ہیڈلائن

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: صدرِ پاکستان عارف علوی کے پاس کیا آپشنز تھے؟

Share

کیا پاکستان میں سربراہ ریاست یعنی صدرِ پاکستان کا دفتر محض ایک ڈاکخانہ ہے؟ عدالت عالیہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور زبانِ زد و خاص و عام ہے۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں سربراہ مملکت کا منصب ’عضوِ معطل‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ عجب نہیں کہ جب ایوانِ صدر کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی جا رہی تھی تو صدر پاکستان کے ذہن میں بھی یہی خیال ہو؟

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صدر کے عہدے کا رسمی ہونے کا تاثر پارلیمانی نظام کا پیدا کردہ ہے جسے 18ویں ترمیم نے مزید پختہ کر دیا کہ وزیر اعظم جو چاہیں، صدر کو وہی کرنا ہے۔ لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے؟

سنہ 2018 میں عبوری حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس کے لیگل افسر یعنی ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل وغیرہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعظم آفس نے ایوان صدر کو ایک سمری ارسال کی جس میں نئی تقرریوں کی منظوری کی استدعا کی گئی تھی۔

یہ ایک بڑا فیصلہ تھا جس کے انتظامی اور سیاسی سطح پر گہرے اور دور رس اثرات متوقع تھے۔ اس کے علاوہ کسی عبوری حکومت کو جس کا مینڈیٹ انتخابات کرانا ہو، اس قسم کی برطرفیوں اور تقرر کے معاملات میں پڑنا بھی نہیں چاہیے۔ صدر مملکت نے یہ سمری کئی آئینی اور قانونی اعتراضات کے ساتھ وزیر اعظم آفس کو واپس بھیج دی۔

وزیر اعظم نے یہ اعتراضرات قبول کر لیے اور پرانے لیگل افسران کو ہٹانے اور نئے افسران کی تعیناتی پر مزید اصرار نہیں کیا۔

مختلف ادوار حکومت میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ صدر ممنون حسین ہی کے دور صدارت میں وفاق کے زیر انتظام یونیورسٹیوں کے سربراہوں کے تقرر کے معاملے پر ایک اختلاف پیدا ہوا تھا۔ صدر مملک وفاق کی زیر انتظام یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں۔

بعض لوگ چاہتے تھے کہ یہ اختیار صدر مملکت سے لے کر وزیر اعظم کے ذریعے وفاقی وزارت تعلیم کو منتقل ہو جائے، لیکن اسی طریقہ کار کے تحت صدر مملکت نے اس فیصلے سے اتفاق نہ کیا اور معاملہ ختم ہو گیا۔

ایوان صدر
،تصویر کا کیپشنایوان صدر

صدر مملکت کی بے بسی کا تاثر اور انھیں دستیاب اختیارات

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر مملکت کی بے بسی کا تاثر آئین کے آرٹیکل 48 (ون) سے پیدا کیا جاتا ہے جس کے مطابق صدر مملکت اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی کے لیے وزیر اعظم یا کابینہ کے مشورے (ایڈوائس) کے پابند ہوں گے۔

صدر مملکت پندرہ دن کے اندر اندر وزیر اعظم یا کابینہ کو کوئی مسئلہ دوبارہ غور کے لیے واپس بھیج سکتے ہیں، اس کے بعد بھی اگر وزیر اعظم یا کابینہ اپنے مؤقف پر اصرار کریں تو صدر اسے تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے یا ایک مخصوص وقت (یعنی دس روز بعد) کے بعد وہ مشورہ از خود نافذ العمل ہو جائے گا۔

یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے صدر مملکت کی مجبوری کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن آئین کی اسی دفعہ کے تحت پندرہ اور دس دن کا دورانیہ دراصل وہ گنجائش پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے صدر اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم یا کابینہ کو ان کا فیصلہ تبدیل کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور بعض اوقات اس میں کامیابی بھی ہوتی ہے۔

آئین کی آٹھویں (8th) ترمیم کے بعد، خاص طور پر صدر غلام اسحٰق خان اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے ادوار میں چونکہ صدر اور وزیر اعظم عام طور پر دو مختلف قطبین (Poles) میں ہوا کرتے تھے، اس طرح کے اختلافات کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور بحران پیدا کرنے کے لیے اس کی تشہیر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کر دی جاتی تھی اور یوں سیاسی معاملات نزاکت اختیار کر جاتے تھے۔

