اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے آگے بڑھ کر خود ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثہ جات، 2018 سے 2020 تک ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس کی تفصیلات اور بحیثیت جج حاصل ہونے والی مراعات کے بارے میں بتادیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ تفصیلات ویمن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) کے مطالبے کے جواب میں فراہم کی گئیں۔
ویمن ایکشن فورم نے آئین کے آرٹیکل 19 اے اور معلومات کے حق کے قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے دیگر ججز اور فوجی افسران سے معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
رواں برس اگست کے مہینے میں ڈبلیو اے ایف نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں سرکاری عہدیداران بشمول سپریم کورٹ اور پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز، چیف آف آرمی اسٹاف اور پاک فوج کے لیفٹیننٹ جرنلز ، میجر جرنلز، بریگیڈیئرز، پاک فضائیہ کے ایئر چیف مارشل، ایئر مارشلز، ائیر وائس مارشل اور پاک بحریہ کے ایڈمرل، وائس ایڈمرل، ریئر ایڈمرلز اور کموڈورز سے معلومات طلب کی گئی تھیں۔
جس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 2018 میں انہیں ڈیڑھ کروڑ روپے کی آمدن ہوئی جس پر انہوں نے 22 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا، 2019 میں ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کی آمدن پر 17 لاکھ 90 ہزار روپے جبکہ 2020 میں 2 کروڑ 10 لاکھ آمدن میں سے 26 لاکھ انکم ٹیکس ادا کیا۔
علاوہ ازیں اپنے ذاتی اثاثہ جات کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کراچی میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے فیز 2 میں 800 مربع گز کا رہائشی پلاٹ موجود ہے جو انہوں نے اس وقت خریدا تھا جب وہ قانون کی پریکٹس کررہے تھے اور اس پر رہائش کے لیے گھر بھی تعمیر کیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ان کا ایک خالی پلاٹ بھی ڈی ایچ اے کراچی میں موجود ہے، یہ بھی انہوں نے قانون کی پریکٹس کے دوران ہی خریدا تھا، ساتھ ہی ان کا ایک 200 مربع گز کا کمرشل پلاٹ ڈی ایچ اے کے فیز 5 میں بھی موجود ہے اور یہ پلاٹ بھی انہوں نے قانون کی پریکٹس کے دوران ہی خریدا تھا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو ان کے مرحوم والد قاضی محمد عیسیٰ سے وراثت میں ایک پلاٹ کا نصف حصہ بھی ملا تھا جو بلوچستان میں زیارت کے مقام پر قائد اعظم ریزیڈنسی کے بالمقابل واقع ہے، جس کے ایک بڑے حصے پر حکومت نے قبضہ کرلیا تھا۔
بیان کے مطابق وہ لاہور کے ڈی ایچ اے فیز 1 کے بلاک بی میں قائم ایک کنال کے ایک پرانے گھر کے بھی مالک ہیں جو کرایے پر دیا گیا ہے، یہ گھر انہوں نے لٹن روڈ کوئٹہ پر واقع ایک اراضی اور ایک دو ایکڑ کے گھر کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا جزوی حصہ استعمال کرتے ہوئے خریدا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں 4 کروڑ 10 لاکھ روپے جبکہ فارن کرنسی اکاؤنٹ میں 40 لاکھ روپے کے برابر رقم موجود ہے۔
گاڑیوں کے حوالے سے بیان میں بتایا گیا کہ ان کے پاس ہونڈا ایکارڈ کار، ہونڈا سوک کار اور ایک چھوٹی جیپ موجود ہے۔
سرکاری مراعات کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کے پاس اسلام آباد میں ایک سرکاری گھر موجود ہے، حکومت کی طرف سے 2 سرکاری نوکر دیے گئے جن میں ایک باورچی، جز وقتی مالی اور صفائی کرنے والے شامل ہیں، اس کے علاوہ 2015 اور 2017 کے ماڈل کی 2 ہونڈا سوک کارز ملی ہیں جن کے لیے 600 لیٹر ماہانہ تک کا پیٹرول اور منظورہ شدہ ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولیات بھی حاصل ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے یا بلوچستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے کبھی پلاٹ کے لیے درخواست نہیں دی بلکہ انہیں پیشکش کی گئی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی تھی۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دیگر ججز کی طرح انہیں بھی ممنوعہ بور ہتھیار کی پیش کش کی گئی تھی اور اسے بھی انہوں نے مسترد کردیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں 300 مفت مقامی کالز کرنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ 2 ہزار بجلی کے یونٹس اور 20 سو کیوبک میٹر گیس کی مفت فراہمی سہولت بھی حاصل ہے۔
اپنی اہلیہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ ان پر انحصار نہیں کرتی ہیں اور انہوں نے خود برطانیہ اور پاکستان میں اپنا انکم ٹیکس ریٹرن فائل کر رکھا ہے۔
اس کے ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح ان کی اہلیہ نے بھی اپنے اثاثہ جات کے بارے میں بتایا جس کے مطابق انہوں نے 2018 میں 40 لاکھ آمدنی پر 5 لاکھ 76 ہزار 540 روپے انکم ٹیکس، 2019 میں 53 لاکھ آمدنی پر 8 لاکھ 9 ہزار 970 روپے انکم ٹیکس جبکہ 2020 میں 66 لاکھ روپے آمدنی پر 10 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔
سرینا عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس سندھ کے ضلع جیکب آبادکی تحصیل تھل کے دیہہ کورار میں 24۔7 ایکڑ کی اراضی اور اسی علاقے میں 21۔148 ایکڑ کی ایک اور اراضی بھی ہے، اس کے علاوہ کراچی میں شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک پلاٹ موجود ہے جس پر قبضہ ہوگیا ہے جبکہ لندن میں بھی 3 آفشور جائیدادیں موجود ہیں۔
بیان کے مطابق ان کے پاس 21 لاکھ روپے سیونگز سرٹیفیکٹس، بینک اکاؤنٹس میں ڈیڑھ کروڑ روپے جبکہ 2 کروڑ 50 لاکھ فارن کرنسی اکاؤنٹ میں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے 2 بچے ہیں، انکی بیٹی کی عمر 33 سال ہے جو کہ شادی شدہ ہے اور پاکستان میں رہائش پذیر ہے اور برطانیہ اور پاکستان میں انکم ٹیکس فائل کرتی ہے جبکہ ان کا بیٹا 30 سال کا ہے جو لندن میں رہتا اور کام کرتا ہے اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہے۔