انڈیا میں دلی کے ایک سکول میں پڑھنے والی 16 سالہ لڑکی کی اپنی ہی کلاس میں پڑھنے والے ایک لڑکے سے گہری دوستی ہو گئی۔ لیکن انھیں جلد احساس ہو گیا کہ ان کا یہ رشتہ دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے۔
لڑکی کے مطابق لڑکے نے انھیں اپنی برہنہ تصاویر بھیجنے پر مجبور کیا۔ لڑکی کو کچھ عرصے بعد یہ رشتہ ختم کرنا پڑا۔
سکول مکمل کرنے کے بعد لڑکی 2014 میں تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک چلی گئی۔ لیکن لڑکے نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ ان سے ملنے برطانیہ پہنچ گیا۔ اس کے گھر گیا اور لڑکی کے مطابق انھیں جسمانی طور پر نقصان پہنچایا۔
لڑکی نے اس بارے میں مقامی پولیس کو شکایت کر دی۔
برطانیہ کی ایک مجسٹریٹ عدالت نے 2017 میں لڑکے کو قصور وار ٹھہرایا اور اسے لڑکی سے کسی بھی طرح کا رابطہ کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے لڑکے کو اس شہر میں داخل ہونے سے بھی روک دیا جہاں وہ دو سال سے مقیم تھی۔
سوشل میڈیا کے ذریعے بدلہ
اکتوبر سے نومبر 2019 کے دوران لڑکی کو معلوم ہوا کہ لڑکے نے ان کی کچھ ذاتی تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر پوسٹ کر رکھی ہیں۔
یہ تصاویر اس لڑکی نے 16 سال کی عمر میں لڑکے کو بھیجی تھیں۔
لڑکی نے انڈیا کے دارالحکومت دلی کی سائبر پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تصاویر ہٹانے کو بھی کہا۔
وہ لڑکی اب 24 سال کی ہیں۔ انھوں نے دلی ہائی کورٹ میں بھی درخواست دی اور کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مبینہ طور پر شیئر کیے جانے والے یو آر ایل کو ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایسے 50 سے زیادہ یو آر ایل ہیں جہاں ان کی ذاتی تصاویر ہیں۔
سوشل میڈیا سائٹس نے کیا کہا؟
اس معاملے میں رواں سال جولائی میں انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب نے عدالت کو بتایا کہ یو آر ایلز کو ہٹا دیا گیا ہے لیکن تصاویر اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں کیونکہ دوسرے بہت سے صارفین نے انھیں دوبارہ اپ لوڈ کیا ہے۔
یہاں کمپنیوں کا مطلب یہ تھا کہ جب ملزم نے لڑکی کی ‘قابل اعتراض’ اور ذاتی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالیں تو وہ تصاویر بہت سارے لوگوں تک پہنچ گئیں۔ بہت سے لوگوں نے انھیں ڈاؤن لوڈ کیا اور بعد میں انھیں دوبارہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا۔
اس پر دلی ہائی کورٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قابل اعتراض مواد کو روکنے کے معاملے کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ اس کو مزید پھیلنے سے بچایا جاسکے۔
عدالت نے واضح کیا کہ پلیٹ فارمز کو معلومات ملنے کے بعد غیر قانونی مواد کو ہٹانا ہو گا۔
عدالت نے کہا کہ ‘فیس بک اور گوگل کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ پہلے ہٹائے گئے یو آر ایل سے ملتے جلتے مواد کو ہٹانے کے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔’
دلی ہائی کورٹ نے گوگل اور فیس بک سے لڑکی کی ان قابل اعتراض تصاویر ہٹانے کا حکم دیا جنھیں بہت سارے صارفین نے ان کی رضامندی کے بغیر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کیا ہے۔
پولیس کو کارروائی کا حکم
اس کے ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ پولیس ان لوگوں کی نشاندہی کر کے کارروائی کرے جو قابل اعتراض مواد دوبارہ اپ لوڈ کرتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ انسٹاگرام اور گوگل کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ان کے پلیٹ فارم پر چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق کوئی مواد موجود نہ ہو۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار سے متعلق قابل اعتراض مواد بچوں کے جنسی مواد کے دائرے میں آتا ہے کیونکہ اس وقت اس لڑکی کی عمر 16 سال تھی۔
عدالت نے پولیس اور ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ اسے قومی جرائم ریکارڈ بیورو کو بھیجیں جو کہ آن لائن سائبر کرائم رپورٹنگ کی روک تھام کا ادارہ ہے تاکہ وہ بھی اس مواد کو ہٹانے کے لیے اپنی طرف سے اقدامات کریں۔
دوبارہ فوٹو اپ لوڈ کرنے والوں کی شناخت کیسے ہوگی؟
جو لوگ کسی بھی تصویر یا ویڈیو کو دیکھتے ہیں، وہ اسے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور پھر دوبارہ اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی شناخت کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا کتنا آسان یا مشکل ہو گا اور اس سے یہ مسئلہ کس حد تک حل ہوسکے گا؟
اس بارے میں سائبر ماہر نکھل پہوا کہتے ہیں کہ زیادہ تر کمپنیوں میں سوشل میڈیا صارفین کے فون نمبر ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ فیس بک اور گوگل اکاؤنٹ بنانے کے لیے ای میل یا موبائل نمبر استعمال کرتے ہیں۔
اس سے تفتیشی ایجنسیوں کو تصاویر اپ لوڈ کرنے والوں کی شناخت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پہوا کا کہنا ہے کہ کمپنیوں سے یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد پولیس کو موبائل فون کمپنیوں سے مدد لینا ہو گی۔ اس طرح ان کی شناخت کر کے کارروائی کی جا سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اگر اس معاملے میں کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی ہو گی اور کسی کو گرفتار کیا جائے گا تو اس سے معاشرے میں ایک اہم پیغام پہنچے گا۔
