی کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے بالکل ناراض نہیں ہوا، کون ہو گا جو بالغ رائے دہی کی عزت کے مطالبے پر طیش میں آئے گا۔ اس نعرے میں جارحانہ کیا ہے؟‘
مریم نواز کی جانب سے ان کا کمرہ توڑ کر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے دعوے پر مبنی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے صحافی رضا رومی کا کہنا تھا کہ ’یہ شرمناک ہے۔ کیا کیپٹن صفدر نے کسی کو قتل کیا تھا کہ ان کا دروازہ توڑا گیا۔‘
انھوں نے وزیر اعلی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ پولیس کے آپ کے ماتحت ہے آپ اس معاملے کو ٹھیک کریں۔‘
ایک صارف نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے حوالے سے لکھا کہ ’انھیں (کیپٹن صفدر) حکومت مخالف مظاہرے پر نہیں بلکہ مزار قائد کی توہین کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔‘
جبکہ ایک صارف عائشہ اعجاز خان کا کہنا تھا ’سچ کہوں تو میں مزار قائد پر نعرے بازی سے متفق نہیں۔ یہ نامناسب ہے۔‘
وہیں ایس ایس عباسی نامی ٹوئٹر ہینڈل نے پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کی پرانی تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’پی ٹی آئی کی یہ تصاویر دیکھیں یہ مزار قائد کی ہیں۔‘
عثمان علی نامی صارف کا کہنا تھا ’یہ حزب مخالف کے رہنما ہیں جن کے پاکستان میں لاکھوں پیروکار ہیں۔ ان میں اتنی بھی معقولیت نہیں کہ مزار قائد کا احترام کیسے کرنا ہے۔ ان کے لیے سب کچھ سیاست اور طاقت ہے۔‘