حوریم سلطان سے قُسم سلطان تک: سلطنتِ عثمانیہ کی شاہی کنیزیں جو کسی ملکہ جتنی بااثر تھیں
یہ سنہ ہے 1603 اور منظر ہے سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان احمد اول کے اقتدار کے پہلے سال میں ترک شاہی حرم کا!
یونان کے گاؤں سے سلطان کے لیے تحفے کے طور پر اغوا کر کے لائی گئی ایک دبلی پتلی سی لڑکی نئے سلطان کی دادی صفیہ سلطان کے قدموں میں گر کر گھر واپس جانے کی بھیک مانگ رہی ہے۔
صفیہ سلطان اسے بتاتی ہیں کہ اب یہ ناممکن ہے اور پھر پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ایک مشورہ دیتی ہیں۔ ’دیکھو بیٹی،ایک عورت کو اپنی زندگی میں کئی کردار نبھانے پڑتے ہیں۔ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں ایک مختلف انسان ہوتی ہے۔ ایک بچی، ایک عورت، ایک ماں، اور، اگر وہ سمجھدار ہے اور اس پر خدا کی مہربانی ہے تو وہ سلطانہ بھی بن سکتی ہے۔ فرق صرف اس بات سے پڑتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے کیا انتخاب کرتی ہے۔‘
پھر صفیہ سلطان اپنی بات ختم کرتے ہوئے انستاسیا نامی اس لڑکی سے کہتی ہیں کہ ’اطمینان رکھو، تمہارا مستقبل بہت روشن ہے۔‘
یہ تو تھا انستاسیا کی زندگی پر بنی ترک ٹی وی سیریز قُسم سلطان کا ایک منظر۔ اب سلطنت عثمانیہ کے مختلف حصوں سے اغوا ہو کر اور غلام بن کر شاہی حرم میں پہنچنے والی کچھ لڑکیوں کی حقیقی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن کا بعد میں شمار اپنے دور کی طاقتور ترین عالمی شخیصات میں ہوا۔
سن 1520 کے ستمبر میں جب سلطان سلیمان کو سلطنت عثمانیہ کے 10 ویں حکمران کی حیثیت سے تخت ملا تو اس کی حدود میں مشرقی بحیرۂ روم، بحیرۂ اسود اور اس کے ساحلی علاقے، آج کے مشرق وسطیٰ میں شامل زیادہ تر علاقے اور جنوب مشرقی یورپ شامل تھا۔
ان کے دور کے ابتدائی برسوں میں ہی بلغراد اور بحیرۂ روم میں رہوڈز کے اہم جزیرے کی فتوحات سے شروع ہو کر سلطنت کی حدود مغرب میں یورپ اور مشرق میں ایشیا میں مزید پھیل گئیں۔
اس وسیع و عریض سلطنت پر تقریباً 50 سال حکمرانی کرنے والے سلطان سلیمان کو یورپ میں اپنی جاہ و حشم کی وجہ سے سلیمان محتشم اور ترکی میں، قانون میں اہم تبدیلیوں کی وجہ سے، سلیمان قانونی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن سلطان سلیمان کے دور میں بظاہر ایک دوررس اثرات والی پیشرفت ان کے حرم اور زندگی میں ایک کنیز کی آمد تھی جسے حرم میں خرم سلطان کا نام دیا گیا اور جسے آج حوریم سلطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سلطان سلیمان کے حرم میں اس سے پہلے بھی کنیزیں تھیں اور ان کے پہلے سے بچے بھی تھے لیکن ان کے اور حوریم سلطان کے تعلق کی اس سے پہلے مثال نہیں تھی اور ایک مؤرخ کے نزدیک سلطنت عثمانیہ کے اس دور کو ’سلیمان اور روکسیلانا کا دور‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
حوریم سلطان کی سلطان سلیمان کی زندگی میں آمد کے بعد، اُس سلطنت کی تاریخ میں، جس میں ملکہ کا کوئی باقاعدہ عہدہ نھیں تھا، اس دور کا آغاز ہوتا ہے جسے مؤرخ ’عورتوں کی سلطنت‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مؤرخ لیسلی پیئرس سلطنت عثمانیہ میں شاہی حرم اور عورتوں کے کردار کے بارے میں اپنی کتاب ’امپیریئل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمان(پہلا سلطان) اور ان کے بیٹے اورہان کی نسلوں کے بعد بظاہر سلاطین کے سب بچے کنیز ماؤں سے پیدا ہوئے تھے۔‘
لیکن ’سنہ 1520 میں حوریم سلطان کے دور کے آغاز سے لے کر 17ویں صدی کے وسط میں قُسم سلطان کی موت تک سلطنت عثمانیہ کئی اعتبار سے ان خواتین کے زیر اثر تھی جن کی طاقت کی بنیاد اس بات پر تھی کہ وہ اپنے دور میں سلطان کی پسندیدہ کنیزیں تھیں۔ یہُ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حرم سیاست کا مرکز بن گیا تھا۔ ’حرم کا مرکزی رجحان سیکس نھیں بلکہ خاندانی سیاست تھا۔‘
کنیزوں کے اثر و رسوخ کے اس دور کے چار اہم کردار ہیں: خرم یا حوریم سلطان، ان کی بہو نور بانو سلطان اور پھر ان کی بہو صفیہ سلطان اور آخر میں صفیہ سلطان کے پوتے سلطان احمد اول کی پسندیدہ کنیز قُسم سلطان۔
