کیا شہبازشریف نے بھی وہ حکایت پڑھ رکھی تھی؟ ایک سلیم الطبع بادشاہ نے اپنے مشیر سے کہا: کوئی ایسا طریقہ بتائو، کوئی ایسی بات کہ بدترین حالات میں بھی بندہ مایوس نہ ہو، اور امید کا دامن تھامے رکھے۔ مشیر کا جواب تھا: عالی جاہ! یہ خیال کہ ”یہ دن بھی گزرجائیں گے‘‘۔ بادشاہ کا اگلا سوال تھا: اور کوئی ایسا طریقہ کہ بے پایاں مسرت کے عالم میں انسان اعتدال کا دامن تھامے رکھے اور غروروتکبر کا شکار نہ ہو؟ دانش مند مشیر نے کہا: عالی جاہ! وہی خیال کہ ”یہ دن بھی گزر جائیں گے‘‘۔
منگل کی دوپہر احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر، شہبازصاحب کو موبائل پر میاں نوازشریف سے رابطے کا موقع مل گیا۔ اس سے ایک روز قبل علی الصبح کراچی میں ہوٹل کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا واقعہ ہوچکا تھا، تب مریم بھی کمرے میں موجود تھیں؛ چنانچہ اسے چادر اور چاردیواری کی پامالی بھی گردانا گیا۔ کہا جاتا ہے، نوازشریف کشتیاں جلا چکے، اپنی چہیتی صاحبزادی کے حوالے سے بھی، وہ کسی بھی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ گزشتہ سال 8اگست کو مریم کی گرفتاری اس عالم میں عمل میں آئی تھی کہ وہ کوٹ لکھپت جیل میں والد سے ملاقات کررہی تھیں۔
گزشتہ دنوں مریم نواز کا کہنا تھا: والد صاحب کاحکم ہے کہ میں گرفتاری کے لیے اپنا بیگ تیار رکھوں ”گھبرانا نہیں، مردوں کی طرح گرفتاری دینا‘‘۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی سہ پہر بھی مریم کا کہنا تھا: ہمت ہے تو مجھے بھی گرفتار کرکے دکھائو، مزار قائد ایکٹ کے تحت مقدمے میں مریم نواز کا نام بھی ہے۔ نوابزادہ مرحوم ایسے موقع پر یہ شعر پڑھا کرتے ؎
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موجِ دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں، عافیت ساحل میں ہے
اور کبھی یہ شعر ؎
ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
احتساب کورٹ کے باہر موبائل فون پر بڑے بھائی سے بات کرتے ہوئے شہبازشریف کا کہنا تھا ”پریشان نہ ہوں: یہ دن بھی گزر جائیں گے‘‘۔
احتساب عدالت نے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ جناب وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں اپنے ٹائیگرز والی تقریب میں منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نوازشریف کو مخاطب کیا تھا: اب تمہارا واسطہ ایک نئے عمران خان سے ہوگا، ایک مختلف عمران خان سے، میں تمہیں لندن سے لاکر جیل میں ڈالوں گا‘ جہاں وی آئی پی سہولتیں نہیں ہوں گی، تمہیں عام قیدیوں کے ساتھ رکھوں گا۔ اس میں مخاطب اگرچہ نوازشریف کو کیا گیا تھا لیکن پیغام ساری اپوزیشن (اور اس میں بھی بطور خاص نون لیگ والوں) کے لیے تھا‘ اور شہباز صاحب تو ویسے بھی نواز شریف کے بھائی ہیں، ایک وفا دار بھائی، جو سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے مختلف رائے رکھنے کے باوجود بھائی کا وفادار ہے، اس وفاداری میں اس نے ماضی میں متعدد بار شرکتِ اقتدار کی پرکشش پیشکش بھی ٹھکرا دی تھی۔
جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقلی کے ساتھ ہی محکمہ داخلہ کے ذرائع نے خبر دی، کوٹ لکھپت جیل کی بیرک نمبر2 میں شہبازشریف کو عام قیدیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ انہی دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہورہا ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیرنے والی تقریر میں، جناب وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا تھاکہ اب کسی کو پروڈکشن آرڈر بھی نہیں ملے گا۔ پروڈکشن آرڈر جاری کرنا جناب سپیکر کا اختیار ہے، جنہیں کسٹوڈین آف دی ہائوس کہا جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز قائد حزب اختلاف ہیں، اسمبلی کے ہر اجلاس میں شرکت کے لیے سپیکر چودھری پرویز الٰہی ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیتے ہیں۔ (اس کے لیے اپوزیشن شاید سپیکر صاحب کو درخواست بھی نہیں دیتی) اسمبلی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے زیر حراست رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر، ایک دیرینہ روایت ہے۔ نواز شریف کے (پہلے) دور میں لانڈھی جیل میں قید، آصف زرداری قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے، پروڈکشن آرڈر پر اسلام آباد آتے اور اجلاس کے پورے عرصے میں اسلام آباد میں ریسٹ ہائوس میں مقیم رہتے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے صدر غلام اسحاق خان کی ناراضی کا ایک اہم سبب جناب زرداری کے لیے یہ سہولت بھی تھی۔ ایک موقع پر بابا جی نے کہا: یوں لگتا ہے جیسے وہ یہاں ہنی مون منانے آتا ہو۔
شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ عطااللہ تارڑ اور ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ، قائد حزب اختلاف کے پروڈکشن آرڈر کے لیے کوئی درخواست نہیں دے گی۔
کہا جاتا ہے، شہبازصاحب پر کوٹ لکھپت جیل کی سی کلاس میں پہلی شب بہت گراں گزری تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، یہاں وہ اس ”سہولت‘‘ سے بھی محروم تھے۔ کینسر سروائیور کو ادویات کے ساتھ خوراک میں بھی سو طرح کی احتیاطیں کرنا ہوتی ہیں۔ شہباز صاحب خوش قسمت نکلے کہ اگلے دن احتساب عدالت نے انہیں بی کلاس کی فراہمی کا حکم جاری کردیا۔ زیر حراست ملزم کو بی کلاس کی سہولتوں کی فوری ضرورت تھی اور یہ جیل مینوئل کے مطابق اس کا قانونی استحقاق بھی تھا۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا: شہباز صاحب اعتدال کی آواز تھی‘ اب لڑائی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کہاں جاکر رکے گی۔
رانا ثنااللہ، کامران شاہد کے ”آن دی فرنٹ‘‘ میں کہہ رہے تھے: اب تصادم ہے۔ مفاہمت کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: کوئی درمیانی راستہ نہیں رہا، ہمیں جیل میں ڈال دیں یا سمندر میں پھینک دیں۔ رانا ثنااللہ اس تصادم کی ذمہ داری وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت پر ڈال رہے تھے۔ اس کے لیے وہ جناب وزیر اعظم کی وہی منہ پر ہاتھ پھیرنے والی تقریر کا حوالہ لائے۔ اس کے ساتھ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا ذکر کیا اور گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد، لاہور اور گوجرانوالہ میں نئے مقدمات کا حوالہ دیا۔ فواد چودھری بھی اس ٹاک شو کا حصہ تھے۔ انہیں اعتراف تھا کہ مریم نواز کی موجودگی میں تالا توڑ کر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کی حمایت نہیں کی جا سکتی کہ اس سے چادر اور چاردیواری کی حرمت پر حرف آتا ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و امور داخلہ شہزاد اکبر، کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کو مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملی بھگت کا نتیجہ قرار دے رہے تھے، جس میں سندھ حکومت اور پولیس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ ان کے بقول، اس گرفتاری (اور اس انداز میں گرفتاری) کا سارا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوا۔ کیپٹن (ر) صفدر کو ہیرو بننے کا موقع ملا، حالانکہ ان کے خلاف مقدمہ، قابلِ ضمانت تھا۔ علی الصبح اس انداز میں گرفتاری کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آئی جی سندھ سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران کی ”چھٹی کی درخواستوں‘‘ سے پیدا ہونے والے انتظامی و سیاسی بحران میں بھی جناب آرمی چیف ہی بروئے کار آئے۔ وزیر اعظم صاحب تو مکمل طور پر Irrelevent ہو گئے تھے؛ تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں وسیع تر جے آئی ٹی کا بننا زیادہ مناسب ہوتا۔ ادھر مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری تک وسیع کیا جائے۔