کووڈ-19: کورونا وائرس اس قدر مہلک کیوں ہے؟
ایک معمولی سے وائرس نے ہماری زندگیوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ ہمارا پرانا معمول ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔
ماضی میں ہم نے اس سے قبل بھی وائرس کی وبا کے خطرات دیکھے ہیں تاہم کبھی کسی نئے وائرس یا فلو کی وجہ سے دنیا کا نظام اس طرح معطل ہو کر نہیں رہ گیا تھا۔
اس کورونا وائرس سے یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس میں ایسا خاص کیا ہے کہ جو ہمارے جسم کے لیے اور زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے؟
فریب دینے والا منفرد وائرس
ابتدائی مراحل میں یہ وائرس جسم کو فریب دے سکتا ہے۔ کورونا وائرس شاید بہت بڑی تعداد میں ہمارے پھیپھڑوں میں اور ہماری سانس کی نالی میں گردش کر رہے ہوں اور پھر بھی ہمارے جسم کا دفاعی نظام یہ سمجھ رہا ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر پال لہنر کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی کمال کا وائرس ہے، یہ آپ کی ناک کو ایک وائرل فیکٹری میں بدل دیتا ہے اورآپ پھر بھی سب کچھ ٹھیک محسوس کرتے ہیں۔‘
ہمارے جسم کے خلیے جب وائرس کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں تو انٹرفیرون کہلانے والے کیمیکلز کا اخراج شروع کردیتے ہیں اور یہ جسم کے لیے اور اس کے دفاعی نظام کے لیے ایک انتباہ ہوتا ہے۔
لیکن کورونا وائرس میں کمال کی صلاحیتیں ہوتی ہیں جن سے یہ کیمیکلز کے اخراج کے نظام کو معطل کردیتا ہے جو کسی بیرونی وائرس کی موجودگی کے بارے میں انتباہ کے نظام کو بند کردیتے ہیں۔
پروفیسر لہنر کہتے ہیں کہ ’یہ سب کام یہ اتنے اچھے انداز سے کرتا ہے کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ آپ بیمار ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ آپ لیبارٹری میں بیمار خلیوں کو دیکھیں گے تو یہ آپ کو بیمار یعنی انفیکٹڈ نہیں نظر آئیں گے لیکن اس کے باوجود اگر آپ اپنا ٹیسٹ کروائیں گے تو یہ خلیے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ انھیں انفیکشن ہے، اور یہ صرف ایک ’جوکر کارڈ‘ ہے جو یہ وائرس کھیل سکتا ہے۔
حملہ کر کے فرار ہوجانے والا قاتل وائرس
ہمارے جسم میں وائرس کی تعداد ہمارے بیمار محسوس کرنے سے ایک دن پہلے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس وقت سے پہلے ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جب کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو علاج کے لیے ہسپتال لے جانے کی نوبت آتی ہے۔
پروفیسر لہنر کہتے ہیں کہ ’یہ کمال کا ارتقائی حربہ ہے۔ آپ بستر پر نہیں جاتے، آپ باہر جاتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘
اس لیے یہ وائرس ایک ایسے ڈرائیور کی طرح ہے جو حادثے والی جگہ سے فرار ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس اپنے پہلے شکار کے مرنے یا بیمار نظر آنے سے کافی پہلے دوسرے شکار کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں ’وائرس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ‘ آپ مرتے ہیں۔ ’یہ ایک قسم کا حملہ کر کے فرار ہو جانے والا وائرس ہے۔‘
یہ سنہ 2002 کے سارس کورونا وائرس سے بالکل مختلف وائرس ہے۔ اُس میں جب کوئی متاثر ہوتا تھا تو وہ بہت زیادہ بیمار محسوس کرتا تھا، اس لیے انھیں قرنطینہ کرنا آسان تھا۔
یہ نیا ہے اس لیے ہمارے جسم تیار نہیں ہیں
کیا آپ کو پچھلی وبا یاد ہے؟ سنہ 2009 میں H1N1 تھا جسے سوائن فلو بھی کہا جاتا تھا۔
تاہم یہ اتنا زیادہ مہلک ثابت نہیں ہوا جتنا کہ خدشہ تھا کیونکہ لوگوں نے پہلے ہی اپنے آپ کو محفوظ بنانا شروع کر دیا تھا۔ نیا وائرس ان وائرسوں ہی سے بہت حد تک ملتا جلتا تھا جن کا ہمیں ماضی میں سامنا کرنا پڑا تھا۔
اب تک مزید چار انسانی کورونا وائرس آئے ہیں، جو سردی والے فلو جیسی عام علامتیں ظاہر کرتے ہیں
یونیورسٹی آف مانچسٹر کی پروفیسر ٹریسی ہسل کہتی ہیں کہ ’یہ بالکل نیا ہے، اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے خلاف مدافعت موجود ہے یا نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس نئے وائرس یعنی Sars-CoV-2 میں اسے ایک نیا نام دینے کے لیے اس میں نیا پن یہ ہے کہ یہ ’آپ کے دفاعی نظام کے لیے بہت ہی حیران کن ہو سکتا ہے۔‘
پہلے سے جسم کے مدافعتی نظام کی تیاری کے فقدان کو یورپیینز کے امریکہ کے براعظموں میں چیچک کے وائرس کو لیے جانے کے واقعے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جس کے بہت ہی تباہ کن نتائج نکلے تھے۔