عثمانوی تاریخ میں ’عورتوں کی سلطنت‘ کا یہ زمانہ یورپ میں بھی طاقتور ملکاؤں کا زمانہ تھا جن میں انگلینڈ کی الزبتھ اول اور فرانس کی کیتھرین دا میدیچی شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ کے مختلف علاقوں سے اغوا ہو کر اور ’بازاد میں بِک کر‘ عثمانوی حرم میں پہنچنے والی ان کنیزوں کی دنیا کے دوسرے شاہی خاندانوں سے برابری کی سطح پر اور پورے شاہی ادب آداب کے ساتھ خط و کتابت بھی ہوئی۔ ’انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول نے صفیہ سلطان کو سن 1593 میں تحفے میں اپنا پورٹریٹ بھی بھیجا تھا۔‘
مؤرخ لیسلی پیئرس کی حوریم سلطان کی زندگی پر سن 2020 میں شائع ہونے والی کتاب ’ایمپرس آف دی ایسٹ‘(مشرق کی ملکہ) کا موضوع بھی یہی ہے کہ ایک غلام لڑکی کیسے سلطنت عثمانیہ کی ملکہ بن جاتی ہے؟ انھوں نے لکھا کہ ’عثمانیوں میں ملکہ کا باقاعدہ عہدہ نہ ہونے کے باوجود روکسیلانا(حوریم سلطان) نے یہ کردار ادا کیا اور انھوں نے 16ویں صدی میں یورپ کی نامور ملکاؤں کی بھرپور انداز میں برابری کی۔‘
حوریم سلطان کہاں سے آئی تھیں
پیئرس نے ’ایمپرس آف دی ایسٹ‘ میں لکھا ہے کہ ہمیں روکسیلانا کے اصل نام، جائے پیدائش، تاریخ پیدائش اور والدین کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ تاہم وہ لکھتی ہیں کہ ان کی اس زمانے میں بہت زیادہ اہمیت کے پیش نظر کچھ باتوں پر یقین کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ان کا تعلق یوکرین کے علاقے رُتھینیا سے تھا جو اس وقت پولینڈ کا حصہ تھا۔ روکسیلانا کا مطلب بھی ’رتھینیا کی لڑکی‘ ہے اور یورپ والے انھیں اس نام سے پکارا کرتے تھے۔
پیئرس کے مطابق ایک بات مکمل یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی پیدائش مسیحی خاندان میں ہوئی تھی۔ کچھ عثمانی روایات کے مطابق روکسیلانا ایک پادری کی بیٹی تھی۔
ترکی میں عثمانوی تاریخ اور قانون کے ایک پروفیسر اکرم بورا اکنجے نے حوریم سلطان کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کا اصل نام الیگزانڈرا لیسووسکا تھا اور اسے 12 سال کی عمر میں کریمیا کے تاتاریوں نے اغوا کر کے استنبول بھیج دیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شاہی حرم میں باقی کنیزوں کی طرح حوریم سلطان کی بھی کئی سال تک شاہی آداب، عثمانی علوم اور اسلام کے بارے میں تربیت ہوئی اور پھر انھیں ان کی خوش مزاج طبیعت اور مسکراتے چہرے کی وجہ سے خرم نام دیا گیا(جو جدید ترک میں حوریم بن گیا)۔
پیئرس نے ایک سے زیادہ بار حوریم کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ اس زمانے میں شاہی حرم کی زندگی کے بارے لکھی گئی بہت سی کتابیں سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھیں اور زیادہ قابل اعتبار نہیں۔
انھوں نے لکھا ہے کہ روکسیلانا سنہ 1520 میں ستمبر میں سلطان سلیمان کی تخت پوشی کے کچھ ہی مہینوں کے بعد ان کے حرم کا حصہ بن گئی تھیں، اس وقت سلطان کی عمر 26 برس اور روکسیلانا تقریباً 17 برس کی تھیں۔ ’سن 1521 میں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ ان کے سلطان سے ایک بیٹی اور چار (کچھ ذرائع کے مطابق پانچ) بیٹے ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر اس معمول کی بات نے اس وقت سلطنت عثمانیہ کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔
پہلے بیٹے کی پیدائش تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد اسی کنیز کے ساتھ تعلق جاری رکھنا مؤرخین کے مطابق سلطنت کی نسلوں پرانی روایات کے خلاف تھی۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت تک دو صدیاں اور نو سلطان دیکھ چکی تھی اور مؤرخین کے مطابق ’ایک عثمانی سلطان کے لیے، کسی بھی اور بادشاہ کی طرح، سیکس صرف مزے کے چیز نھیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کے اہم سیاسی نتائج تھے۔۔۔خاندان کے اقتدار کے بقا کا دارومدار اسی پر تھا۔ یہ ایسا فُعل نھیں تھا جو نتائج کو دھیان میں رکھے بغیر کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔حرم میں سیکس کے کچھ ضوابط تھے۔‘
