پاکستان کے صوبہ سندھ کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے مبینہ واقعے کے بعد احتجاجاً چھٹی پر جانے کا اپنا اقدام مؤخر کر دیا ہے اور دیگر پولیس افسران سے بھی کہا ہے کہ وہ بھی اپنی چھٹی کی درخواستیں دس دن کے لیے ملتوی کر دیں۔
پولیس کے افسران نے مسلم لیگ نواز کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج اور ان کی گرفتاری سے قبل آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے پر احتجاجاً چھٹی پر جانے کی درخواستیں دی ہیں۔
تاہم ابھی تک آئی جی پولیس مشاق مہر کی جانب سے براہ راست اس مبینہ واقعے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
سندھ پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آئی جی سندھ نے اپنی چھٹی کی درخواست کو ملتوی کرتے ہوئے اپنے افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ اس واقعے کی انکوائری مکمل ہونے تک اور ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اپنی اپنی چھٹی کی درخواستیں بھی دس دن کے لیے ملتوی کر دیں۔‘
سندھ پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر یہ بیانات بلاول بھٹو زرداری کی انسپیکٹر جنرل آف پولیس سے ملاقات کی خبروں کے بعد سامنے آئے ہیں۔
سندھ پولیس کی ٹویٹ سے ہی یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئی جی نے خود بھی احتجاجاً چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا تھا جسے فی الحال انھوں نے مؤخر کر دیا ہے۔
سندھ پولیس کے 36 افسران و اہلکاروں کی جانب سے اب تک چھٹی پر جانے کی درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں جن میں سے 20 افسران کا تعلق کراچی جبکہ 16 کا صوبے کے دیگر شہروں سے ہے۔
اس ضمن میں میڈیا پر سامنے آنے والی سب سے پہلی درخواست سپیشل برانچ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس عمران یعقوب منہاس کی جانب سے تھی جو انھوں نے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کے دفتر ارسال کی تھی۔
اس کے بعد انسکپٹر جنرل پولیس دفتر کے ذرائع کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں فرائض ادا کرنے والے گریڈ اٹھارہ کے بیشتر پی ایس پی افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں ارسال کر کے اپنے دفاتر چھوڑ دیے ہیں۔
صوبہ سندھ کے دیگر اضلاع میں تعینات پی ایس پی افسران کی جانب سے بھی چھٹی کی درخواستیں آئی جی پی سندھ کے دفتر کو ارسال کی گئی ہیں۔
پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج اور ان کی گرفتاری سے پہلے آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے کا نوٹس لیں اور اس معاملے کی انکوائری کروائیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کراچی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کور کمانڈر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے سے منسلک حقائق کا تعین کریں اور جلد از جلد اپنی رپورٹ پیش کریں۔
سندھ پولیس نے اپنے بیان میں آرمی چیف، بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آئی جی پولیس سے متعلق مبینہ واقعہ
یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن صفدر کو پیر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیر کو ہی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں ‘سیکٹر کمانڈر’ کے دفتر لے جایا گیا جہاں اُن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے تھے۔
سندھ پولیس میں احتجاجاً چھٹیاں
آئی جی پی سندھ کراچی دفتر سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کراچی اور حیدر آباد کے تمام ڈویژنل، سٹی اور اضلاع کے پولیس افسران کے علاوہ مختلف شعبوں اور دفاتر کے سربراہ پولیس افسران نے بھی چھٹیوں کی درخواستیں ارسال کی ہیں۔
صحافی محمد زبیر کے مطابق آئی جی پی سندھ کراچی دفتر کے مطابق سندھ پولیس کے دس ڈی آئی جی اور 20 ایس ایس پی کی درخواستیں شام چار بجے تک دفتر میں موصول ہوئی ہیں جن پر باقاعدہ ڈائری نمبر لکھا گیا ہے جبکہ اس کے بعد بھی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔
کراچی پولیس ذرائع کے مطابق اس وقت پولیس تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی جانب سے بھی چھٹیوں کی درخواستیں ایس ایس پی دفاتر ارسال کی جا رہی ہیں۔
سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل عمران یعقوب منہاس نے سندھ حکومت سے دو ماہ کی رخصت طلب کرتے ہوئے اپنی درخواست میں وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے معاملے پر ‘پولیس کی اعلیٰ کمان کی جس طرح توہین ہوئی اس سے انھیں صدمہ ہوا ہے’۔
اپنی درخواست میں انھوں نے لکھا کہ اس تناؤ والی صورتحال میں ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دیں سکیں اور ‘اس صدمے سے نکلنے کے لیے ان کی دو ماہ کی چھٹی کی درخواست قبول کی جائے’۔