بوڑھے افراد کے لیے نئے سرے سے ایک دفاعی نظام تیار کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ان کا دفاعی نظام پہلے ہی سست ہو چکا ہوتا ہے۔
نئے انفیکشن کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے اپنے جسم کی غلط اور درست آزمائشوں کے ذریعے تربیت کی جاتی ہے۔
لیکن زیادہ عمر تک پہنچنے کے بعد ہمارے جسم میں T خلیوں کا مجموعہ کم ہوتا جاتا ہے، جو کہ دفاعی نظام کا بنیادی جُزو ہوتا ہے، اس لیے پھر اس کے نہ ہونے سے یا کم ہو جانے سے کورونا وائرس کے خلاف دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ جسم میں منفرد اور غیر متوقع اثرات پیدا کرتا ہے
کووِڈ 19 کا آغاز پھیپھڑوں کی بیماری کے طور پر ہوتا ہے (حالانکہ اس دوران بھی عجیب و غریب احساس ہوتا ہے) اور پھر اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن کے پروفیسر ماؤرو گیاکا کہتے ہیں کہ کووِڈ 19 کے کئی پہلو اس بیماری کے لیے منفرد ہیں۔ ’یقیناً یہ دیگر عمومی قسم کی وائرل بیماریوں سے مختلف ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ وائرس پھیپھڑوں کے خلیوں کو تباہ کرنے سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، یہ اُن خلیوں کے معمول کے نظام کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ خلیوں کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے میں گُھلنا ملنا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے مجموعی نظام میں خرابی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ خرابی دیر تک برقرار رہتی ہے۔
پروفیسر گیاکا کہتے ہیں آپ فلو کے بعد پھیپھڑوں کی ایک قسم کی ‘مکمل تخلیقِ نو’ کر سکتے ہیں، لیکن کووِڈ 19 کے ساتھ ’ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت ہی مخصوص قسم کا انفیکشن ہے۔‘
کووِڈ 19 کے دوران خون کے لوتھڑے بہت ہی عجیب قسم کے ترچھے انداز سے بننا شروع ہو جاتے ہیں جس کے بارے میں کئی ڈاکٹروں نے اپنی کہانیاں بیان کی ہیں کہ وہ مریض کا صحیح علاج ہی نہیں کرسکے کیونکہ خون کے لوتھڑوں کی وجہ سے رگیں بند ہونا شروع ہو گئیں۔
کنگز کالج لندن کی پروفیسر بیورلی ہنٹ کہتی ہیں کہ کووڈ سے متاثرہ بعض مریضوں میں لوتھڑے بنانے والے کیمیکلز خون میں معمول کی حد سے ’200 فیصد، 300 فیصد یہاں تک کہ 400 فیصد‘ زیادہ مقدار میں دیکھے گئے۔
وہ ایک جریدے ’اِن سائیڈ ہیلتھ‘ میں کہتی ہیں: ’ایمانداری کی بات ہے کہ اپنے اتنے لمبے کیریئر میں نے اتنے سارے مریضوں کے گروپ کو اتنے زیادہ گاڑھے خون کے ساتھ نہیں دیکھا۔‘
یہ پورے جسم پر اثر کرنے والی کیفیت غالباً سیلولر ڈور وے کی وجہ سے ہوتی ہے جہاں ہمارے خلیوں کو متاثر کرنے کے لیے وائرس ٹہلتا ہوا بڑھتا چلا جاتا ہے، جسے ACE2 ریسیپٹر کہا جاتا ہے۔
یہ خون کی رگوں، جگر، گردوں اور پھیپھڑوں سمیت ہمارے جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے۔
یہ وائرس بعض متاثرین میں سوزش پیدا کردیتا ہے جس سے دفاعی نظام معمول کی حد سے زیادہ فعال ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے نقصان دہ اثرات سارے جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔
اور ہمارا موٹاپا حد سے زیادہ ہوتا ہے
اگر آپ موٹے ہیں تو پھر کووِڈ آپ کے لیے اور بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ ایک موٹی کمر آپ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ پہنچا سکتی ہے یا ہلاک کر سکتی ہے۔ یہ بہت ہی غیر معمولی بات ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر سر سٹیون او رائیلی کہتے ہیں کہ ’اس کا جو موٹاپے سے تعلق دیکھا گیا ہے وہ دوسری وائرل انفیکشن بیماریوں میں دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ پھیپھڑوں کی دیگر بیماریوں کے ہوتے ہوئے موٹے افراد عموماً بدتر ہونے کے بجائے، بہتر مدافعت رکھتے ہیں۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ اس (کووِڈ) کے لیے بہت ہی مخصوص بات ہے، یہ شاید فلو کی وبا کے دوران بھی ہوتا ہے البتہ عام فلو میں نہیں ہوتا۔’
موٹاپے کی وجہ سے جسم میں چربی جمع ہوجاتی ہے، خاص کر جگر جیسے اعضا میں، جس سے میٹابولِک نظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے، جو کورونا وائرس سے مل کر اور زیادہ خرابی پیدا کرتا ہے۔
موٹے مریضوں کے جسم میں شدید قسم کی سوزش پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اور پروٹین سے خون کے لوتھڑے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