اس وقت ان ضوابط کے تحت ایک کنیز سلطان کے بیٹے کی ماں بننے کے بعد اس سے جسمانی تعلق نھیں جاری رکھ سکتی تھی۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ ایک کنیز ایک بیٹا کی پالیسی کی بنیاد یہ تھی کہ ماں ایک شہزادے کو پوری توجہ دے سکے اور کبھی اسے دو یا اس سے زیادہ بیٹوں میں ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت نہ آئے۔
پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان اور حرم کی خواتین کے درمیان سیکس وارث پیدا کرنے کی پیچیدہ سیاست سے کنٹرول ہوتی تھی۔
اگر کسی کا خیال تھا کہ خرم کا سلطان کے ایک سے زیادہ بیٹوں کی ماں بننا غلط تھا تو سنہ 1536 میں سلطان سلیمان نے اپنی پسندیدہ کنیز حوریم سلطان سے شادی کر کے نہ صرف اپنی عوام بلکہ استنبول میں تعینات اہم عالمی سفارتکاروں کو ایک بار پھر حیران کر دیا۔
اس کے بعد جب حوریم کے بیٹے روایت کے مطابق صوبوں میں فرائض انجام دینے گئے تو ان کے ساتھ جانے کی بجائے وہ سلطان کے ساتھ استنبول میں رہیں۔ یہ ایک اور روایت کی خلاف ورزی تھی۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ عثمانوی عوام کی نظر میں کسی سلطان کا ایک شخص کے اثر میں ہونا ناقابل قبول تھا کیونکہ ان کے نزدیک سلطان کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ہر بندھن سے آزاد ہونا چاہیے تھا۔
حوریم سلطان اب مکمل طور پر حرم کی سیاست میں گھر چکی تھی۔ خرم سلطان سے پہلے سلطان سلیمان کا ایک اور کنیز ماہیدیورن سے بھی ایک بیٹا تھا جس کا نام مصطفیٰ تھا۔ یہ بیٹا سلطان کی تخت نشینی سے پہلے پیدا ہوا تھا اور عوام اور عسکری حلقوں میں بہت مقبول تھا اور سب کا خیال تھا کہ اگلا سلطان یہی بنے گا۔
سلطنت عثمانیہ میں اس وقت تو جو روایت چلی آ رہی تھی اس کے مطابق ہر سلطان کی موت کے بعد شہزادوں میں تخت کے لیے کشمکش ہوتی تھی جو ایک کے علاوہ سب کی موت تک جاری رہتی۔
پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان اپنا پیدائشی خاندان تو کھو چکی تھی اب شاید دوسرا خاندان کھونے کا خدشہ اس کے ذہن میں رہتا ہوگا کہ اگر مصطفیٰ سلطان بن گیا تو اس کے بچوں کا کیا ہو گا۔ مؤرخین کے مطابق اس وقت سلطنت کے وزیر اعظم ابراہیم پاشا کی ہمدردیاں بھی مصطفیٰ کے ساتھ تھیں۔
اب حالات کچھ اس طرح آگے بڑھے کہ مصطفیٰ اور ابراہیم دونوں کو سلطان نے عہدوں کی حدود پار کرنے اور بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں مروا دیا۔ اس کے بعد اب یہ طے ہو گیا کہ سلطان سلیمان کے بعد حوریم سلطان کا ہی کوئی بیٹا تخت پر بیٹھے گا۔ حوریم سلطان کا اپنے خاوند سے آٹھ سال پہلے سن 1558 میں انتقال ہو گیا اور وہ شہزادے سلیم کو تخت پر بیٹھتے ہوئے نھیں دیکھ سکیں۔ یاد رہے کہ حوریم سلطان اور سلطان سلیمان کے بیٹے بایزید کو بھی بغاوت کے الزام میں مروا دیا گیا تھا۔
حوریم سلطان تاریخ کا ایک متنازع کردار ہے جس کے بارے میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی بحث جاری ہے۔ پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان سلیمان اور ان کا تعلق اتنا غیر روایتی تھا کہ دوبارہ عثمانی تاریخ میں اس کی مثال نھیں ملتی۔
حوریم سلطان اپنی زندگی میں ہی متنازع ہو گئی تھیں اور ’کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے عثمانی تاریخ میں مقام کے بارے میں بحث ختم نہیں ہوئی۔‘ ان پر اسی دور میں سلطان پر جادو کرنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔
پیئرس کہتی ہیں کہ عوامی سطح پر سب الزام حوریم پر ڈالنا اس لیے آسان تھا کیونکہ سلطان سے تو غلطی کا تصور نھیں تھا۔
حوریم سلطان کی کامیابی
پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان کی بڑی کامیابیوں میں سلطنت بھر میں پھیلے ہوئے فلاحی کام تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ انھوں نے مسجدیں، ہسپتال، یتیم خانے، لنگر قائم کرنے اور پینے کے پانی کی سہولیات میں بہت دلچسپی لی اور خیراتی ادارے بھی قائم کیے۔ وہ لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان غلاموں کو آزاد کروانے میں بہت دلچسپی لیتی تھیں جس کی وجہ شاید ان کا اپنا ماضی کا تجربہ تھا جسے وہ نھیں بھلا سکی تھیں۔
انھوں نے لکھا کہ ان کے فلاحی کاموں ان کے بعد بھی نچلی سطح تک ہزاروں خواتین کو فائدہ پہنچا۔ ان کے قائم کیے گئے کئی فلاحی ادارے آج بھی قائم ہیں۔
