سائنس

ایشین انٹرنیٹ اتحاد کا پاکستان میں بنائے گئے نئے سوشل میڈیا قوانین پر اعتراض

Share

ایشیا میں انٹرنیٹ کمپنیوں اور سوشل میڈیا سائٹس کے اتحاد ایشین انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے ایک بار پھر حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے نئے سوشل میڈیا قوانین پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت پاکستان نے چند دن قبل 16 اکتوبر کو ہی ترامیم کے بعد نئے سوشل میڈیا قوانین سے متعلق نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

حکومت نے رواں برس کے آغاز میں جاری کیے گئے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 میں ترامیم کے بعد نئے رولز جاری کیے تھے۔

وفاقی حکومت نے نئے قوانین کو ریموول اینڈ بلاکنگ ان لا فل آن لائن کنٹینٹ (طریقہ کار کی نگرانی اور حفاظت) 2020 کا نام دیا تھا۔‎

تاہم اب ایشیا میں انٹرنیٹ کمپنیوں اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کے اتحاد اے آئی سی نے حکومت پاکستان کو خط لکھ کر نئے ضوابط پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق ایشین انٹرنیٹ اتحاد کے جاری کردہ بیان میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونی کیشن (ایم او آئی ٹی ٹی) سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں ڈیجیٹل معیشت کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالے۔

بیان میں منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) جیف پینے کی جانب سے جاری بیان میں حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے نئے قوانین ریموول اینڈ بلاکنگ ان لا فل آن لائن کنٹینٹ (طریقہ کار کی نگرانی اور حفاظت) 2020 کا حوالہ دیا گیا ہے۔

بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور جلد سے جلد نئے ضوابط کو عوام سامنے لاکر اسٹیک ہولڈرز کے خدشات ختم کرے۔

ایشین انٹرنیٹ اتحاد نےحکومت کو تجویز دی کہ وہ ایسے قوانین و ضوابط بنائے جس سے ملک میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ ملے۔

مذکورہ اتحاد میں فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈن، ایئر بی این بی،ایمازون، ایپل، ایکس پیڈیا گروپ، گوگل، لائن، یاہو اور ویریزن میڈیا گروپ سمیت دیگر گروپ شامل ہیں۔

مذکورہ اتحاد نے حکومت پاکستان کی جانب سے اس سے قبل رواں برس فروری میں جاری کیے گئے ضوابط پر بھی اعتراض کیا تھا۔

انٹرنیٹ اتحاد کے خدشات کے بعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایاکہ اگرچہ وفاقی کابینہ نے نئے ضوابط کو منظور کرلیا ہے، تاہم انہیں باضابطہ طور پر فی الحال نافذ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ نئے ضوابط کو ایشین اتحاد کے خدشات سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کے خدشات ختم کرنے کے بعد بنایا گیا۔

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے منظور کیے نئے ضوابط کے حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے 16 اکتوبر کو جاری کیے گئے نوٹی فکیشن میں بتایا گیا تھا کہ نئے قوانین کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 37 کے تحت منظور کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ نئے ضوابط کے مطابق سوشل میڈیا سائٹس پر ہر طرح کے فحش اور نازیبا مواد کی اشاعت تا تشہیر پر پابندی ہوگی جب کہ غلط معلومات کے شیئر کرنے پر بھی پابندی لاگو ہوگی۔

قوانین کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی سلامتی، وقار اور دفاع کے خلاف ہر طرح کا مواد ہٹانے کی پابندی ہوگی۔

قواعد میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس پر کسی طرح کے حکومت مخالف مواد کی اشاعت پر پابندی ہوگی جب کہ کسی بھی شخص کی شخصیت کی نقل اتارنے جیسے مواد کو بھی شائع یا نشر نہیں کیا جا سکے گا۔

نئے قواعد کے مطابق مذہبی منافرت اور توہین مذہب، توہین رسالت سے متعلق ہر قسم کے مواد پر پابندی ہوگی، ساتھ ہی پاکستان کے ثقافتی و اخلاقی رجحانات کے خلاف مواد پر بھی پابندی ہوگی۔

نئے قوانین میں بتایا گیا ہے کہ ہر طرح کے تشدد، دہشت گردی اور استحصال پر مبنی مواد پر بھی پابندی ہوگی جب کہ بچوں کو متاثر کرنے والے مواد کو بھی شائع یا نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

تاہم یہ پرتشدد، فحش، غیر اخلاقی، پاکستان اور حکومت مخالف جبکہ پاکستانی اقدار کے خلاف مواد سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ایسے مواد کو کیسے جانچا جائے گا؟

قوانین میں بتایا گیا کہ ضوابط نافذ ہونے کے تین ماہ کے اندر فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور گوگل سمیت دیگر کمپنیاں اپنے نمائندے پاکستان میں تعینات کریں گی جب کہ آئندہ 9 ماہ کے دوران وہ مقامی دفاتر کھولنے کی پابند ہوں گی۔

ساتھ ہی سوشل میڈیا کمپنیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قوانین نافذ ہونے کے 18 ماہ کے اندر ڈیٹا سرور کی مقامی طور پر تشکیل دیں گی اور ساتھ ہی وہ صارفین کو آسان زبان میں سوشل میڈیا کے ضوابط بھی سمجھائیں گی۔