’ایسی صورتحال میں لوگ کوئی بھی تصویر یا ویڈیو دوبارہ اپ لوڈ کرنے سے پہلے سوچیں گے لہٰذا اس لڑکی کو انصاف ملنا بہت ضروری ہے۔‘
سائبر قوانین کی ماہر ڈاکٹر کرنیکا سیٹھ، جو گذشتہ دو دہائیوں سے اس طرح کے معاملات میں متاثرین کی مدد کر رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات سے نمٹنا ممکن ہے اور اس قانون میں اس کا حل موجود ہے۔ شرط یہ ہے کہ متاثرین ایسے وکیل کے پاس جائیں جس کو اس طرح کے معاملات حل کرنے کا تجربہ ہو۔
تکنیکی اور قانونی حل
ڈاکٹر کرنیکا سیٹھ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شکایت لے کر عدالت جاتا ہے تو پھر عدالت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ شکایت ملتے ہی قابل اعتراض مواد فوری طور پر ہٹائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے بہت سارے معاملات ہو چکے ہیں۔ اگر شکایت کنندہ کہتا ہے کہ ایسی ہی ایک اور ویڈیو یا تصویر دوبارہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کر دی گئی ہے تو عدالت جائے بغیر ہی اس پلیٹ فارم کو اس مواد کو ہٹانا ہو گا۔
اس معاملے میں ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر کرنیکا سیٹھ نے بتایا کہ بہت سارے تکنیکی ٹولز موجود ہیں جیسے ایک ٹول ’ڈی این اے فوٹو ہیش میکانزم‘ ہے۔ جس طرح ہر پروڈکٹ میں بار کوڈ ہوتا ہے، ڈی این اے فوٹو ہیش میکانزم بھی اسی طرح کام کرتا ہے۔
تصویر کی ایک ہیش ویلیو بن جاتی ہے۔ اگر یہ ہیش ویلیو چلتی ہے تو وہ تصویر انٹرنیٹ پر کہیں بھی دستیاب ہے۔ ڈاکٹر کرنیکا کے مطابق اس مواد کو گردش یا سرکولیٹ کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔
چائلڈ پورنو گرافی روکنے کے لیے کتنی سنجیدگی پائی جاتی ہے
فیس بک نے ایک حلف نامے میں عدالت کو بتایا کہ اس نے چائلڈ پورنوگرافی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں گمشدہ اور استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کے قومی مرکز یا این سی ایم ای سی کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی شامل ہے۔
این سی ایم ای سی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو لاپتہ بچوں کی تلاش کرنے، بچوں کے جنسی استحصال اور ریپ روکنے کے لیے کام کرتی ہے۔
سوشل میڈیا کمپنی نے کہا کہ این سی ایم ای سی نے ایک آن لائن فورم ‘سائبر ٹپ لائن’ یعنی فون سروس قائم کی ہے جہاں انٹرنیٹ پر مشتبہ چائلڈ پورنو گرافی کو رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ جب بھی وہ اپنے پلیٹ فارم پر چائلڈ پورنوگرافی کی نشاندہی کرتے ہیں تو فوراً ہی اس مواد کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
گوگل نے ایک حلف نامہ داخل کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ یوٹیوب پر چائلڈ پورنوگرافی یا بچوں کو جنسی طور پر ہراسانی سے متعلق مواد سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔
گوگل نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایسے مواد کی ذاتی طور پر اطلاع دیتا ہے تو اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔
گوگل نے کہا کہ اس نے ایک قابل اعتماد ’فلیگر پروگرام‘ بھی تشکیل دیا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص، سرکاری ایجنسی یا غیر سرکاری تنظیم یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کی اطلاع دے سکتی ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ انسٹاگرام اور گوگل کے ذریعے دائر حلف ناموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے قابل اعتراض مواد ہٹانے کے لیے مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹولز کا استعمال کر رہے ہیں۔
سائبر ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں چائلڈ پورنوگرافی کو روکنے کے لیے اپنی جانب سے پوری کوشش کر رہی ہیں لیکن انھیں مزید ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
نکھل پہوا کا کہنا ہے کہ چائلڈ پورنو گرافی سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی گئیں ہیں لیکن اس معاملے میں ابھی تک یہ ٹیکنالوجی معیاری نہیں ہے اور اس میں وقت لگے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر روز اربوں گھنٹوں کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہیں، اس لیے اس سے سو فیصد نمٹنا مشکل ہے۔ تاہم اس کی اطلاع ملتے ہی اسے ہٹانا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ترجیح ہونی چاہیے۔
سائبر قانون کی ماہر ڈاکٹر کرنیکا سیٹھ کا کہنا ہے کہ ‘انٹرنیٹ پر ایک کِلپ بہت تیزی سے وائرل ہوتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں متاثرہ انسان کو بہت زیادہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف تیزی سے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ان پلیٹ فارمز کے نمائندے ہونے چاہییں۔
وہ کہتی ہیں ‘شکایت کا خود کار یا آٹو میٹڈ جواب آنا کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی ذمہ دار ہونا چاہیے جو شکایت پر فوری کارروائی کرسکے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی نگرانی آسان نہیں لیکن یہ بہت حد تک ٹیکنالوجی اور قانون کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