حوریم سلطان سفارتی محاذ پر بھی بہت متحرک تھیں۔ اس کی ایک مثال کے طور پر سلطان سلیمان کے دور میں خرم سلطان کے آبائی علاقے پولینڈ سے سلطنت کا مسلسل رابطہ رہا۔ پولینڈ کے بادشاہ سجیسمند اوّلا حوریم سلطان کی کوششوں کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ امن قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔
یہی نہیں بلکہ حوریم سلطان کا خط کے ذریعے صفوی بادشاہ شاہ تہماسپ کی بہن سلطانم سے بھی رابطہ تھا۔ پیئرس لکھتی ہیں ممکن ہے کہ جب سلطان سلیمان کا مقصد صلح ہوتا تھا وہ حوریم سلطان کے ذریعے بات کرتے تھے۔
پیئرس نے عثمانی سلطنت میں حرم کی زندگی کے بارے میں اپنی کتاب ’امپیریئل حرم‘ میں لکھا ہے کہ ’16ویں اور 17ویں صدیوں میں عثمانوی سلطنت کے سفارتی محاذ پر خاص طور پر چار خواتین نمایاں تھیں: حوریم، نور بانو، صفیہ اور قُسم۔‘ اور ان کے ذریعے قائم کیے گئے سفارتی روابط نے سلطنت کی بہت مدد کی۔
حوریم سلطان کے بعد آنے والی شاہی خواتین کے ذکر کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نوعمر لڑکیاں دور دراز علاقوں میں انسانوں کی منڈیوں سے کن تجربات سے گزر کر استنبول پہنچی تھیں۔ ’اغوا کے تجربے سے گزرنا کسی کمزور انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔‘
حوریم سلطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ جب انھوں نے اپنی رہائش گاہ پرانے محل سے نئے شاہی محل میں منتقل کی تو حرم کو سیاست کے مرکز کے قریب لے آئیں۔
ایسا کرنے سے حرم ایک سیاسی طاقت بن گیا اور آئندہ آنے والے وقتوں میں حرم کی سینئیر خواتین کے لیے سیاسی حلقوں میں رابطے قائم کرنا ممکن ہو گیا۔
حوریم سلطان یوکرین سے استنبول میں شاہی حرم تک کیسے پہنچیں؟
پیئرس اپنی کتاب ’ایمپرس آف دی ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ 15 صدی کے اختتام کے بعد سے حوریم سلطان کا آبائی علاقہ سمجھا جانے والا رتھینیا ان علاقوں میں شامل تھا جو انسانوں کی تجارت سے بری طرح متاثر تھے اور اس کے پیچھے زیادہ تر کریمیا کے تاتاریوں کا ہاتھ تھا۔
تاہم وہ اس کاروبار سے منافع کمانے والے پہلے لوگ نہیں تھے کیونکہ بحیرہ اسود کا یہ علاقہ زمانہ قدیم سے غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے اور ’سلطنت روم اور پھر بازنطینی سلطنت اور بغداد کی مشہور عباسی خلافت میں بھی اس تجارت کے خریدار رہے ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ اس زمانے میں انسانوں کی تجارت اور کسی کو جنگ میں قیدی بنانے میں بہت باریک فرق رہ گیا تھا۔ تاتاری اپنے آپ کو مڈل مین نہیں بلکہ جنگجو سمجھتے تھے اور کافا شہر میں غلاموں کی منڈی میں کاروبار کرنے والوں میں ’یہودی، یونانی، آرمینیائی اور کچھ اطالوی شامل تھے۔۔۔دوسرے لفظوں میں غیر مسلم۔‘
پیئرس لکھتی ہیں کہ یورپ میں ان تاتاریوں کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے لیکن تنقید کرنے والوں کو ’لوگوں کے غلام بننے سے کم اور اس بات سے زیادہ مسئلہ قیدیوں کے مسلمان بنائے جانے کے امکان سے تھا۔‘ ’غلامی ان(تنقید کرنے والے یورپیوں) کے لیے نئی بات نھیں تھی، انھوں نے خود کبھی بحیرۂ اسود کی انسانوں کی منڈیوں سے ۔۔۔۔خریداری کرنے میں ہچکچاٹ محسوس نہیں کی تھی۔‘
انھوں نے لکھا کہ کریمیا کے تاتاری لوگوں کو تجارت کے لیے قیدی بنانے کے بعد سلطنت عثمانیہ کی حدود میں کافا نامی شہر(موجودہ نام فیوڈوشیا) لاتے تھے جہاں سے سمندری سفر کے ذریعے انھیں استنبول لایا جاتا تھا۔
وہ لکھتی ہیں کہ روکسیلانا کو بھی روتھینیا سے اسی راستے سے استنبول لایا گیا ہو گا۔ کریمیا کا یہ پڑوسی علاقہ براہ راست سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا۔ اور اگر ذرائع قُسم سلطان کے بیٹے سلطان ابراہیم کی پسندیدہ کنیز اور سلطان محمد چہارم کی والدہ ظورخان سلطان کے رتھینیا سے تعلق کے بارے میں درست ہیں تو یہ مشکل سفر انھوں نے بھی کیا ہو گا۔
پیئرس کے مطابق اس علاقے میں تاتاریوں کا پہلا بڑا حملہ سنہ 1468 میں ہوا ہو گا جب تقریباً 18000 مرد، عورتیں اور بچے قیدی بنائے گئے۔ اس کے بعد تقریباً ہر سال اس طرح کے حملے ہوتے رہے۔
