ایف اے ٹی ایف: کیا پاکستان اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا؟
21 اکتوبر یعنی آج انسدادِ منی لانڈرنگ کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ تین روزہ یہ اجلاس 23 اکتوبر تک جاری رہے گا اور کورونا وبا کے باعث اس کا انعقاد ورچوئلی یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے ہو گا۔
پاکستان کے لیے اس اجلاس کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ اس نشست کے دوران پاکستان کی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے شعبوں میں ہونے والی اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے گا جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو گا کہ آیا پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں؟
گذشتہ چند روز کے دوران گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت کے بارے میں چند نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جنھوں نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔
بی بی سی نے اس حوالے سے ہونے والی پیشرفت اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اس شعبے کے چند ماہرین سے بات کی ہے۔
اے پی جی رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟
چند روز قبل، 11 اکتوبر کو منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی ایک رپورٹ (ایم ای آر) میں پاکستان کو ’اِنہانسڈ فالو اپ‘ فہرست میں ڈالا گیا ہے۔
اے پی جی کے مطابق ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنناسنگ کی روک تھام میں کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے۔
اے پی جی، ایف اے ٹی ایف سے منسلک ایک ادارہ ہے جو خطے میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسی طرز کے ذیلی ادارے یورپ، جنوبی امریکہ اور دیگر خطوں میں بھی ہیں۔
اے پی جی میں خطے کے مختلف ممالک شامل ہوتے ہیں جو ادارے کو وقتاً فوقتاً سفارشات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایف اے ٹی ایف کی فہرست میں شامل ممالک کی پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کرتے ہیں۔
21 سے 23 اکتوبر تک ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اے پی جی کی اسی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا اور پاکستان کے حکام کی طرف سے دہشتگردی میں ملوث گروہوں کے خلاف اب تک کی جانے والی کارروائی اور انھیں معاشی مدد فراہم کرنے والے اداروں اور افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا جائزہ لیا جائے گا۔
اے پی جی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات پوری کرنے میں مصروفِ عمل ہے اور ٹیرر فننانسنگ کی روک تھام کے لیے 15 معاملات پر قانون سازی بھی کر چکا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ادارہ پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات سے زیادہ مطمئن نہیں۔
اب تک پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات میں سے صرف 14 پر عمل کیا ہے۔ باقی رہ جانے والی 13 سفارشات کو پورا کرنے کے لیے رواں سال فروری میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
ان سفارشات پر عملدرآمد کی بنیاد پر ہی ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
انہانسڈ فالو اپ لسٹ کیا ہے؟
کسی ملک کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بعد اس ملک کی پیشرفت غیر تسلی بخش ہونے پر مانیٹرنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیرِ مملکت اور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ ہارون شریف نے کہا کہ ’اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ انہانسڈ فالو اپ لسٹ سے معمولی مانیٹرنگ پر آ جائے اور ریگولر مانیٹرنگ پر جانے کے بعد اگلا مرحلہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے کا ہو گا۔‘
پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان دہشتگردی میں ملوث گروہوں اور دہشتگردوں کی مالی اعانت کر رہا تھا۔
گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی کیں۔ اسی سلسلے میں اپریل 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ سے منسلک تنظیموں اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں۔ جولائی 2019 میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی۔
اس وقت دنیا کے اٹھارہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت دنیا کے دو ممالک ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔
گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا کیوں ضروری ہے؟
پاکستان سنہ 2000 کی دہائی سے دہشت گردوں کی معاشی معاونت اور پُشت پناہی کے الزامات کا عالمی سطح پر سامنا کرتا آ رہا ہے۔
اس بارے میں جہاں انڈیا کی تمام تر توجہ کا مرکز آنے والے دنوں میں ہونے والی ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ ہے، وہیں امریکہ بھی اس تمام تر صورتحال کو بغور دیکھ رہا ہے۔
اس بارے میں حال ہی میں ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان بہت جلد اس فہرست سے نکل جائے گا لیکن اس بارے میں انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کتنا جلدی ممکن ہو سکے گا۔
