حالیہ انتخابی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن رواں سال کی صدارتی دوڑ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت آگے ہیں۔ وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ سخت ٹکر والی ریاستوں میں بھی سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کو ریکارڈ توڑ انتخابی فنڈز جمع کرنے کی وجہ سے ایک بڑا مالی فائدہ بھی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ آخری مرحلے میں اپنے انتخابی پیغامات کے ساتھ میڈیا پر چھائے رہیں گے۔
انتخابی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید ٹرمپ یہ انتخابات ہار جائیں گے۔
نیٹ سلور کے فائیو تھرٹی ایٹ ڈاٹ کام کے بلاگ کے مطابق بائیڈن کے جیتنے کے امکانات 87 فیصد ہیں جبکہ ڈسیزن ڈیسک ہیڈ کوارٹر کا خیال ہے کہ بائیڈن کے جیتنے کے امکانات 83 فیصد سے زیادہ ہیں۔
اگرچہ پچھلے صدارتی انتخاب میں ہلیری کلنٹن کی جیت کے بارے میں بھی ایسی ہی پیش گوئیاں کی گئیں لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔
ایسی صورتحال میں کیا ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر انتخابی جائزوں کو غلط ثابت کریں گے؟ کیا تاریخ خود کو دہرائے گی؟
پانچ وجوہات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر کے عہدے کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔
گذشتہ الیکشن میں تنازع
سنہ 2016 میں صدارتی انتخاب سے 11 دن پہلے اس وقت کے ایف بی آئی کے سربراہ جیمس کامی نے ہلیری کلنٹن کے خلاف دوبارہ تحقیقات شروع کرنے کی بات کی تھی۔ یہ معاملہ ہلیری کلنٹن کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے نجی ای میل سرور کے استعمال کا تھا۔
اس کے بعد یہ معاملہ تقریباً ایک ہفتہ سرخیوں میں رہا،جس کے بعد جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نئی جان آ گئی تھی۔
سنہ 2020 میں بھی انتخاب سے تقریبا دو ہفتے پہلے اسی سطح کا کوئی بھی سیاسی واقعہ ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح کی جانب لے جا سکتا ہے۔ لیکن اب تک تو یہ مہینہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بری خبریں ہی لایا ہے۔ جیسے ان کے ٹیکس گوشوارے ظاہر ہونا اور کووڈ 19 کے سبب ان کا ہسپتال میں داخل ہونا۔
نیویارک پوسٹ نے ایک مضمون میں ایک پراسرار لیپ ٹاپ اور ایک ای میل کا ذکر کیا ہے جو بائیڈن کو اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی یوکرین میں گیس کمپنی کے لیے لابی کرنے کی کوششوں سے جوڑ سکتا ہے۔
ریپبلیکنز نے اس کو ایک بڑا مسئلہ بنانے کی کوشش کی لیکن اس الزام کے مشکوک ہونے اور وضاحت کے فقدان کی وجہ سے رائے دہندگان پر اس کا بہت کم اثر پڑنے کا امکان ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اور بھی بہت سے انکشافات کیے جائیں گے۔ اگر یہ صرف شروعات ہے تو پھر نائب صدر رہتے ہوئے بائیڈن پر غلط کام کرنے کے الزامات لگانا اور اس بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کرنا ایک بڑی بات ہو سکتی ہے۔
سروے غلط ہوسکتے ہیں
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے جو بائیڈن کو صدارتی امیدوار منتخب کیے جانے کے بعد سے انتخابی جائزے انھیں ٹرمپ سے آگے دکھا رہے ہیں۔
یہاں تک کہ سخت مقابلے والی ریاستوں میں بھی بائیڈن ہی آگے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن سنہ 2016 کے انتخاب کو دیکھیں تو قومی سطح کی سبقت بے معنی ہو گئی تھی اور ریاستی سطح کے سروے بھی غلط ثابت ہوئے تھے۔
صدارتی انتخاب میں ووٹر کون ہو گا اس کا اندازہ لگانا ایک چیلنج ہے اور پچھلی بار کچھ انتخابی سروے یہی اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ان سفید فام امریکیوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا جو ڈگری یافتہ نہیں ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔
تاہم اس مرتبہ اخبار نیو یارک ٹائمز نے اندازہ لگایا ہے کہ بائیڈن کا موجودہ مارجِن انھیں سنہ 2016 جیسی صورتحال سے بچائے گا۔ تاہم سنہ 2020 میں سروے کرنے والوں کے سامنے کچھ نئی رکاوٹیں ہیں۔
مثال کے طور پر بہت سے امریکی پہلی بار میل کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن ریپبلکن پارٹی کے رہنما پہلے سے ہی میل پر ہونے والی ووٹنگ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس میں انھوں نے دھوکہ دہی کا خدشہ ظاہر کیا ہے تاہم ڈیموکریٹس نے اسے ووٹرز کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
