خوش قسمت ہے وہ سرکار جسے نئے خیالات سے عاری پھٹیچر حزبِ اختلاف میسر ہو اور خوش قسمت ہے وہ اپوزیشن جسے فارغ الدماغ و سیاسی نابلوغت سے بھرپور حکومت کا سامنا ہو۔
پہلے میں سمجھتا تھا کہ ایسی سرکار و حزب اختلاف کا وجود اس ملک کی بدقسمتی کا نتیجہ ہے۔ مگر اب کسی نے بتایا کہ اس میں سے کچھ بھی اصلی نہیں۔
روبوٹکس کا یہ کارخانہ بہت محنت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ہر روبوٹ پروگرامڈ ہے کہ کتنے قدم چلنا ہے، کیا کیا کام کرنا یا نہیں کرنا، کس ہدایت پر عمل کرنا ہے اور کتنا عمل کرنا ہے۔
نئی جنریشن (نسل) کے ان روبوٹس کے لیے نہ صرف خوش کلامی و بد زبانی، گالیوں کی ورائٹی، نت نئے خوشامدی رنگوں اور ہر ہارس پاور کے دماغوں کی پروگرامنگ کی گئی ہے بلکہ کس حد تک آگے جا کر کتنے ڈگری کا یوٹرن لینا ہے یا پھر ایک سیدھ میں چلتے چلتے سکریپ کا حصہ بن جانا ہے۔ یہ سب کچھ ایک پرفیکٹ روبوٹ سازی کا لازمی کمپوننٹ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ روبوٹ سازی کی ٹیکنالوجی کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ آج کے روبوٹ سازوں کی ہنرمندی چار عشرے قبل کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔
بالخصوص کوالٹی کنٹرول حیران کن حد تک بین الاقوامی معیار چھو رہا ہے۔
مثلاً تیس چالیس برس پہلے تک اسی کارخانے میں جو روبوٹ تیار ہوتے تھے، دور سے دیکھنے پر وہ بھی انسان معلوم ہوتے تھے مگر جیسے ہی قریب آتے تو اپنے سپاٹ چہرے، مشینی لہجے اور چند ہی باتیں گول گول دھرانے اور آنکھوں اور ہاتھوں کی مکینیکل کھلونے جیسی حرکات و سکنات کے سبب ایک معمولی شخص کو بھی فوراً ہی پتا چل جاتا تھا کہ یہ انسان نہیں مشین ہے۔
لیکن آج اسی کارخانے میں تیار ہونے والے روبوٹس کی کوالٹی ہر اعتبار سے اتنی بہتر ہو گئی ہے کہ جہاں چند انسان کھڑے ہوں وہاں یہ پہچاننا قدرے مشکل ہے کہ ان میں روبوٹس کتنے ہیں یا سب ہی روبوٹس ہیں۔
پہلے کے برعکس اب ہر روبوٹ کا لہجہ الگ الگ ہے۔ پہلے یہ صرف اردو اور انگریزی ایک ہی طرح کے سپاٹ لہجے میں بول سکتے تھے۔ اب ہر روبوٹ کو نہ صرف الگ الگ لہجہ دیا گیا ہے بلکہ ان کی پروگرامنگ میں علاقائی زبانوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
روبوٹکس کی مقامی لیبارٹری میں روبوٹس کی نئی نسل کے لیے الگورتھم کے ساتھ پروگرامڈ گفتگو کے جو چِپ تیار کیے گئے ہیں وہ نہ صرف سیاسی و اقتصادی اور مذہبی معاملات پر چھوٹی موٹی منطقی بحث کے بھی قابل ہیں بلکہ اہم معاملات پر اپنے کنٹرولر یا ہینڈلر کے خیالات کو اپنی آواز میں پروسس کر کے ان کے اظہار کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔
سامنے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ کسی اوریجنل (خود کے) خیالات والے انسان سے گفتگو کر رہا ہے۔ یہ روبوٹ اپنے لہجے کو دھیما یا اونچا رکھنے اور اسے تلخ و شیریں کرنے کے قابل ہیں۔ حتیٰ کہ وہ طنز و مزاح اور فقرے بازی کی صلاحیت سے بھی لیس کیے گئے ہیں۔
پرانی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار ہونے والے روبوٹس کی کھال ایک تو بہت موٹی تھی بلکہ اس کی بناوٹ میں نفاست کی بھی کمی تھی۔ مگر آج ان کی بیرونی سطح پر جو ربڑ منڈھا جاتا ہے وہ ہو بہو انسانی کھال جیسا مہین و نازک ہے جس پر مصنوعی روئیں بھی لگائے گئے ہیں۔
پہلے اس صنعت کے لیے لگ بھگ ستر فیصد خام مال درآمد ہوتا تھا ۔اب خدا کے فضل سے پچاسی فیصد خام مال مقامی طور پر دستیاب ہے۔ اور اب ہم بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے والی یہ قابلِ فخر صناعت و ہنرمندی محدود پیمانے پر برآمد کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔
روبوٹس کی جدید و مشینی ذہانت و خودمختار افعال ادا کرنے کی صلاحیت سے لیس اس سکستھ (چھٹی) جنریشن کھیپ کی سب سے بڑی مارکیٹ سیاست، ذرائع ابلاغ اور تعلیم جیسے شعبے ہیں۔
یہ کھیپ اس نئی جنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے جسے عرفِ عام میں ہائبرڈ، کائنیٹک یا ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔
یہ جنگ وہی اسٹیبلشمنٹ جیت سکتی ہے جس کے پاس اپنی روبوٹک حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت سے لیس اقتصادی و تعلیمی و مذہبی ماہرین کی ایک بھاری تعداد موجود ہو تاکہ وہ ان سب کی مدد سے ایک ایسا بلند آہنگ میکانکی بیانیہ تشکیل دے سکے جو فطری انسانی بیانیے کو اپنے قبضے و قابو میں رکھ سکے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہم نے یہ ہدف بہت حد تک حاصل کر لیا ہے۔ اب ہم بے فکری سے ترقی کر سکتے ہیں۔