پیئرس کے خیال میں روکسیلانا سنہ 1516 میں ہونے والے ایک حملے میں قیدی بنی ہوں گی۔ اس برس مختلف اندازوں کے مطابق پانچ سے 40 ہزار لوگ غلام بنائے گئے تھے۔ انھوں نے پولینڈ کے ایک مؤرخ کا حوالہ دیا جن کے مطابق روکسیلانا کے علاقے میں 1509 میں ایک حملہ ہوا تھا وہ شاید اس میں قیدی بنی ہوں۔
سنہ 1578 میں کریمیا کے دربار میں پولینڈ کے سفیر نے ان حملوں کی تفصیل بتائی کہ یہ موسم سرما میں ہوتے ہیں جب دریا اور جھیلیں جم چکی ہوتی ہیں اور حرکت تیزی سے ہو سکتی ہے اور ’قیدیوں کو مناسب خوراک بھی نھیں ملتی جنھیں بیڑیوں میں پیدل چلایا جاتا ہے۔ ‘
رتھینیا سے استنبول تک کا سفر روکسیلانا جیسی کم عمر لڑکی کے لیے معمولی بات نھیں تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن 1509 میں ہی سلطان سلیمان کی شہزادے کی حیثیت سے پہلی تعیناتی 15 سال کی عمر میں کافا میں ہی تھی جہاں وہ گورنر بنا کر بھیجے گئے تھے۔
نور بانو اور صفیہ سلطان
لیسلی پیئرس اپنی کتاب ’امپیریئل حرم‘ میں بتاتی ہیں کہ حوریم سلطان کے بیٹے سلیم دوم کی پسندیدہ کنیز اور پہلی طاقتور والدہ سلطان نور بانو کا پیدائشی نام سیسیلیا تھا۔ وہ وینس کے دو اعلیٰ خاندانوں کے ارکان کی بغیر شادی کے اولاد تھیں۔ عثمانی ایڈمرل باربروسا کے قبضے میں آنے کے بعد وہ 12 سال کی عمر میں غلام کی حیثیت سے شاہی حرم کا حصہ بنی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان سلیم دوم نے بھی اپنے والد سلطان سلیمان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نور بانو سے شادی کر لی تھی۔
سنہ 1574 میں جب سلطان سلیم کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے مراد سوم تخت پر بیٹھے اور صفیہ سلطان ان کی پسندیدہ کنیز تھیں جو مؤرخین کے مطابق البانیہ سے قیدی بن کر شاہی حرم تک پہنچی تھیں۔ نور بانو اور صفیہ سلطان اس دور کا حصہ ہیں جب والدہ سلطان کا عہدہ بہت اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ عثمانی تاریخ میں ماں اور بیٹے کا تعلق ہمیشہ سیاسی طور پر اہم تھا لیکن اسے باقاعدہ طور پر تسلیم 16ویں صدی کے اختتام پر کیا گیا۔ ’اگرچہ یہ شاہی مائیں براہ راست اقتدار کا حق نھیں رکھتی تھیں لیکن یہ اس اقتدار کے سر چشمے کی نگران ضرور تھیں۔`
عثمانی خاندان کی عورتوں کو طاقت 16 صدی ہی میں کیوں ملی؟
مؤرخ کہتے ہیں کہ اس کی وجوہات بہت الجھی ہوئی ہیں ۔ لیکن ایک پہلو جو ان سب کا احاطہ کرتا ہے وہ عثمانی سلطنت میں فتوحات کے دور کی جگہ دور دور تک پھیلی ہوئی اس سلطنت میں استحکام کے دور کا آغاز اور ایک فوجی ریاست سے انتظامی اور نوکر شاہی کی ریاست میں تبدیل ہونا تھا۔ پیئرس اپنی کتاب امپیریئل حرم میں لکھتی ہیں کہ پہلے شہزادے جب اپنے صوبوں میں ذمہ داریاں سنبھالنے جاتے تھے، ان کی مائیں ساتھ ہوتی تھیں جن کے فرائض میں ان کی تربیت اور نگرانی شامل تھی لیکن جب 16 ویں صدی کے اختتام پر مادر ملکہ کا عہدہ اہم ہوا تو ’سیاسی ماؤں‘ کی سب نسلیں خاندان کے ایک ہی سیاسی مرد یعنی سلطان سے وابستہ تھیں۔
اب دارالحکومت میں ایک چھت کے نیچے شاہی خاندان اکٹھا تھا(وقت کے ساتھ ساتھ شہزادوں کا صوبوں میں جانا بند ہو گیا اور وہ زیادہ تر شاہی محل تک محدود ہو گئے تھے) جس پر سلطان کی والدہ کی برتری قدرتی بات تھی اور جس کا ایک مظہر شاہی محل کا نقشہ تھا جس میں مادر ملکہ کی رہائش گاہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، یہ حرم کے تمام حصوں سے منسلک تھی اور اس کا ان کے بیٹے اور سلطان کے رہائشی حصے سے براہ راست رابطہ تھا۔
یہ محض اتفاق نھیں ہو سکتا کہ مراد سوم جنھوں نے سلطان کی رہائش گاہ کو حرم کی حدود میں منتقل کیا پہلے سلطان تھے جن کی تخت نشینی پر ان کی والدہ شاہی خاندان کی سربراہ تھیں۔
اس طرح، لیسلی پیئرس، کہتی ہیں ان خواتین نے سلطنت عثمانیہ کے مشکل ادوار میں خاندان کے اقتدار کو بچانے اوران کے جاری رہنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘ اس کی ایک مثال سن 1603 میں تخت نشین ہونے والے سلطان احمد اول کی خاص کنیز قُسم سلطان کی زندگی ہے۔
نور بانو اور صفیہ سلطان اور یورپ کی ملکائیں