اگر رائے دہندگان اپنے فارم کو غلط طریقے سے پُر کرتے ہیں یا مکمل طور پر اس پر عمل نہیں کرتے ہیں یا میل کی ڈلیوری میں تاخیر یا مداخلت ہوتی ہے تو جائز ووٹوں کو بھی خارج کیا جا سکتا ہے۔
وہیں پولنگ بوتھ یا عملہ کم ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کرانا مشکل ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ جنھیں انتخابی سروے میں ممکنہ ووٹر سمجھا جارہا تھا وہ ووٹ ڈالنے میں دلچسپی کا مظاہرہ ہی نہ کریں۔
بحث کے بعد بننے والی شبیہہ
ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان تقریبا دو ہفتے قبل ہونے والی بحث کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے حالات اچھے نہیں رہے ہیں۔
انتخابی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا جارحانہ اور دخل اندازی کرنے والا طریقہ مضافاتی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو پسند نہیں آیا تھا اور ان علاقوں کی خواتین کے ووٹ کو اہم سمجھا جاتا ہے۔
اس دوران بائیڈن نے اپنی بڑھتی عمر کے بارے میں خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بحث کے بعد بننے والی اپنی شبیہہ کو تبدیل کرنے کا موقع گنوا دیا۔ انھوں نے دوسری بحث سے انکار کر دیا کیونکہ یہ بحث آمنے سامنے نہیں بلکہ ورچوئل ہو رہی تھی۔ اب ان کے پاس جمعرات کو ایک اور موقع ہے۔
اگر اس بار ڈونلڈ ٹرمپ پرسکون نظر آتے ہیں اور صدر کی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور بائیڈن کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ٹرمپ کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔
اہم ریاستوں میں صورتِحال
اگرچہ انتخابی سروے بائیڈن کو آگے دکھا رہے ہیں لیکن بہت ساری ریاستیں ایسی ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں الیکٹورل کالج ان کے حق میں کام کر سکتا ہے۔
پچھلی بار ڈونلڈ ٹرمپ مقبول ووٹوں سے پیچھے ہو گئے تھے لیکن الیکٹورل کالج میں انھوں نے جیت حاصل کر لی تھی۔
دراصل جب امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو وہ در حقیقت عہدیداروں کے ایک گروپ کو ووٹ دیتے ہیں جو انتخابی کالج کا حصہ ہوتے ہیں۔
یہ لوگ الیکٹرز ہوتے ہیں اور ان کا کام صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرنا ہے۔ ہر ریاست سے الیکٹرز کی تعداد اس ریاست کی آبادی کے تناسب کے مطابق ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو مشیگن اور وسکونسن جیسی ریاستوں میں کامیابی ملی تھی۔ اس بار یہ ریاستیں ان کی پہنچ سے باہر نظر آ رہی ہیں۔
اگر ٹرمپ باقی جگہوں پر سبقت حاصل کر لیتے ہیں اور پنسلوانیا اور فلوریڈا جیسے مقامات پر کم پڑھے لکھے سفید فام ان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو ٹرمپ اس بار بھی جیت سکتے ہیں۔
ایسے امکانات بھی ہیں جن میں ٹرمپ اور بائیڈن دونوں انتخابی کالج کے 269 ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
مساوی ووٹ ملنے کی صورت میں ایوان نمائندگان میں ریاستوں کا وفد فیصلہ کرے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس صورتحال میں اکثریت ٹرمپ کے حق میں جا سکتی ہے۔
جو بائیڈن کی پھسلتی زبان
جو بائیڈن اب تک نظم و ضبط کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اب چاہے یہ انتخابی مہم اسی طرح سے تیار کی گئی تھی یا کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے ایسی رہی ہے۔
بائیڈن عام طور پر اپنے غیر منطقی تبصرے کے لیے مشہور ہیں لیکن اس بار وہ ایسے کسی بھی تنازعے سے دور نظر آئے ہیں۔
لیکن اب بائیڈن کی انتخابی مہم تیز تر ہونے والی ہے۔ ایسی صورتحال میں غلط بیانی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جس کا خمیازہ انھیں انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
بائڈن کو پسند کرنے والوں میں مضافاتی لبرلز، ناراض ری پبلیکن، ڈیموکریٹ ورکنگ کلاس اور نسلی اقلیتیں شامل ہیں۔
یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں مفادات کا تصادم بھی ہے۔ ایسی صورتحال میں بائیڈن کی ایک غلطی انھیں ناراض کر سکتی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی موجود ہے کہ انتخابی مہم کی تھکاوٹ جو بائیڈن پر حاوی ہو نے سے ان کی عمر کے تعلق سے تشویش پیدا ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے فتح کی راہ کھل سکتی ہے۔