آج پورے آٹھ سال ہو گئے ہیں لیکن سالوں میں حساب کریں تو دنوں کی گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ان آٹھ سالوں میں دو سال لیپ کے تھے اور لیپ کا سال تین سو پینسٹھ نہیں تین سو چھیاسٹھ دن کا تھا‘ اور یہ بنتے ہیں دو ہزار نو سو بائیس دن۔ یہ اس دن سے حساب لگایا ہے جس دن میں اپنا آدھا دل پاک مائی کے قبرستان میں اس کے ساتھ چھوڑ کر آ گیا تھا۔ میں نے اپنا آدھا دل اس کے ساتھ دفن نہیں کیا تھا‘ بس چھوڑ کر آ گیا تھا۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ بھلا یہ والا دل میرا تھا بھی کب؟ یہ تو اس دن سے بھی نو ہزار چھ سو اسی دن پہلے اُسے دے دیا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ
جتنا میں اپنے پاس تھا‘ اتنا میں اپنے پاس ہوں
باقی کا اس سے پوچھئے اس نے مجھے کہاں کیا
ان آٹھ سالوں کی بھلی پوچھیں! وقت کے بارے میں سارا تصور ہی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ آٹھ سال دنوں میں بیت گئے ہیں اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ زندگی کے طویل ترین آٹھ سال ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ وہ دھڑل سے دروازہ کھول کرگھر میں داخل ہو گی اور حسب ِعادت بلند آواز سے السلام علیکم کہے گی۔ وہ گھر میں اسی طرح داخل ہوا کرتی تھی‘ لیکن کبھی ایسے لگتا ہے کہ وہ کبھی اس گھر میں تھی ہی نہیں۔ بلکہ لگتا کیا؟ کئی بار تو یقین سا ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ میرا واہمہ تھی اور ایک ایسا خیالی کردارجسے میں نے اپنے تخیل کے زور پرمجسم کر رکھا تھا اور جونہی خیال رخصت ہواوہ خواب و خیال ہو گئی‘ لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میں ایسا تو ہرگز نہیں تھا جیسا اب ہوں تو تب دل مانتا ہے کہ یہ میرا واہمہ نہیں ہے۔
گھر میں مہمان آئیں تو اس کی یاد شدت سے آتی ہے۔ مہمانداری اس پرختم تھی۔ میں تو سرے سے مہمانداری کے ان لوازمات سے فارغ آدمی تھا جو اُس کی ذات کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ بے فکراور کھلا ڈلا۔ جو گھر میں پکا ہوا ہوتا‘اٹھایا اور مہمان کے آگے رکھ دیا۔ اس کے آنے کے بعد بھی یہی طریقہ کار چلانے کی کوشش کی تو جواب ملا: گھر سے باہر آپ کی مرضی جو کرتے پھریں اور اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ جیسا سلوک چاہے کریں مگر گھر خاتون خانہ کا ہوتا ہے۔ جب مہمان گھر میں آئے گا تو وہ آپ کا نہیں‘ اس گھر کا مہمان ہوگا۔ گھر کی ذمہ داری مجھ پر ہے‘ آپ پر نہیں۔ اب بھلا میں کیا جواب دیتا؟ چھبیس برس‘ چھ ماہ اور سترہ دن کی مدت میں کم از کم میں نے مہمانداری تو سیکھ ہی لی۔ میری بیٹیاں میرے مالک کے کرم سے بڑی مہماندار ہیں لیکن سچ پوچھیں تو لگتا ہے کہ ابھی انہیں ماں کی منزل پر پہنچنے میں ایک آنچ کی کسر باقی تھی کہ وہ رخصت ہو گئی۔
جب میں نے اخبار میں لکھنے کے شوق میں اپنی تنخواہ سے ایک تہائی تنخواہ پر کام کرنے کیلئے اس سے مشورہ کیا تو اس نے صرف اتنا پوچھا کہ آپ کی خوشی اس میں ہے؟ میں نے کہا: میں اپنی بقیہ زندگی اپنی مرضی کا کام کرتے ہوئے گزارنا چاہتا ہوں۔ لکھنا چاہتا ہوں اور مزے کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہنس کر کہنے لگی: تو چھوڑ دیں نوکری‘ آپ کو کس نے روکا ہے؟ میں نے کہا: گھرچلا لو گی؟ کہنے لگی: چل جائے گا۔ میں نے کہا: حساب کر لو۔ پھر ہنسی اور کہنے لگی: حساب ہی کتنا لمباچوڑا ہے؟ کب سے کر رکھا ہے۔ صرف چھوٹے موٹے چند خرچے کنٹرول کرنا پڑیں گے۔ ہوٹل جانا بند کرنا پڑے گا‘ لیکن یہ سب کچھ اس خوشی کے سامنے کچھ نہیں جو مجھے آپ کی آنکھوں میں نظر آ رہی ہے۔ اللہ کا نام لیں اور اپنی خوشی حاصل کریں‘ رزق تو اس کے ذمے ہے ہم کب سے اس کا بندوبست کرنے والے بن گئے ہیں؟ میں نے اگلے روز نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد والے تیرہ سال اس طرح گزرے کہ کبھی اس نے کوئی ایسی فرمائش ہی نہ کی جو میری استطاعت سے باہر ہوتی۔ بھلا ایسی زندگی کتنے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے؟
