Site icon DUNYA PAKISTAN

بچوں کی غیر واضح جنس: دو بہنیں جو جنس تبدیلی کے آپریشن کے بعد دو بھائی بننے پر خوش ہیں

Share

’میں اسلام آباد سے لڑکا بن کر گجرات پہنچا ہوں۔ اس بات کی اتنی خوشی ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ مجھے تو بچپن ہی سے لڑکیوں کے لباس پسند نہیں تھے۔ میرے کام اور عادتیں لڑکوں جیسی تھیں۔ میری سات بہنیں دو بھائی پا کر پھولی نہیں سما رہی ہیں۔ یہی صورتحال میرے بھائی عابد کی بھی ہے۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں سونبڑی کے رہائشی سیکنڈ ایئر کے طالب علم ولید عابد کا جو جنس تبدیلی کے آپریشن سے پہلے تک بشریٰ عابد تھے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی مراد عابد، جو کہ نویں کلاس کا طالب علم ہیں، آپریشن سے قبل وافیہ عابد تھے۔‘

ان دونوں کا تعلق پنجاب کے ایک زمیندار خاندان سے ہے۔

ولید اور مراد کے والدین کی شادی سنہ 1993 میں ہوئی تھی جس کے بعد یکے بعد دیگرے اُن کے ہاں نو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی۔ تاہم دو بہنوں کی جنس کی تبدیلی کے بعد اب ان کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ولید کا بہنوں میں پانچواں جبکہ مراد کا چھٹا نمبر تھا۔

دونوں بہنوں کی جنس تبدیلی کا یہ آپریشن اسلام آباد کے پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹروں کی 12 رکنی ٹیم کے سربراہ سرجن ڈاکٹر امجد چوہدری نے کیا تھا۔

صافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد چوہدری کا کہنا ہے کہ انھوں نے جنس تبدیلی کے پہلے بھی بہت سے آپریشن کیے ہیں مگر یہ کیس منفرد تھا۔

انھوں نے کہا کہ دو سگی بہنوں یا سگے بھائیوں کا آپریشن انھوں نے اس سے قبل نہیں کیا۔

انھوں نے بتایا کہ دونوں بھائی تقریباً گذشتہ دو برسوں سے زیر علاج تھے۔ ’ہم نے اس دونوں کے الگ الگ آپریشن کیے ہیں۔ ولید عابد کا آپریشن 20 ستمبر کو ہوا تھا جس کے بعد انھیں ہسپتال کے نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا جب کامیاب آپریشن کی مکمل تسلی ہوئی تو ہم نے دس اکتوبر کو مراد عابد کا آپریشن کیا۔‘

ڈاکٹر امجد کے مطابق یہ چھ، چھ گھنٹے طویل آپریشن تھے، جس میں مختلف ڈاکٹر وقفے وقفے سے شریک رہے۔ دونوں بھائیوں کو 21 اکتوبر کو ہسپتال سے گھر جانے کی اجازت دے دی ہے۔

جنس تبدیلی کا آپریشن کیوں؟

ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے ڈاکٹر جنید کے مطابق ’چند بچوں کا جنس پیدائش کے وقت واضح نہیں ہوتا اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے بچوں کے جنسی اعضا مکمل طور پر کوئی واضح شکل اختیار نہیں کر پاتے۔ ایسے بچوں میں اگر دونوں جنسوں کی خصوصیات ہوں تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والے بچے ممکنہ طور پر اے ٹیپیکل جنیٹیلیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ نقص ہے جو عموماً پیدائشی طور پر ہوتا ہے اور یہ صورتحال اعضائے مخصوصہ اور جنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر امجد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ نقص انتہائی کم ہوتا ہے جس کی شرح سو فیصد میں سے 0.5 سے لے کر 0.7 تک ہو سکتی ہے۔ ’جدید دور میں یہ قابل علاج ہے، جس کی واضح مثال یہ حالیہ کیس ہے۔ اس کیس میں دونوں بظاہر تو لڑکیاں تھیں مگر ان میں لڑکیوں یا عورتوں والی کوئی بھی خصوصیت نہیں تھی۔‘

ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ مخصوص عمر تک پہچنے پر ان بھائیوں کو ماہواری بھی شروع نہیں ہوئی تھی جس پر ان کی والدہ نے ان کا گجرات میں معائنہ کروایا۔ لیڈی ڈاکٹر نے غیر معمولی صورتحال کی بنا پر اس کیس کو پمز کے چلڈرن ہسپتال بھجوا دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ابتدائی ٹیسٹ کروانے سے پتا چل گیا تھا کہ دونوں ’اے ٹیپیکل جنیٹیلیا‘ کا شکار ہیں اور ان کو جنس تبدیلی کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے ان کے جنسی اعضا کو آپریشن کے ذریعے درست حالت میں لایا جاتا ہے۔

سرجن ڈاکٹر امجد چوہدری کے مطابق اس کے لیے آپریشن سے پہلے اور بعد میں علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپریشن سے پہلے اہم نفسیاتی ٹیسٹ اور کونسلنگ ہوتا ہے جبکہ آپریشن کے بعد کچھ عرصہ کے لیے ادوایات کے ذریعے سے ہارمون پیدا کیے جاتے ہیں۔

،تصویر کا کیپشنعابد اور مراد جو پہلے بشریٰ اور وافیہ تھے

بروقت علاج کامیاب زندگی کی ضمانت

ڈاکٹر امجد چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ اس آپریشن سے قبل بھی کئی آپریشن کر چکے ہیں اور بہت سے لوگ آپریشن کے بعد مطمئن زندگی گزار رہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ آپریشن کروانے کا فیصلہ 100 فیصد مریض کا اپنا ہوتا ہے۔

’حالیہ کیس میں بھی ہم نے دونوں کو فیصلہ کرنے کا بھرپور موقع دیا تھا۔ ان سے تقریباً ہر موضوع پر بات ہوئی تھی۔ ہمارے نفسیاتی معالج نے بھی ان سے بات کی تھی۔‘

سرجن ڈاکٹر امجد چوہدری کا کہنا تھا کہ والدین جب محسوس کریں کہ ان کے بچوں کی جسمانی ساخت اور اعضائے مخصوصہ کچھ مختلف ہیں اور ان کا رویہ بھی مختلف ہے تو فی الفور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ’بچوں میں یہ نقص بروقت دور ہو سکتا ہے مگر اس میں زیادہ تاخیر ہو جائے تو پھر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

Exit mobile version