دیگر افسران کی جانب سے دی گئی درخواستوں میں بھی چھٹی کی یہی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
چھٹی کی درخواست دینے والے کراچی ضلع کے ایک ایس ایس پی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے سندھ پولیس کے سربراہ کو مبینہ طور پر زبردستی اغوا کر کے اور ان کا گھیراؤ کر کے مقدمہ درج کروایا گیا ہے وہ لاقانونیت کی انتہا ہے۔ اس واقعے کے بعد ہی پولیس میں بے چینی پھیلنا شروع ہو چکی تھی مگر ہمیں کہا گیا کہ اس پر ایکشن ہوگا اور پولیس فورس مطمئن ہو گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال پر پی ایس پی افسران نے آئی جی پی سے بات کی تو کہا گیا کہ اس پر ایکشن ہوگا۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ ہاؤس سے بتایا گیا کہ مناسب کارروائی ہوگی۔ مگر جب آئی جی پی سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے کمزور موقف سامنے آیا تو ہر ایک نے محسوس کیا کہ اب بات بہت بڑھ چکی ہے۔ ان حالات میں فرائض ادا نہیں ہو سکتے۔‘
صحافی محمد زبیر کے مطابق ایک اور پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’آئی جی پی سندھ خود ایک فورس کے سربراہ ہیں، ان کو بھی اختیارات حاصل ہیں مگر جب وہ خود کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بات نہیں کر سکتے اور ایکشن نہیں لے سکتے تو پھر کس طرح سندھ پولیس فورس کے افسران اور اہلکاروں کی عزت نفس کا تحفظ کر پائیں گے۔‘
پولیس افسر کے مطابق ’پولیس کے معاملات میں مداخلت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ضمن میں ہماری اسلام آباد میں موجود اعلیٰ ترین حکام سے بات ہوئی ہے اور ان سے اس واقعہ کا مقدمہ درج کرنے اور اس میں ملوث لوگوں کو گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی ہے۔‘
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی پولیس فورس کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
’سندھ پولیس اور بالخصوص کراچی پولیس نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں‘
سابق آئی جی پنجاب اور پی ایس پی پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح بات کی ہے اس پر سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اسی طرح ایکشن لینا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بلاول نے بتا دیا ہے کہ آئی جی پی سندھ کی رہائش گاہ کا گھیراؤ ہوا تھا اور ان کو اغوا کیا گیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں ’کمال ہے کہ آئی جی پی سندھ میں پولیس فورس کا جنرل ہے۔ پولیس فورس کے جنرل کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھ کر آپ کیا توقع کر رہے ہیں کہ پولیس فورس کام کرے گی۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ فطری ردعمل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سندھ پولیس اور بالخصوص کراچی پولیس نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔ اپنے ساتھیوں اور بھائیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ انتہائی نامناسب صورتحال میں بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
ذوالفقار چیمہ کا کہنا تھا کہ ’اس کا حل کوئی مشکل نہیں ہے اگر سب اس کا حل نکالیں تو چند گھنٹوں میں نکل سکتا ہے جو اس واقعے کے قصوروار ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ پولیس افسران واپس اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کی پولیس فورس کو ڈی مورالائز کیا ہے۔ سندھ اور کراچی کیا اب تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ پورے ملک میں پولیس افسران، اہلکار اور جوان کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس واقعے کے نتائج پولیس فورس پر بہت ہی برے مرتب ہوں گے۔ اگر چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ ادھر ہی رک جائے تو جتنی جلدی ممکن ہے انصاف کے تقاضے پورے کریں اور پولیس فورس کو حوصلہ دیں۔‘
ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹر جنرل پولیس پاکستان کے چیئرمین افتخار رشید کا کہنا تھا کہ کراچی میں پیش آنے والا واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سندھ اور کراچی کی پولیس فورس مکمل طور پر ڈی مورالائز ہو چکی ہے۔ ایسے ہی اثرات پاکستان بھر کی پولیس پر پڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پورے ملک کی پولیس فورس خدشات کا شکار ہے۔ اس موقع پر ضروری اقدامات اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں تاخیر کا وقت نہیں ہے۔ جتنا جلدی ممکن ہو سکتا ہے اسلام آباد سمیت سب کو حرکت میں آنا چاہیے‘۔