16ویں صدی کی آخری دہائیوں میں جب سلطنت ایک ہی وقت میں مشرق میں صفوی محاذ پر اور مغرب میں یورپ میں سفارتی اعتبار سے مشکل دور سے گزر رہی تھی تو سلطان کی والدہ نے مختلف راستے کھلے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ’تاہم والدہ سلطان ہر بار سلطان کی مرضی سے کام نہیں کرتی تھیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ذاتی مفاد میں بھی کچھ کرنے سے وہ نہیں ہچکچاتی تھیں۔‘
پیئرس نے ’امپیریئل حرم‘ میں لکھا ہے کہ والدہ سلطان کی خارجی امور میں عملداری خاص طور پر مراد سوم اور محمد سوم کے دور میں نظر آتی ہے۔ نور بانو اور صفیہ سلطان کی سفارتکاری کا ایک اہم پہلو وینس کی رپبلک کی حمایت تھاُ۔ سن 1583 میں وینس کی سینٹ نے نور بانو سلطان کو تحفہ دینے کے حق میں پانچ کے مقابلے میں 130 ووٹوں سے ایک قرارداد بھی منظور کی تھی۔
نور بانو نے اپنے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے شاید اپنے آبائی وطن کی سب سے بڑی خدمت وینس کی ملکیت جزیرے پر عثمانی حملے کا فیصلہ تبدیل کروا کر کی تھی۔
نور بانو سلطان کے انتقال کے بعد صفیہ سلطان نے بھی وینس کی حمایت جاری رکھی۔ پیئرس لکھتی ہیں کہ سن 1603 میں صفیہ سلطان کی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد بھی وینس کے سفیروں کی طرف سے سلطان کے قریب خواتین سے قریبی رابطے رکھنے کی پالیسی جاری رہی۔
پیئرس لکھتی ہیں کہ 16ویں صدی کے اختتام پر انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اوّل کو ہسپانوی ہیپسبرگ سلطنت کا سامنا تھا۔ اس سلسلے میں استنبول میں ان کے سفارتخانے کی کامیابی میں صفیہ سلطان کا کافی ہاتھ تھا۔ صفیہ سلطان کے غیر ملکی سفیروں سے رابطے ان کے ایک یہودی اہلکار کے ذریعے ہوتے تھے۔ فرانس کی مادر ملکہ کیتھرین دمدیچی کا سلطان مراد سے تو رابطہ رہتا تھا لیکن ایک موقع پر انھوں نے نور بانو سے بھی رابطہ کیا جس میں انھوں نے سن 1536 میں فرانس کو پہلی بار دی گئی تجارتی سہولیات بحال کرنے کی درخواست کی۔
اسی طرح صفیہ سلطان اور ملکہ الزبتھ اوّل کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی جیسے کہ صفیہ سلطان لکھتی ہیں ’مجھے آپ کا خط ملا۔۔۔۔۔انشااللہ آپ نے جو لکھا ہے میں اس کے مطابق کارروائی کروں گی۔ اس معاملے میں آپ مطمئن رہیں۔۔۔۔خدا کرے ہماری دوستی ہمیشہ قائم رہے۔ آپ کی بھیجی ہوئی بگھی مجھے مل گئی ہے اور ہم اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں۔ میں نے آپ کے لیے ایک لباس، سکارف،تین رومال، دو سونے کے تلے والے تولیے، ایک یاقوت اور موتیوں سے سجا تاج بھیجا ہے۔ ہماری طرف سے اتنے حقیر تحفے بھیجنے پر معذرت قبول کریں۔‘
قُسم سلطان کی نصف صدی
قسم سلطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق یونان سے تھا جہاں سے وہ قیدی بن کر شاہی حرم میں پہنچی تھیں۔ خرم سلطان کی طرح ان کا دور بھی کئی دہائیوں پر مشتمل تھا، لیکن ان کا زیادہ تر وقت والدہ سلطان کے طور پر گزرا۔ قسم سلطان جب سن 1651 میں شاہی محل میں قتل ہوئیں تو یہ بھی کہا گیا کہ یہ ان کی بہو طورخان سلطان کے حامی سمجھے جانے والے ایک گروپ نے کیا ۔
وہ سلطان احمد اول(1603-1617) کی پسندیدہ کنیز تھیں۔ سلطان احمد کے انتقال کے بعد وہ 28 برسوں تک سلطان مراد چہارم اور سلطان ابراہیم اور اپنے پوتے سلطان محمد چہارم کے ابتدائی دور میں والدہ سلطان تھیں۔
قسم سلطان کا سلطان کا بھائیوں کو قتل کرنے کی روایت ختم کروانے میں کردار؟
یاد رہے کہ سلطان احمد اول کے والد سلطان محمد سوم جب 1595 میں تخت نشین ہوئے تو انھوں نے مؤرخین کے مطابق فوراً ہی اپنے 19 بھائیوں کو ہلاک کروا دیا تھا۔ اس سے پہلے ان کے دادا سلطان مراد سوم نے 1574 میں اپنی تخت نشینی پر اپنے نو اور کچھ ذرائع کے مطابق پانچ چھوٹے بھائیوں کو ہلاک کروا دیا تھا۔
اس سے پچھلی عثمانوی نسلوں میں بھائی تخت کی کشمکش میں مارے جاتے تھے لیکن جب سلطان احمد تخت نشین ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی مصطفیٰ کو نہ صرف یہ کہ قتل نھیں کیا گیا بلکہ سلطان کے اپنے انتقال کے بعد دماغی صحت کی کمزوری کے باوجود قُسم اور احمد اول کے بیٹوں کی جگہ شہزادہ مصطفیٰ ہی تخت پر بیٹھے۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ بھائیوں کے قتل کا سلسلہ ختم کرنے کی کوشش اور خاندان کے سب سے بڑی عمر کے شخص کو تخت پر بٹھانے کی اس پیشرفت میں بھی قُسم سلطان کا اہم کردار تھا۔
