میں اپنے عہدِ شباب میں ملکوں ملکوں کے علاوہ پاکستان کے شہروں شہروں میں گھوما پھرا کرتا تھا، بائی دی وے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ ’’جوان‘‘ تو ابھی بھی ہوں مگر وہ محفلیں نہیں رہیں، وہ دوست نہیں رہے اور وہ بزرگ بھی اب ہمارے درمیان موجود نہیں، جن سے گپ شپ رہتی تھی۔ جب کبھی کراچی جانا ہوتا تو وہاں مشفق خواجہ، نفیس اطہر، سلیم احمد، جون ایلیا، تابش دہلوی، شبنم رومانی، محمد علی صدیقی اور دوسرے سینئر، ہم عمر اور اپنے سے کم عمر دوستوں کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع مل جاتا تھا۔ یوسفی صاحب جب لندن سے کراچی آگئے تو پھر اُن کے آستانے پر حاضری تو ضروری ہو جاتی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی سے ایک آدھ ملاقات سے زیادہ نہیں ہوئی۔ اسلام آباد میں اُن سے کچھ ملاقاتیں ضرور ہوئیں تاہم ڈاکٹر صاحب بہت سنجیدہ مزاج انسان تھے اور میں زندگی میں کبھی سنجیدہ نہیں رہا۔ میں اُن کی طرح کالم نگار تو نہیں تھا، بس مزاح نگاری کرتا تھا، ایک دن میں نے انہیں اپنے ’’میدان‘‘ میں لانے کے لئے ایک لطیفہ سنانے کی کوشش کی جس پر وہ اتنا ہی ہنس سکے جتنا مجھے اُن کے جوابی لطیفے پر ہنسنا پڑا تھا۔
اب گزشتہ دنوں برادرم عبدالباسط خان کی وساطت سے اُن کی علم و ادب کے حوالے سے بےپناہ خدمات پر مختلف اہلِ علم کی تحریروں پر مشتمل کتاب ’’ارمغانِ جمیل‘‘ کے نام سے موصول ہوئی، جس کے مرتب میرے فاضل دوست زاہد منیر عامر تھے، تو اُسے پڑھتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی کے علم و فضل کے وہ گوشے بھی سامنے آئے جو مجھ کم علم کی نگاہوں سے اوجھل تھے، ویسے ڈاکٹر جمیل جالبی پر کتاب مرتب کرنے کا حق بھی زاہد منیر عامر ہی کو تھا کہ سنجیدگی میں اُن کا بھی کوئی جواب نہیں۔ اُن کی موجودگی میں میرے ذہن میں کوئی جملہ کلبلائے تو میں جملے کے پاسِ ادب کی وجہ سے اُسے وہیں روک لیتا ہوں۔ تفنن برطرف، زاہد منیر نے یہ کام بہت محبت، بہت محنت اور بہت عقیدت سے کیا ہے چنانچہ میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب پر اب تک لکھی گئی کتب میں یہ کتاب ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے جس کام نے بہت شہرت پائی وہ لغت پر ہے، جو کئی جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا جریدہ جس کا نام ذہن میں نہیں آرہا، یاد آ گیا، ’’نیا دور‘‘ ادبی جریدوں میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ تحقیق، تنقید اور تراجم کے بھی وہ شہسوار تھے۔ وہ مدوّن بھی تھے اور تدوین کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اُن کے شخصی مطالعے میری نظر سے نہیں گزرے مگر اُن کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔ اور ہاں ڈاکٹر جمیل جالبی نے قومی کلچر کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا۔ اور اللہ جانے وہ سوتے کب تھے اور اگر سوتے بھی تھے، تو اِس دوران پتا نہیں کتنے قیمتی مضامین بحالتِ خواب لکھ ڈالتے ہوں گے۔
اور اگر میں اِس موقع پر زاہد منیر عامر کی اِس کاوش کی داد نہ دوں کہ اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے یہ کتاب مرتب کر کے ادب کے قارئین پر احسان کیا ہے تو یہ احسان فراموشی ہوگی۔ ’’ارمغانِ جمیل‘‘ میں اُنہوں نے توقیر عباس، محمد نعمان، محمد دین، مدثر علی، ضیا ظفر، طیب طاہر، خاور شہزاد، عرفان حیدر، نیلم امتیاز، مہوش صبا، عامر سہیل اور علی اکبر کے مضامین یکجا کئے ہیں، جو ڈاکٹر صاحب کی مختلف اور متنوع ادبی جہات کا احاطہ کرتے ہیں۔ بظاہر یہ کام آسان ہوتا ہے کہ چند مضامین اٹھا کر اُنہیں یکجا کر دیا جائے لیکن جو اِس ’’مرحلۂ جاں گسل‘‘ سے گزرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اُس کے لئے ہزاروں صفحات کھنگالنا پڑتے ہیں اور پھر اُس سمندر میں غوطہ خوری کرکے سیپیاں اور ہیرے الگ الگ کرنا ہوتے ہیں۔ میں نے اوپر جن لکھاریوں کے نام دیے ہیں، ممکن ہے، ادب کے کچھ قارئین کے لئے اُن میں سے کچھ نام نئے ہوں کیونکہ ہمارے اِن علمی کاموں کے قدردان کم ہیں، بالکل اُسی طرح جس طرح سر سے پائوں تک تنقید، تحقیق میں گم ہو جانے والے بہت سے اعلیٰ شاعروں اور ادیبوں کے کام سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے، ہر ایک کا اپنا اپنا شعبہ ہے، اور یہ تخصیص کوئی بری بات نہیں، البتہ مختلف پکوان کے ذائقوں سے بھی اگر کوئی آشنا ہے تو یہ اس کی ایک اضافی خوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی غالباً انکم ٹیکس کے ’’ٹاپ آفیسر‘‘ تھے، ’’ٹاپ آفیسر‘‘ کی ملاوٹ پر اُن سب اصحاب سے معذرت جو اردو میں اس نوع کی ملاوٹ کے خلاف ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں پنجابی کے الفاظ بھی استعمال کر جاتا ہوں جس پر میرے ایک قاری نے میری گوشمالی کرتے ہوئے کہا تھا آپ اردو کا بیڑا غرق کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں، جس کے جواب میں مَیں نے لکھا تھا کہ برادر اب پاکستان میں اردوئے معلیٰ نہیں ’’اردوئے محلہ‘‘ چلے گی۔ بہرحال میں ڈاکٹر جمیل جالبی کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ساری عمر ادب کی خدمت میں گزار دی، وہ چاہتے تو ان لوگوں کی طرح جو ان دنوں بے وقت کی راگنی سمجھتے ہیں، کسی ایسی ’’راگنی‘‘ میں بھی اپنی زندگی انویسٹ کر سکتے تھے جس میں حاصل تو بہت کچھ ہوتا ہے مگر اس کی ’’مدتِ میعاد‘‘ ان کی زندگی کی ’’مدتِ میعاد‘‘ تک ہی ہوتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے تو رہتی دنیا تک کے لئے اپنی متاع کا انتخاب کیا۔ اور زاہد منیر عامر، تمہیں بھی میری طرف سے حرفِ سپاس کہ تم نے بھی تو اس کتاب پر اپنا وقت صرف کرنے کے بجائے کسی ایسے کام کا انتخاب نہیں کیا جس میں تھوڑی سی محنت کر کے انتخاب کے بجائے آنے والے انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا تھا اور کم از کم وزیر باتدبیر فیاض چوہان تو بنا ہی جا سکتا تھا۔