پاکستان سمیت ایشیا کے مختلف ممالک اور شمالی اور مغربی آسٹریلیا، بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ ہند میں سورج گرہن کا آغاز ہوگیا ہے اور اس کا دورانیہ چھ گھنٹے کے قریب ہوگا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں اس سورج گرہن کا آغاز پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق صبح سات بج کر 30 منٹ پر ہوا اور یہ دوپہر ایک بج کر چھ منٹ پر ختم ہوگا۔
مگر پاکستان میں سورج گرہن جزوی طور پر ہی دیکھا جا سکے گا اور تقریباً ڈھائی گھنٹے کے لیے نظر آئے گا۔
پاکستان کے سب سے جنوبی شہر کراچی میں اس کا آغاز صبح 7 بج کر 34 منٹ پر ہوا اور یہ 8 بج کر 46 منٹ پر اپنے عروج پر ہوگا، جبکہ 10 بج کر 10 منٹ پر ختم ہوجائے گا۔
جبکہ اسلام آباد میں اس کا آغاز 7 بج کر 50 منٹ پر ہوا اور 10 بج کر 15 منٹ پر یہ ختم ہوجائے گا، تاہم دارالحکومت اسلام آباد پنجاب کے مختلف شہروں میں ابھی تک دھند چھٹ نہیں سکی ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری تحریری بیان کے مطابق پاکستان کے مرکزی شہروں اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، گلگت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں بھی سورج گرہن درج ذیل اوقات میں دیکھا جا سکے گا۔
خیال رہے کہ سورج گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب چاند اپنے مدار میں چکر لگاتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے۔
سورج گرہن کے موقع پر لوگوں کو ہمیشہ احتیاط برتنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سورج کو براہِ راست نہ دیکھیں اور مخصوص چشمے کا استعمال کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے سورج گرہن کے وقت:
- سورج کو کوئی فلٹر استعمال کیے بغیر نہ دیکھیں
- گرہن دیکھنے کے لیے بنائے گئے ایسے چشمے کو استعمال نہ کریں جو تین سال پرانا ہو
- گھر پر بننے والے سولر فلٹر استعمال نہ کریں
- بغیر فلٹر کے کیمرے استعمال نہ کریں
- گرہن دیکھنے کے لیے دھوپ کی عینک کا استعمال ہرگز نہ کریں
ٹیلی سکوپ جس میں فلٹر لگا ہو وہ بھی استعمال نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ فلٹر میں اگر باریک سے باریک سوراخ بھی ہو تو اس سے بھی لمحوں کے اندر انسانی آنکھ کا ریٹینا ہمیشہ کے لیے تباہ ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے امراض پر کنٹرول کرنے سے متعلق سینٹر کے مطابق گرہن لگنے کے موقع پر سورج کو براہ راست نہیں دیکھنا چاہیے اس سے نظر پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے آنکھ کی دیکھنے کی صلاحیت مکمل طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ آنکھ میں موجود ریٹینا خراب ہوتا ہے اور کوئی بھی چیز دیکھنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔
اس سے قبل طویل ترین سورج گرہن سنہ 1994 اور پھر جنوری 2010 میں ہوا تھا۔
سوشل میڈیا پر گرہن کے چرچے
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر #solarsclipse2019 ٹاپ ٹرینڈ تھا اور صارفین نے اپنے اپنے علاقوں سے گرہن کی دلچسپ اور خوبصورت تصاویر شیئر کیں۔
ایک انڈین ڈاکٹر نے ٹوئٹر پر چند تصاویر شیئر کیں جن میں ’پِن ہول کیمرا‘ کے اصول کے مطابق گرہن کا محفوظ طریقے سے مشاہدہ کرنے کا سبق موجود تھا۔
پاکستان اور انڈیا سمیت برصغیر کے بیشتر علاقوں میں بادل اور دھند کے باعث سورج کا گہنا پوری طرح نہیں دیکھا جا سکا۔ اس پر بھی سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہوئی اور دُکھی صارفین نے اپنا غم غط کرنے کے لیے میمز کا سہارا لیا۔
کچھ لوگوں نے جدید کیمروں کی مدد سے گرہن کی ایسی تصاویر لیں کہ ہر دیکھنے والا عش عش کر اٹھا!
مختلف ممالک میں گرہن کے مناظر
بنگ کاک، تھائی لینڈ