Site icon DUNYA PAKISTAN

تشدد افغان امن عمل کے لیے ایک خطرہ ہے، امریکی سفیر

Share

واشنگٹن:امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ‘حد سے زیادہ بڑھتا‘ تشدد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں انہوں نے بیان دیا کہ ‘خلاف ورزیوں کے بے بنیاد الزامات اور اشتعال انگیز بیانات امن کو فروغ نہیں دیتے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس کے برعکس، ہمیں امریکا-افغانستان اور امریکا-طالبان مشترکہ معاہدوں کے تمام آرٹیکل پرسختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے اور آہستہ آہستہ تشدد کو کم کرنے کے عزم کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے‘۔

واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغان امن عمل میں امریکا کے نمائندہ خصوصی ہیں اور انہوں نے رواں سال امریکا اور طالبان کے امن معاہدے اور مشترکہ اعلامیے میں اہم کردار ادا کیا۔

نمائندہ خصوصی نے گزشتہ ماہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی حوصلہ افزائی بھی کی لیکن یہ شریعی تشریحات کے باعث دب گئیں۔

زلمے خلیل زاد کا یہ بیان جنوبی افغانستان میں طویل عرصے تک طالبان کے مضبوط گڑھ رہنے والے ہلمند میں ہونے والی لڑائی کے بعد سامنے آئے۔

واضح رہے کہ جمعہ کو طالبان نے امریکا کی جانب سے علاقے میں فضائی حملے روکنے کی بنیاد پر اپنے حملے روکنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے دونوں فریقین کو یاد دلایا کہ بڑھتا تشدد امن عمل خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ معاہدے اور بنیادی سمجھوتے کے مطابق تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بتدریج تشدد میں کمی کی ضرورت سے متعلق ہونے والی حالیہ توثیق کے باوجود تشدد اب بھی زیادہ ہے، مزید یہ کہ ہلمند میں طالبان کے حملے اور ان کی افغان حکومت کے آپریشنز اور اتحادیوں کے حملوں سے متعلق شکایات دوحہ میں حالیہ ملاقات کی وجہ بنا۔

امریکی نمائندے کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں تمام فریقین کی جانب سے تشدد، اموات میں کمی اور حملوں اور فضائی کارروائیوں کو بھی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

سفیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہلمند میں تشدد میں کمی آئی ہے تاہم اس وقت ملک بھر میں تشدد زیادہ ہے لیکن ہماری توقعات یہیں ہیں کہ تشدد میں کمی آئے’۔

زلمے خلیل زاد نے یاد دلایا کہ امریکا-طالبان معاہدے کی تمام تر توجہ تشدد میں کمی ہے جسے قیدیوں کی رہائی کے ساتھ مزید اجاگر کیا گیا تھا جبکہ تمام فریقین نے اس معاہدے پر عمل کرنے کا عزم کیا تھا۔

انہوں نے حالیہ معاہدوں پر من وعن عمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صرف یہ سوچ ہی افغان جانوں کے ضیاع کو کم کرنے کا راستہ فراہم کرے گی اور امن کے ایک تاریخی موقع کا تحفظ کرے گی جسے گنوانا نہیں چاہیے جبکہ طالبان کا کہنا تھا کہ ‘تمام ذمہ داری، حالات و واقعات’ امریکی فضائی حملوں پر منحصر ہیں۔

Exit mobile version