پئیرس لکھتی ہیں کہ قسم سلطان تاریخ سے واقف تھیں اور انھیں سمجھ تھی کہ اگر تاریخ دہرائی گئی اور سلطان احمد نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تو پھر سلطان احمد کے بعد جب ان کا بیٹا عثمان دوم(قسم سلطان کا سوتیلا بیٹا) یا کوئی اور بیٹا بھی تخت پر بیٹھا تو ان کے باقی بیٹوں کی زندگی بھی خطرے میں ہو گی۔
انھوں نے غالباً اسی خطرے کے پیش نظر کہ ان کے بیٹے ایک دوسرے کو نہ ماریں مطفیٰ کی جان بخشی اور خاص طور پر بعد میں ان کی تخت نشینی کی حمایت کی۔
لیکن یہ کیسا اتفاق ہے کہ سلطان احمد کے سات بیٹوں میں سے چار بیٹے سلطان بننے والے اپنے دو بھائیوں (عثمان دوم جو سلطان احمد کی قسم سلطان کی آمد سے پہلے ایک اور کنیز کے بیٹے تھے) اور سلطان مراد چہارم کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
پیئرس بتاتی ہیں کہ 17 سالہ سلطان عثمان دوم نے اپنے چھوٹے بھائی 16 سالہ محمد کو رومیلیا کے چیف جسٹس کی باقاعدہ اجازت سے یورپ میں جنگی مہم پر جانے سے پہلے ان کی غیر حاضری میں ممکنہ افراتفری کا جواز بنا کر ہلاک کروا دیا تھا۔
رومیلیا کے چیف جسٹس کا سلطنت کے علما میں دوسرا نمبر تھا۔ مؤرخ یہاں بھی غور کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ سلطان عثمان دوم نے اپنے چھوٹے بھائیوں میں سے صرف شہزادے محمد کو ہلاک کروایا جو قُسم سلطان کا بیٹا نہیں تھا۔
عثمان دوم کے انتقال کے بعد قسم سلطان کا بیٹا مراد تخت پر بیٹھا اور اس نے پیئرس بتاتی ہیں کہ بغداد اور صفوی سلطنت کے خلاف کامیاب مہمات کی آڑ میں دو بھائی ہلاک کروائے اور ابراہیم کی جان قسم سلطان کی براہ راست مداخلت سے بچی۔ قُسم نے مراد کو سمجھایا کہ ابراہیم تو ذہنی مریض ہے اور اس کے لیے بالکل خطرہ نہیں ہو سکتا۔
قسم سلطان نے جب اپنے ایک بیٹے سے دوسرے بیٹے کی جان بخشنے کے لیے کہا شاید انھیں خود اندازہ نھیں تھا کہ یہ اقدام سلطنت عثمانیہ کے مستقبل کے لیے کتنا اہم ہے۔ عثمان دوم اور مراد چہارم کا جب انتقال ہوا تو ان کی جگہ لینے کے لیے ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس وقت عثمانی خاندان کا واحد وارث شہزداہ ابراہیم ہی تھا۔
پیئرس کہتی ہیں کہ سنہ 1640 میں ان کی تخت نشینی کے وقت سلطنت میں شدید پریشانی تھی کہ اگر ابرہیم کے بچے نہ ہوئے تو عثمانی خاندان ختم ہو سکتا ہے لیکن سلطان ابراہیم کے کئی بچے ہوئے۔ ان کی ایک کی بجائے آٹھ خاص کنیزیں تھیں اور ان میں سے تین کے ہاں ایک ایک بیٹا پیدا ہوا۔
پیئرس کے نزدیک خرم سلطان کو اگر یورپ میں اہمیت دی جاتی ہے تو ترکوں کے نزدیک قُسم سلطان عثمانی خاندان کی سب سے طاقتور عورت تھیں۔ ان کے بھی خرم سلطان کی طرح کئی بچے تھے اور ایک وقت کے بعد وہ بھی سلطان کی واحد ساتھی تھیں۔
پیئرس نے عثمانی دربار میں وینس کے سفیر سائمن کونٹارینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ قُسم سلطان ’خوبصورت، ذہین اور بہت سی صلاحیتوں کی مالک ہے۔ وہ بہت اچھا گاتی ہے اور بادشاہ کو اس سے بہت پیار ہے۔۔۔لیکن ایسا نھیں کہ سب اسے پسند کرتے ہیں لیکن کئی معاملوں میں اس کی بات سنی جاتی ہے۔۔۔اور بادشاہ ہر وقت اسے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔‘
یہ رپورٹ سن 1612 کی ہے۔ سنہ 1616 میں استنبول میں ایک اور یورپی اہلکار نے رپورٹ دی کہ ’قُسم بادشاہ کی سب سے طاقتور اور قریبی معاون ہے۔ وہ بادشاہ سے جو چاہے کرواسکتی ہے۔۔اسے کبھی نہ نھیں کی جاتی۔‘
تاہم کونتارینی نے نوٹ کیا کہ ’قُسم سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بادشاہ کو ناراض کرنے کے ڈر سے ریاست کے اہم معاملات میں کم بولتی ہے‘۔ پیئرس کے خیال میں سلطان احمد شاید اس تاثر سے بچنا چاہتے تھے کہ وہ ایک عورت کے زیر اثر ہیں اور سلطان سلیمان کی طرح اپنی عوام کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔
قُسم سلطان سنہ 1651 میں قتل ہو گئیں تھیں۔ ایک افواہ کا ذکر ہوتا ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے شاہی محل میں ان کی بہو طورخان سلطان کے حامیوں کا ہاتھ تھا اور اگر یہ سچ ہے تو یہ پچھلی صدیوں میں بوڑھے سلاطین اور ان کے اقتدار کے لیے بے صبر شہزادوں کے درمیان کشمکش کی یاد دلاتا ہے۔
