ٹرمپ، پوتن: ایک کی مخالفت، دوسرے کی خوشامد پر صحافیوں کی نوکریاں ختم
امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور روس میں صدر ولادی میر پوتن کی خوشامد کرنے کی پاداش میں دو صحافیوں کو اپنی جاب سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
امریکہ میں دی کرسچیئن پوسٹ میگزین کے صحافی نیپ نازورتھ نے جریدے کرسچینٹی ٹوڈے میں صدر ٹرمپ کے بارے میں اداریہ چھاپنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس میگزین سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے جس میں وہ گذشتہ دس برسوں سے بطور پولیٹکل ایڈیٹر کام کر رہے تھے۔
صدر ٹرمپ کو ہمیشہ قدامت پسند عیسائیوں کی بہت حمایت حاصل رہی ہے۔
مسئلہ کیسے شروع ہوا؟
امریکی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے امریکی صدر کے مواخذے کے بعد کرسچینٹی ٹوڈے نے اپنے ایک اداریے میں صدر ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے کی حمایت کی۔
اداریے میں لکھا گیا کہ ’بدکردار‘ صدر کو ہٹانا مسیحیت کے لیے ضروری ہے۔ اداریے میں لکھا گیا: ’صدر ٹرمپ کو ہٹانے کا معاملہ جانبدارانہ سیاست کا معاملہ نہیں بلکہ 10 کمانڈمنٹس کے خالق کے ساتھ وفاداری کا معاملہ ہے۔‘
اداریے میں لکھا گیا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے ایک غیر ملکی رہنما کو ہراساں کرنے کوشش کی ہے۔ ’یہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انتہائی غیر اخلاقی قدم ہے۔‘
20ویں صدی کے سب سے مشہور عیسائی مبلغ بلی گراہم نے کرسیچنٹی ٹوڈے کی بنیاد رکھی تھی۔
کرسیچنٹی ٹوڈے نے ایوینجلیکل مسیحیوں کی صدر ٹرمپ کے لیے حمایت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
پچھلے صدارتی انتخابات میں اسی فیصد ایوینجلیکل عیسائیوں نے صدر ٹرمپ کے لیے ووٹ ڈالے تھے۔ ایونجلیکل عیسائیوں کی بڑی تعداد ہمیشہ ریپبلکن امیدواروں کی حمایت کرتی ہے۔ اس کی واضح مثال جارج ڈبلیو بش ، صدراتی امیدوار جان مکین اور مٹی رومنی کی حمایت ہے۔
کرسچینٹی ٹوڈے کے اداریےکے بعد میگزین کے دو ہزار صارفین نے اس کو خریدنا بند کر دیا لیکن پانچ ہزار نئے صارفین اس کو اپنا لیا۔
صدر پوتن سے سوال مہنگا پڑا
ادھر روس میں ایک صحافی کو بظاہر صدر پوتن سے ایک سوال کرنے کی وجہ سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ صدر پوتن سے کیا جانے والا سوال سخت نہیں تھا بلکہ اس میں وفاقی حکومت کی توجہ ایک مقامی پراجیکٹ کی جانب دلائی گئی جو تاخیر کا شکار ہے۔
الیسا یاروفسکایا یمل کےعلاقے کے ریاستی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کرتی تھیں اور انھوں نے صدر پوتن کی 19 دسمبر کو تین گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے والی پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کیا۔
اپنے سوال میں انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ان کے علاقے شمالی سائبیریا کے لیےفائدہ مند ثابت ہو رہی ہے جس سے وہ علاقے بھی کھل رہا ہے جو پہلے منجمند تھا۔ انھوں نے اپنے سوال میں کہا کہ ان کے علاقے میں دریائے اوب پر ایک پل کی تعمیرمیں تاخیر ہو رہی ہے۔
الیسا یاروفسکایا نے اپنے سوال میں کہا کہ ان کے علاقے کے گورنر دیمتری آرتکیووف تو اس منصوبے کو پایا تکمیل تک پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے لیکن وفاقی سطح پر اس منصوبے کے بارے کچھ نہیں کیا جا رہا۔
صدر پوتن نے اپنے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی مخصوص پراجیکٹ کی حمایت کرے لیکن دریائے اوب پر جس پل کا وہ ذکر کر رہی ہیں وہ بہت اہم ہے اور حکومت اس کی جانب توجہ دے گی۔
صدر پوتن بے بظاہر تو صحافی سے کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا لیکن جب الیسا یاروفسکایا نے ادارے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تو ایسی چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ علاقائی حکومت ان کے سوال سے ناراض تھی اور انھوں نے اس بنیاد پر صحافی کو اپنی نوکری سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا کہ ان کے سوال میں ’خوشامد‘ کی بو آ رہی تھی اور ان کا ادارہ ‘چاپلوسی’ کا حامی نہیں ہے۔
الیسا یاروفسکایا نے کئی روسی اداروں کو بتایا کہ انھیں نوکری سے برخاست نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود استعفی دیا ہے۔
تاہم انھوں نے اپنی نوکری کے خاتمے کی وجوہات کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔ البتہ ایک اور رپوٹ میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ الیسا یاروفسکایا کی ملازمت ختم ہونے کی وجہ ان کا فیس بک پر صدر پوتن کی تازہ تصویر کے نیچے وہ کیپشن ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ ’مجھے تو صدر پوتن کے چہرے پر تو کوئی بوٹاکس اور فلر نظر نہیں آ رہے اور وہ اپنی عمر کے ہی لگ رہے ہیں۔‘ اس تبصرے کی تصدیق نہیں ہو سکتی کیونکہ اب اسے ڈیلیٹ کیا جا چکا ہے۔
صدر پوتن کے ترجمان نے کہا کہ انھیں صحافی کی نوکری کے خاتمے سے متعلق کوئی علم نہیں ہے اور یہ کام چینل کے ایڈیٹر کا ہی ہے۔