وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے چیئرمین اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں لوگ کورونا وائرس کے خلاف تمام اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کو ’لاپرواہی سے نظرانداز کرکے اجتماعی غلطی کر رہے ہیں‘، جس کے نتائج اموات میں اضافے کی صورت میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ گزشتہ ہفتے کووڈ کی اموات کی یومیہ تعداد 12 رہی جو گزشتہ کچھ ہفتے پہلے کے مقابلے میں 140 فیصد اضافہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر لوگ ایس او پیز کی خلاف ورزی جاری رکھتے رہے تو ’ہم اپنی زندگیوں اور معاش دونوں سے محروم ہوجائیں گے‘۔
ادھر وفاقی وزیر کی بات پر وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے تسلیم کیا کہ لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے۔
انہوں نے بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے تمام عوامی مقامات خاص طور پر مارکیٹوں، دفاتر اور ریسٹورنٹس وغیرہ میں ماسکس پہننا چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ماسک نہ پہننا انتہائی خود غرضی کا کام ہے کیونکہ اس سے نہ صرف آپ خود کو بلکہ اپنے گھر والوں، ساتھیوں، کام کرنے والوں اور ہر اس کو خطرے میں ڈال رہے جو آپ سے رابطے میں آیا ہو۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سے ملک میں کورونا وائرس سے ہوئی اموات میں اضافہ دیگھا گیا ہے اور اتوار کو پنجاب میں جولائی کے بعد پہلی مرتبہ اموات دو ہندسوں میں پہنچ گئیں۔
یہی نہیں بلکہ 17 اکتوبر کو ملک بھر میں 17 اموات ریکارڈ کی گئی جو تقریباً ایک ماہ بعد رپورٹ ہوئیں تھی جبکہ اس سے ایک روز قبل یہ تعداد 15 رہی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کورونا وائرس کی پہلی لہر سے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی بہتر طریقے سے نمٹا اور یہاں کیسز کی مجموعی تعداد میں سے 95 فیصد صحتیاب ہوگئے تاہم دوسری لہر کا خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے۔
ملک میں موسم کی بدلتی صورتحال کے باعث کورونا وائرس کی دوسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے اور حکام کی جانب سے شہریوں پر حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان بھی آئندہ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر زیادہ آبادی والے علاقوں میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔
گزشتہ روز تقریب سے خطاب میں عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے خدشہ ہے کہ ان دو مہینوں اکتوبر اور نومبر میں فیصل آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور گوجرانوالہ جیسے شہروں جہاں آبادی زیادہ ہے کورونا وائرس کی دوسری لہر آسکتی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کیسز میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ تیزی سے نہیں بڑھیں گے جبکہ ہم ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر اسد عمر نے قوم پر زور دیا تھا کہ وہ بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ کورونا ایس او پیز کو سنجیدگی سے لیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کے بڑھنے کے واضح اشارے ملے ہیں اور گزشتہ روز (14 اکتوبر) کو ملک میں 2.37 فیصد کیسز مثبت آئے جو 50 دن میں سب سے زیادہ مثبت شرح اور آخری مرتبہ 23 اگست کو یہ شرح دیکھی گئی تھی۔
انہوں نے اسی ہفتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ رواں ہفتے کے ابتدائی 4 روز میں کورونا وائرس کی اوسطاً اموات یومیہ 11 رہی جو 10 اگست کے ہفتے کے بعد سے سب سے زیادہ تھی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کورونا کے بڑھنے کے واضح اشارے ہیں، مظفرآباد میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز بہت زیادہ ہیں جبکہ کراچی میں بھی یہ تعداد زیادہ ہے، اس کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں یہ بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ فروری میں اس عالمی وبا کے پہلے کیس کے بعد سے اگست تک ملک میں مکمل و اسمارٹ لاک ڈاؤن کے تحت کافی وقت تک تعلیمی اداروں کی بندش، عوامی اجتماعات پر پابندی، کاروباری سرگرمیوں کی معطلی سمیت دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اگست کے مہینے میں یہ پابندیاں تقریباً مکمل طور پر ختم کردی گئیں تھی جبکہ ستمبر سے تعلیمی اداروں اور شادی ہالز جہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے انہیں بھی ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم ستمبر کے وسط سے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ رپورٹ ہونا شروع ہوا جس کے بعد مختلف علاقوں میں ایک مرتبہ پھر اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا جبکہ عوامی اجتماعات اور شادی ہالز میں تقریبات سے متعلق گائڈ لائنز بھی جاری کی گئی، جس کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