طور خان سلطان اور فرانسیسی توپوں کی سلامی
پیئرس نے والدہ سلطان کے سیاسی کردار کی مثال کے طور پر طورخان سلطان کی زندگی سے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ سن 1670 کی بات ہے جب ان کے بیٹے اور اس وقت کے سلطان محمد چہارم استنبول میں موجود نہیں تھے۔
تفصیل کے مطابق فرانس کے بادشاہ لوئی چہاردہم کے سفیر مرکویس د نوانتیل کے بحری جہاز نے استنبول آمد پر شاہی محل کے سامنے سے گزرتے ہوئے روایت کے مطابق توپوں کی سلامی نہیں دی جس سے پورے شہر میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ شہر میں دوسرے ممالک کے سفیروں نے بھی کہا کہ فرانس نے سب کے مفاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پیئرس بتاتی ہیں کہ والدہ سلطان طورخان اپنے تمام خدمتگاروں کے ساتھ ایک دن شاہی محل کے میدان میں گئیں اور مطالبہ کیا کہ فرانسیسی جہاز سے ان کے نام کی شاہی سلامی دی جائے۔ فرانسیسی جہازوں کو فوراً رنگ برنگے جھنڈوں سے سجایا گیا اور توپوں کا فائر شروع ہو گیا۔ اسی دوران شاہی محل کی توپوں سے بھی والدہ سلطان کو سلامی دی جانے لگی۔
شہر کے لوگ اتنی گھن گرج سے پریشان ہو گئے۔ پیئرس بتاتی ہیں یہ عمل اس وقت رکا جب ایک عثمانی ایڈمرل نے رپورٹ کیا کہ اس شور سے شہر کی حاملہ عورتوں کے حمل گر رہے ہیں۔
کنیزیں ہی کیوں بیویاں کیوں نہیں؟
لیسلی پیئرس بتاتی ہیں کہ پہلے دو سلطانوں کے دور میں اناطولیہ کی شہزادیوں کے ساتھ ہونے والے نصف درجن شادیوں کے بعد تمام سلطانوں کا تعلق ایسی عورتوں کے ساتھ رہا جو ایک کے سوا پیدائشی طور پر ترک تھیں نہ مسلمان۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے پیئرس لکھتی ہیں کہ اس دور کے یورپی مبصرین دو جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ سلطان تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست کے بعد جو سلوک عثمانی سلطان بایزید کی بیوی کے ساتھ ہوا وہ نھیں چاہتے تھے کہ آئندہ کسی سلطان کی بیوی کے ساتھ ہو اور دوسری وجہ اسلام میں بیویوں کا جائداد میں حق تھی۔
پیئرس کہتی ہیں کہ یہ بہت مشکل ہے کہ عثمانی سلطانوں نے کوئی پالیسی مستقبل میں شکست کے امکان کے مدنظر بنائی ہو۔ وہ لکھتی ہیں کہ کنیزیں اسلامی تاریخ میں موجود رہی ہیں اور پہلے بھی دوسری سلطنتوں میں بادشاہوں کی مائیں غلام کنیزیں رہ چکی تھیں۔
پیئرس کنیزوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا موازنہ ریاست کی انتظامیہ اور فوج میں غلام بنا کر لائے گئے لڑکوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت سے کرتی ہیں۔ وہ واضح کرتی ہیں کہ لڑکوں کی بھرتی کے اس نظام کا امریکہ غلام بنا کر لے جانے والوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ سلطنت عثمانیہ کے یہ غلام ایک سو سال کے اندر ریاست کے اعلی ترین فوجی اور انتظامی عہدوں تک پہنچ چکے تھے۔
پیئرس کہتی ہیں کہ شاہی حرم کے نظام کا ارتقا بھی کچھ اسی طرح ہو رہا تھا اور ممکن ہے کہ غلام عورتوں کا بھی اسی طرح کردار بڑھ رہا ہو۔
اس کے علاوہ کنیز کسی ایسے بندھن کے ساتھ بھی نہیں آتی تھی جو کسی شاہی خاندان کی ایک آزاد مسلمان عورت کے ساتھ شادی کا لازمی جزو تھا لیکن پیئرس لکھتی ہیں کہ جہاں شادیاں ہوئیں بھی وہاں بھی بچے کنیزوں سے پیدا کیے گئے۔
’شاہی خاندانوں سے آئی بیویوں کو بچے پیدا کرنے کا حق نہ دینا ان خاندانوں کی حیثیت کم کرنے کے مترادف تھا۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ 14 ویں صدی بلکہ شاید عثمان اول اور ان کے بیٹے اورہان کی نسل کے بعد سب شہزادے اور شہزادیاں کنیزوں کی اولادیں تھیں۔ انھوں نے 15صدی کے عثمانی مؤرخ شکراللہ کا بھی حوالہ دیا کہ بایزید اول اور ان کے بیٹے محمد اول کے سب بچے یقیناً کنیزوں سے پیدا ہوئے تھے۔
پیئرس لکھتی ہیں کہ ایک طرف وہ حلقے تھے جن کے خیال میں کنیزوں سے شاہی خاندان کی شان گھٹتی تھی دوسرے عثمانویوں کا موقف تھا کہ شاہی خاندان کی آزاد عورت کو برابری دینا سلطنت کے وقار اور خود مختاری کے خلاف تھا۔
’کنیز کے پاس شجرہ نہیں تھا لیکن اس کے پاس رتبہ تھا جو عثمانی خاندان کے وارث کو جنم دینے سے ملتا تھا۔‘