اس سے پہلے بھی پاکستان سنہ 2013 سے سنہ 2016 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ ’اس دوران پاکستان تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر اس لسٹ سے نکل گیا تھا۔ تو اسی پس منظر میں پاکستان کے لیے اس فہرست سے نکلنا ضروری ہے۔‘
وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اس فہرست سے نکلنا اتنی جلدی اس لیے ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ اس اجلاس میں پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا یا اگلے اجلاس میں نکل جائے گا، صحیح نہیں ہو گا۔ یہاں سے نکلنے کے لیے ٹارگٹ متعین ہوتے ہیں جن کو ملک پورا کرتے ہیں اور پھر دوسرے ٹارگٹ آ جاتے ہیں۔اس فہرست سے نکلنا ایک طویل معاملہ ہے۔‘
حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس فہرست سے نکلنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کوئی ملک قرضہ دے رہا ہے یا کاروبار کر رہا ہے تو وہ سود کی شرح زیادہ لگائے گا جس سے پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھ جائے گا۔ اس وقت اس فہرست سے نکلنا ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔‘
اسی سلسلے میں رواں سال فروری اور اس سے قبل اکتوبر 2019 میں ایف اے ٹی ایف کا پیرس میں ہونے والا اجلاس خاصا اہم تھا لیکن ان دونوں اجلاسوں میں پاکستان گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا تھا۔
حکومتی ترجمان کے مطابق اس وقت پاکستان کو اس فہرست سے نکلنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے 39 ارکان میں سے کم از کم 12 رکن ممالک کی حمایت چاہیے ہو گی۔
ایف اے ٹی ایف اور سیاسی لابی
انڈیا کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان مزید تنزلی کا شکار ہونے کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے کیونکہ انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی روک تھام اور اس کی مالی اعانت کو روکنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔
لیکن دوسری جانب پاکستان کے اتحادی مانتے ہیں کہ محدود وسائل ہونے کے باوجود پاکستان دہشتگردی کو روکنے کی تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔
انڈین میڈیا کی جانب سے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونک رہا ہے اور درحقیقت ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
دوسری جانب گذشتہ ماہ چین نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اکتوبر کا جائزہ پاکستان کے حق میں جائے گا۔‘
واضح رہے کہ چین پاکستان میں معاشی راہداری کی قیام کی غرض سے 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ ماضی میں بھی پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہے۔
ہارون شریف کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’بظاہر تو ایف اے ٹی ایف کی فہرست اور اس میں شمولیت ایک تکنیکی مرحلہ ہے لیکن اس وقت یہ بھی خطے کی سیاست کا شکار ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے دو سال سے اس معاملے پر امریکہ نے بیشتر اجلاس کیے اور ان تمام معاملات کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔‘
انھوں نے بتایا ’میں خود امریکی افسران کے ساتھ ایسے ڈائیلاگ کا حصہ رہا ہوں جس میں انھوں نے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی مذاکرات کو ایف اے ٹی ایف کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ میں ذاتی طور پر اس سے اس لیے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ ان اداروں کا فوکس ترقی پذیر ممالک کی ترقی و منصوبہ بندی تک محدود رہنا چاہیے۔‘
دوسری جانب حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو ’دشمن ممالک‘ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان کی حزب اختلاف بھی اس معاملے کو ہوا دے رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنناسنگ کے بل کو پارلیمنٹ میں لے کر گئی اور 15 قوانین کی ترمیم کی گئی تاہم اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت ’جابرانہ قوانین لانا چاہ رہی ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی ہونے کا خطرہ ہے۔‘
ہارون شریف نے کہا کا ان اصلاحات پر عمل کرنا پاکستان کے فائدے میں ہو گا۔
پاکستان کے پاس اب کیا راستہ ہے؟
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان کی حکومت اور حزبِ اختلاف کو اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہو گا اور دوسرا یہ کہ ’تکنیکی معاملات‘ میں کمزوری سے نمٹنے کے لیے ماہرین کی مدد لی جائے۔
’پاکستان کو چاہیے کہ وہ ٹیرر فننانسگ اور منی لانڈرنگ پر خطے میں ڈائیلاگ شروع کرے تاکہ یہ معاملہ نتائج ڈھونڈنے کے نظریے سے دیکھا جائے نہ کہ ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کرنے کے نظریے سے۔‘
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی 21 اکتوبر سے شروع ہونے والی میٹنگ میں پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹانے یا مزید رکھنے میں اے پی جی کی حالیہ رپورٹ کس حد تک اثر انداز ہو گی۔