Site icon DUNYA PAKISTAN

امریکی صدارتی انتخاب 2020: آخری صدارتی مباحثہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نام رہا یا جو بائیڈن کے؟

Share

امریکہ کے صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والے دوسرے اور آخری مباحثے میں میوٹ بٹن اور اس کے ڈر نے بظاہر اپنا کام کر دکھایا ہے۔ شاید یہی بٹن تھا جس کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن اس مباحثے کے دوران قدرے محتاط نظر آئے۔

پہلے مباحثے کے برعکس دوسرے مباحثے میں دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کو بولنے کا موقع دیا اور اس دوران احترام کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک دوسرے پر لفظی حملوں کے باوجود، دونوں پُرسکون رہے اور مباحثے کی بنیادی اصولوں پر عمل کرتے نظر آئے۔

پہلے مباحثے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو بائیڈن کی گفتگو میں دخل اندازی کی اور جارحانہ انداز اپنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ شاید ووٹرز میں اُن کی حمایت میں کمی آئی ہے، جیسا کہ حالیہ پولز میں بتایا گیا ہے۔ اس مرتبہ امریکی صدر نے اپنی آواز دھیمی رکھی اور اس انداز گفتگو نے انھیں ایک بہتر دلائل دینے والے شخص کے طور پر پیش کیا۔

پہلے مباحثے کے برعکس اس مباحثے میں دونوں رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی باتیں شاید امریکی عوام کو یاد رہ جائیں گی۔

جو بائیڈن نے بھی محتاط طریقہ اپنایا تاکہ ریپبلیکن امیدوار اُن کی عمر یا دماغی توازن پر سوالات نہ اٹھا سکے۔

ٹرمپ کی مہم شاید بائیڈن کے اس بیان کو بحث کا مضوع بنائے گی جس میں انھوں نے تیل پر چلنے والے توانائی کے شعبے میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک خطرناک موضوع تھا جس کا ذکر بائیڈن نے مباحثے کے آخر میں کیا۔ لیکن اس دور میں جہاں ہائبرڈ گاڑیاں اور کم توانائی پر چلنے والے گھروں کی باتیں عام ہو چکی ہیں، ریپبلیکن اراکین کے اندازوں کے برعکس اس سے شاید زیادہ منفی تاثر نہ بن سکے۔

لیکن بعد میں شاید پہلا صدارتی مباحثہ ہی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اکثر رائے عامہ کے سرویز میں بتایا جا رہا ہے کہ زیادہ تر امریکی شہری پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں کہ کسے ووٹ ڈالنا ہے۔ چار کروڑ 50 لاکھ لوگ پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں۔ صدارتی انتخاب پر اس مباحثے کے بہت کم اثرات ہونے کا امکان ہے۔

کووڈ 19 بحث کا مرکزی عنوان

ٹرمپ کی ٹیم نے شکایت کی ہے کہ اس مباحثے میں مرکزی عنوان خارجہ پالیسی تھا۔ وہ شاید ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ اور شام میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کرنا چاہتے تھے اور اسی تناظر میں وہ بائیڈن کے بیٹے کے چین سے کاروباری تعلقات پر انھیں تنقید کا نشانہ بنا سکیں۔

پولز کے مطابق امریکی عوام پہلے کی طرح اس بار بھی کورونا وائرس سے متعلق سب سے زیادہ فکر مند ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ دعویٰ کیا کہ کچھ ہفتوں میں ہی ویکسین تیار ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ ویکسین خود استعمال کر چکے ہیں اور اب ان میں قوت مدافعت آ چکی ہے۔

بائیڈن نے ٹرمپ پر کافی لفظی حملے کیے۔ انھوں نے یاد کرایا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ بیماری خود ہی غائب ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے دو لاکھ 20 ہزار امریکی شہری ہلاک ہوئے ہیں اور رواں سال کے اواخر تک اس تعداد میں مزید دو لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

دونوں امیدوار ایک دوسرے کی بات کا جواب دیتے رہے۔ ٹرمپ نے یہ امید دلانے کی کوشش کی کہ سب بہتر ہو رہا ہے، کاروبار اور سکول کھلنے چاہییں۔ جب ٹرمپ نے کہا کہ ’لوگ اس بیماری کے ساتھ جینا سیکھ رہے ہیں‘ تو بائیڈن نے جواب میں کہا ’لوگ اس بیماری کے ساتھ مرنا سیکھ رہے ہیں۔‘

ایک موقع پر یہ تاثر ملا کہ ٹرمپ اس موضوع پر بات ختم کر کے دوسرے موضوعات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔

