بھارت میزائل اور ڈرونز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ سیٹلائٹ تک رسائی کے معاہدے کے قریب پہنچ گیا ہے جس کا مقصد چین کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے۔
خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اس معاہدے کا اعلان ممکنہ طور پر اگلے ہفتے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور ڈیفنس سیکریٹری مارک ایسپر کے دورے کے موقع پر نئی دہلی میں بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ سے مذاکرات کے دوران کیا جائے گا۔
امریکا نے رواں ہفتے بیجنگ کی مخالفت میں تائیوان کو اسلحے کے تین طرح کے نظام کی فروخت کی منظوری دی تھی جبکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکی کمپنیوں نے بھارت کو 2017 سے اب تک 21 ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ فروخت کیا اور امریکا کی حکومت بھارت پر فوجی آلات کے بہتر استعمال کے لیے حساس معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کرنے پر زور دیتی رہی ہے۔
بھارت کی حکومت کے ذرائع نے متوقع معاہدے کے حوالے سے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ نے جیوسپیٹیال کوآپریشن پر بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ کے حتمی مسودے پر تبادلہ خیال کیا۔
وزارت دفاع کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے بھارت کو مختلف فضائی اور میدانی ڈیٹا تک رسائی کا موقع ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک بنیادی معاہدہ ہے جس پر امریکا نے اپنے کئی اتحادیوں کے ساتھ دستخط کرلیے ہیں’۔
بھارت اس سے قبل امریکا کے ساتھ عسکری معاہدہ کرنے اور چین کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھا لیکن رواں برس چین کے ساتھ حالات میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی اور مغربی ہمالیائی سرحد میں دونوں ممالک کی فوج کی جھڑپوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
چین سے کشیدگی کے بعد بھارت نے اپنی عسکری طاقت کو مزید بہتر کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور چین کی ممکنہ تشویش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رواں ہفتے آسٹریلیا کو سمندری مشقوں میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی جو اگلے ماہ امریکا اور جاپان کے ساتھ شیڈول ہیں۔
ہریٹیج فاؤنڈیشن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر جیف اسمتھ نے مجوزہ معاہدے پر کہا کہ ‘دوطرفہ طور پر یہ اقدام دونوں جمہوری ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی ایک نئی سطح کی طرف اشارہ ہے اور ماضی میں بھارت کے ساتھ عدم اشتراک کا توڑ ہے’۔
بھارتی حکومت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان پہلے ہی خفیہ اطلاعات کا تبادلہ ہو رہا ہے اور خاص کر خطے میں چین کی سرگرمیوں سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان اس اشتراک میں بھارتی سرحد پر چینی فوج کی تعیناتی اور گہرے پانیوں میں ماہی گیری سمیت چینی میری ٹائم کی سرگرمیوں کی معلومات شامل ہیں جس کی وجہ چین کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تنازعات ہیں۔
بھارتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر دستاویزات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی فوج نے 2019 میں امریکی اسلحہ ساز کمپنی سیگ سیوگر سے ہنگامی بنیادوں پر 72 ہزار 400 خود کار رائفلز کی خریداری کے لیے معاہدے پر دستخط کر لیے تھے۔
بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ بھارت، امریکی اسلحہ ساز کمپنی سیگ سیوگر نامی کمپنی سے فاسٹ ٹریک پروکیورمنٹ (ایف ٹی پی) کے تحت 70 ارب روپے مالیت کی رائفلز خریدے گا۔
مزید کہا گیا تھا کہ جنوری 2018 میں بھارتی محکمہ ڈیفنس کی کونسل نے ابتدائی بنیادوں پر 72 ہزار 400 خودکار رائفل (ایس آئی جی 716) اور 93 ہزار 895 دیگر رائفلز خریدنے کی منظوری دی تھی۔
بھارتی محکمہ ڈیفنس نے کہا تھا کہ ’مذکورہ رائفلز مختلف حساس محاذوں میں تعینات فوجیوں کو فراہم کی جائیں گی‘۔