اس پیچیدگی سے پچنے کے لیے لغاری دور میں پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور بعد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں آئینی ترامیم کر کے صدر مملکت کا کسی سمری کو یکسر مسترد کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا لیکن اختلاف کے اظہار کے لیے چند دن کی مدت کی جو گنجائش پیدا کی گئی، اس کے دوران میں بہت کچھ ہو جاتا ہے لیکن چونکہ ماضی کے صدور کی طرح سربراہ ریاست کوئی سیاسی بحران پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، اس لیے خاموشی کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔

یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ صدر مملکت کی طرف سے کسی معاملے پر اعتراض اور حکومت کا فیصلہ تبدیل کرانے کا اختیار کچھ ایسا راز بھی نہیں لیکن لوگ اس بابت کچھ زیادہ جانتے بھی نہیں۔

سربراہ ریاست کی حیثیت سے صدر مملکت کا منصب کسی بھی مقدمے میں اپیل کا آخری فورم ہے۔ سزائے موت کے فیصلوں کے علاوہ وفاق کے زیر اہتمام پانچ مختلف محتسبوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی صدر مملکت ہی کے پاس آتی ہے۔ سزائے موت اور اس کی معافی کی سمری وزارت داخلہ کے ذریعے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم ہی صدر مملکت کو بھیجتے ہیں۔

صدر مملکت ایسے معاملات میں کسی سمری پر عملدرآمد کے پابند نہیں ہوتے، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا ذہن استعمال کر کے فیصلہ کریں کہ کسی اپیل کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت کے ایک قانونی مشیر ایوان صدر میں کام کرتے ہیں جنھیں ان ججوں کے مساوی ہی تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔

غلام اسحاق خان
،تصویر کا کیپشن’آئین کی آٹھویں ترمیم کے بعد اس طرح کے اختلافات کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا‘

یہ قانونی ماہر ہر معاملے کا آئین اور قانون کی روشنی میں جائزہ لے کر صدر مملکت پر معاملہ واضح کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اگر ضروری ہوتو وہ فریقین کو طلب کر کے مقدمے کی سماعت بھی کرتے ہیں، اس کارروائی کے بارے میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ فریقین صدر مملکت کے سامنے پیش ہوئے اور صدر مملکت نے ہی سماعت بھی کی۔

صدر مملکت کے فیصلے عدالت ہی کی طرح لکھے جاتے ہیں اور اس فیصلے کے حق میں قانونی دلائل اور قانونی نظائر پیش کی جاتیں ہیں۔ یہ تمام ذمہ داری تنخواہ دار قانونی مشیر صدر مملکت کی طرف سے ادا کرتے ہیں، اور اُن کے فیصلے کو صدر مملکت کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر سے صدر دفتر آنے والی بہت سی سمریاں روز مرہ کے معاملات سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہ سمریاں اگرچہ زیادہ حساس نہیں ہوتیں لیکن اس کے باوجود ان کی ڈرافٹنگ حتیٰ کہ الفاظ کے چناؤ اور فل سٹاپ، کامہ وغیرہ کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے۔

اس طرح کی سمریاں متعلقہ شعبے کا سیکشن افسر تیار کرتا ہے جو مختلف مراحل طے کرتی ہوئی سیکریٹری کی سطح تک پہنچتی ہیں اور ہر سطح پر بڑی احتیاط سے ان کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود صدر مملکت کے دفتر میں یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ صدر مملکت کے سیکریٹری کوئی نہ کوئی اصلاح آخری مرحلے پر کر دیتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خود صدر مملکت نے زبان وغیرہ کی کوئی غلطی پکڑ لی اور عین وقت پر اس کی اصلاح کی گئی۔ وقتاً فوقتاً معمول کے تحت آنے والی سمریوں میں بھی اتنی احتیاط برتی جاتی ہے لیکن دور رس اثرات رکھنے والے معاملات، خاص طور پر قانونی معاملات کے ضمن میں سب سے پہلے قانونی مشیران سے رائے طلب کی جاتی ہے جو پورے اطمینان سے سمری کا جائزہ لے کر اس کے قانونی مضمرات سے صدر مملکت کو آگاہ کرتے ہیں۔