ہنٹر بائیڈن کا ایک بار پھر ذکر

ٹرمپ نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ وہ بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کو مباحثے کا حصہ بنائیں گے۔ یہ پہلی بار نہیں جب ٹرمپ نے بائیڈن کے خاندان کا ذکر کیا ہے۔

انھوں نے الزام لگایا ہے کہ بائیڈن کے بیٹے کے چین اور یوکرین میں کاروباری تعلقات کی بنا پر انھیں بہت فائدہ ہوا۔ انھوں نے ہنٹر بائیڈن کے کمپیوٹر سے مبینہ طور پر منظر عام پر آنے والی معلومات اور اخباری خبروں کا حوالہ بھی دیا۔

بائیڈن نے جواب میں تردید کی اور موضوع کو ٹرمپ کے ٹیکس اور چین میں کاروباری تعلقات کی جانب لے گئے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے وضاحت کی کہ کیسے انھوں نے ’وقت سے پہلے اپنے ٹیکسز ادا کر دیے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ کسی دن اپنے ادا کردہ ٹیکس کی معلومات بھی منظر عام پر لائیں گے۔ عام امریکی شہری کے لیے یہ باتیں اضطراب کا باعث بن سکتی ہیں۔

ٹرمپ شاید بائیڈن اور ان کے خاندان کے بارے میں بات کر کے اپنے حریف پر سبقت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن امکان ہے کہ اس شام ایسا نہ ہوسکا۔

امیگریشن پر دلائل

چار برس قبل ٹرمپ نے امیگریشن پر اپنے سخت موقف کے باوجود پہلے ریپبلیکن پارٹی کی ٹکٹ اور پھر وائٹ ہاؤس تک کا سفر طے کیا۔ لیکن اس بحث میں انھوں نے اس موضوع پر محتاط انداز میں بات کی جو ان سخت اقدامات کے برعکس ہے جو انھوں نے صدر بننے کے بعد کیے۔

ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے بچوں سے الگ کرنے کی ان کی پالیسی پر وہ کیا کہنا چاہیں گے تو ان کا جواب تھا کہ اوبامہ انتظامیہ نے ’پنجرے‘ بنا رکھے تھے جہاں کم عمر تارکین وطن کو رکھا جاتا تھا۔

بائیڈن نے جواب میں کہا کہ جن بچوں کو والدین سے الگ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے وطن چھوڑ کر اپنے والدین کے ساتھ امریکہ داخل ہوئے تھے اور اس اقدام پر سب امریکہ پر ہنس رہے ہیں۔ کئی امریکیوں کو آج بھی ایسی ویڈیوز اور آڈیوز یاد ہوں گی جن میں بچوں کو والدین سے علیحدگی کے بعد روتے دیکھا جاسکتا ہے۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہیں اور صاف مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

جرائم اور نظامِ انصاف

پہلے مباحثے میں ٹرمپ پر تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے نسلی تعلقات پر بات کی تھی۔ ان سے سفید فاموں کی برتری کی تحریک چلانے والوں کی براہ راست مذمت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ صدر نے اس موضوع پر احتیاط برتی۔

انھوں نے نظام انصاف میں اصلاحات اور سیاہ فاموں کے کالجز کے لیے تاریخی فنڈنگ کو فخر سے پیش کیا۔ انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی کے متنازع قوانین کی وجہ سے سیاہ فام قیدیوں میں اضافے پر بائیڈن کی جماعت پر تنقید کی۔ جب بائیڈن اصلاحات کی بات کر رہے تھے تو ٹرمپ نے سابق نائب صدر سے پوچھا کہ انھوں نے صدر باراک اوبامہ کے دور میں یہ سب کیوں نہ کیا۔

ٹرمپ نے کہا ‘یہ سب صرف باتوں کی حد تک ہے، کوئی اقدام نہیں ہوگا۔۔۔ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ آپ کے پاس یہ کرنے کے لیے آٹھ برس تھے۔’

ایسے لوگ جو 1990 کی دہائی کے امریکہ میں رہے، جب جرائم کے خلاف ادارے متحرک تھے، وہ اس مباحثے کی باتوں پر حیران ہو رہے ہوں گے۔ دونوں امیدوار امریکہ میں قیدیوں کی تعداد میں کمی سے متعلق اپنی اپنی کوششوں کا ذکر کرتے رہے۔ رواں سال نسلی امتیاز کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے اور اب وقت بدل گیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے مباحثے کے دوران یہ بھی کہا کہ انڈیا کی طرف دیکھیں یہ آلودہ ہے۔ اس پر انڈیا میں بحث ہو رہی ہے اور کچھ شہری وزیر اعظم نریندر مودی سے اس پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Exit mobile version