یہ والے تیرہ سال تنگی میں نہیں گزرے تھے تو ایسی فراخی بھی نہیں تھی کہ اس کے دل میں دبی ہوئی کئی ایسی خواہشیں جووہ زبان پر نہیں لاتی تھی‘ پوری کر سکتا۔ اسے بھی پتا تھا کہ جیسے ہی سہولت ہوئی میں یہ سب کچھ اس کے کہے بنا ہی کر دوں گا‘ لیکن یہ سہولت اس کے جانے کے بعد نصیب ہوئی۔ اس لحاظ سے شاید اس کی قسمت ہی اچھی نہیں تھی۔ جمال احسانی کا شعر اس سارے المیے کی تفسیر ہے۔
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
آدھے دل کے ساتھ جینا کس قدر مشکل ہے اور آدھے دل کے ساتھ ساری دنیا سے نبھانا‘ لیکن کیا کریں؟ زندگی اسی کشمکش کا نام ہے۔
اکتوبر سے موسم سرد نہ سہی‘ بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اکتوبر یوں سمجھیں سردیوں کی آمد کا اعلان ہے۔ مجھے سردیوں سے اور جنگل سے بڑی محبت تھی۔ ادھر سردیاں آتیں اور مجھے جنگل کی ہڑک لگ جاتی۔ پہلے دوستوں کے ساتھ شکار میں دونوں شوق پورے ہوجاتے تھے پھریوں ہوا کہ آہستہ آہستہ شکار تو ہاتھ سے جاتا رہا لیکن سردیوں میں جنگل میں گھومنا ختم نہ ہوا۔ عیسن والا جنگل اور ڈانڈے والا ریسٹ ہاؤس‘ چیچہ وطنی کا جنگل‘ چھانگا مانگا کا جنگل حتیٰ کہ خانیوال کے پاس پیرووال کے جنگل کے ریسٹ ہاؤس میں ہر سال کئی دن اور کئی راتیں۔اس نے میرے ساتھ ان ویرانوں میں ساتھ دینا شروع کردیا۔ عشروں پہلے میں نے اسے کہا کہ بٹراسی کے جنگل کی بات ہی اور ہے‘ کہنے لگی :تو آپ کو کیا امرمانع ہے؟ میں نے کہا: کافی دور ہے‘ کہنے لگی: آپ کب سے فاصلے ماپنے لگ گئے ہیں۔ ا گلے روز ملتان سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ دوسرے دن وہاں سے ویگن پکڑ کر مانسہرہ اور وہاں سے سوزوکی کرائے پر لے کر بٹراسی چلے گئے۔ تین دن وہاں جنگل میں گزار دیئے۔ واپسی کیلئے ریسٹ ہاؤس سے پیدل سڑک تک آئے اور گڑھی حبیب اللہ سے آنے والی سوزوکی میں بیٹھ کر مانسہرہ اور وہاں سے ملتان آ گئے۔
ہسپتال میں تھی تو کہنے لگی :سردیاں آنے والی ہیں لیکن شاید میں نہیں ہوں گی‘ آپ ہمیشہ کہتے ہیں اگر ان گرمیوں میں بچ گیا تو اگلی گرمیوں تک تو ضرور زندہ رہوں گا‘ اسی طرح اگران سردیوں تک میں زندہ رہی توآپ کے ساتھ بٹراسی جاؤں گی‘ لیکن لگتا مشکل ہے۔ آپ کے ساتھ آئندہ سردیوں میں کون جنگلوں میں جایا کرے گا؟ میں نے کہا: تم جاؤ گی اور کون جائے گا۔ تھوڑی دیر کیلئے وہ خاموش ہو گئی ‘پھر کہنے لگی :پھر تو آپ جنگل میں جانے سے رہے۔ بعض وقت قبولیت کے ہوتے ہیں اور وہ وہی وقت تھا۔ سات سردیاں گزر گئی ہیں جنگل میں جانے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں مگر اب طبیعت میں وہ بے چینی ہی پیدا نہیں ہوتی۔ گزشتہ دنوں ہنزہ سے واپسی پر بالا کوٹ میں سید احمد شہید کی قبر پر اسد کے ساتھ فاتحہ پڑھی تو عشروں پہلے کی دوپہر یاد آ گئی۔ تب اسی جگہ کھڑے ہو کر ہم نے اس قبر پرفاتحہ پڑھی تھی اور پھر بٹراسی کے راستے واپس آئے تھے۔ اب بالا کوٹ سے مانسہرہ براستہ عطر شیشہ شارٹ کٹ بن گیا ہے‘ لیکن میں نے لمبا اور مشکل راستہ اختیار کرتے ہوئے پہلے گڑھی حبیب اللہ اور پھر وہاں سے بٹراسی کے جنگل میں سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ سات سال بعد یہ جنگل سے پہلا رابطہ تھا مگر رکنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ ہرگزرتے ہوئے سال دل کو تسلی ہوتی ہے کہ زندگی کا باقی سفر کٹنے میں ایک سال اور کم ہوا۔ وہ جہاں ہے مجھے یقین ہے کہ مزے میں ہے اور خوش ہے کہ میرا مالک کسی کی نیکیاں ضائع نہیں کرتا۔ اس عاجز کا کیا ہے‘ اپنے مالک کی رضا میں راضی‘ اور اس بات پر مطمئن کہ جانے والی بہت بہتر مقام پر ہے۔
ہم مطمئن بہت ہیں‘ اگر خوش نہیں بھی ہیں
تم خوش ہو‘ کیا ہوا جو ہمارے بغیر ہو