آئین میں دس اور پندرہ روز کی جو مہلت رکھی گئی ہے، اس کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے۔

نظام مملکت میں بعض معاملات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ معاملات کا تعلق حکومت کی سیاسی مصلحتوں اور مفادات سے ہوتا ہے۔ ایسے معاملات کو خفیہ رکھنا بھی ایک ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں بعض اوقات خود سیکریٹری یا کوئی اہم افسر اور بعض صورتوں میں وزیر جیسے عہدے پر فائز لوگ بھی سمری لے کر ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں اور خواہش کی جاتی ہے کہ صدر مملکت اس پر فوری طور پر دستخط کر دیں۔

ایسی صورت میں صدر مملکت کے معاونین اور سیکریٹری حضرات کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ وہ خوش اسلوبی کے ساتھ وقت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاملے پر تفصیل سے غور کیا جا سکے اور افراتفری میں کسی غلط فیصلے یا کسی ٹیکنیکل سہو یعنی پروف کی غلطیوں سے بچا جا سکے۔

چند برس قبل ذہنی طور پر معذور ہو جانے والے ایک مجرم کی سزائے موت رکوانے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا، جس صبح اسے سزائے موت دی جانی تھی اسی شب وزرات داخلہ کے سیکریٹری خود سمری لے کر ایوان صدر پہنچے اور جب تک تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر اطمینان نہیں کر لیا گیا وہ ایوان صدر میں ہی موجود رہے۔

اس طرح کے معاملات میں راز داری، جلدی اور سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہر سطح کے ذمہ داران معاملات کی انجام میں لچک ضرور رکھتے ہیں تاکہ ایسے معاملات کی ضروری چھان پھٹک کی جا سکے۔

فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس

اب سول پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں کیا ہوا؟

اس سمری کا شمار بھی غیر معمولی طور پر حساس اور ایسے معاملات میں کیا جا سکتا ہے جن کا تعلق حکومت کے نازک امور سے ہوتا ہے یعنی راز داری اور جلدی، لیکن ایسے ہی معاملات ہوتے ہیں جن کے لیے ایوان صدر کو قانونی اور آئینی پہلوؤں کے سوچنے سمجھنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اسی مقصد کے لیے آئین نے پندرہ روز کی مہلت رکھی ہے۔

اس معاملے میں کیا ہوا ہو گا؟ اس ضمن میں جو اطلاعات دستیاب ہیں، ان سے یہی واضح ہے کہ ایوان صدر سے معاملہ جلد نمٹنانے کی خواہش کی گئی تھی۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ روایت کے مطابق یہ معاملہ ایوان صدر میں موجود قانونی دماغوں تک نہ پہنچ سکا اور یہ سمری بھی روز مرہ کی سمریوں کی طرح نمٹا دی گئی۔

آئینی ماہرین کو یقین ہے کہ اس معاملے میں ایوان صدر کے مشیر قانون کو متحرک ہونے کا موقع ملتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔

سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل اور ایسی آئینی اور قانونی نزاکتوں کی مہارت رکھنے والے قانون داں وقار اے شیخ کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ریفرنس کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے جن گیارہ نکات کی نشاندہی کی ہے، وہ اتنے واضح اور نمایاں ہیں کہ قانون سے معمولی شد بد رکھنے والا کوئی بھی شخص بھی ان کی بنا پر یہی فیصلہ کرتا کہ یہ ریفرنس قانونی طور پر وزن نہیں رکھتا۔

اگر یہ عمل (پراسس) مکمل ہو جاتا تو تاریخ مختلف ہوتی اور صدر مملکت کو یہ نہ سننا پڑتا کہ انھوں نے اس سلسلے میں ’اپنا ذہن استعمال نہیں کیا اور تیسرے فریق سے بامعنی مشاورت نہیں کی۔‘

کیا وجہ ہے کہ اس قسم کا ریفرنس تیار ہو گیا اور کسی سطح پر بھی اسے قانونی طور بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی گئی؟

اس سوال پر وقار اے شیخ نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد دور ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ طاقت کے دو اضلاع یعنی بنی گالہ اور اس کے دوسری طرف سے آنے والی کسی خواہش کے جواب میں کوئی صائب مشورہ دے سکے، یہی سبب ہے کہ غلطی پر غلطی ہوتی چلی جاتی ہے اور ہر آنے والے دن کسی نئی شرمندگی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے۔