جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں۔ میر تقی نے کسی عالم انبساط میں یہ غزل لکھی ہو گی ورنہ حقیقی روزگار ان کا درو و اندوہ کی تالیف تھا۔ ہم آپ ہی کی طرح فن کار کی بھی دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فن کار کی ایک آنکھ میں حیرت اور دوسری میں گیان کا بسیرا ہوتا ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے کوئے مجاز کی ریزگاری شمار کرنے والے نامرادان محبت کو بہ نظر حقارت دیکھتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ جادہ سلوک کے مسافر دیوار کے پار اور صدیوں سے پرے دیکھتے ہیں۔ ان دنوں ہم اپنی تاریخ کا ایک معجزہ دیکھ رہے ہیں۔ آئندہ ہفتوں، مہینوں کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ایک راستہ استخلاص وطن کی طرف جاتا ہے اور ایک پگڈنڈی طول شب غم کے اندھیروں میں اترتی ہے۔ سوتے جاگتے کی اس ادھیڑ بن میں الف لیلہ کے ابوالحسن کی ملاقات دیس کے تین پیران فرتوت سے ہوئی۔ تینوں 75اور 80کے پیٹے میں ہیں۔
ایک سفرنامہ نگار، ایک شاعر اور ایک زاہد بے آب و گیاہ ہے۔ ایک کو بابائے قوم کے مرقد پر قوم کی فریاد بلند کرنے پر صدمہ پہنچا ہے۔ دوسرے کو خلق خدا کے اجتماع میں نریندر مودی کی شبیہ دکھائی دے رہی ہے۔ تیسرے کو نشاط نغمہ و مے کے امکان سے خفقان ہو رہا ہے۔ عبدالمجید سالک نے کہیں اخبار میں حسن نظامی پر چوٹ کر دی۔ کچھ روز بعد کسی تقریب سے ملاقات ہوئی تو دلی کے خواجہ نے پوچھا، ’سالک صاحب، متانت کے لئے کس عمر کو پہنچنا ضروری ہوتا ہے؟‘ ہم تو اپنے اصحاب دانش سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتے۔ ابراہیم ذوق نے ہم ایسوں کے لئے لکھا تھا، اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے۔
ہم نے طرفہ طبیعت پائی ہے۔ سید برہان الدین سے روایت ہے کہ 16دسمبر 1971کی شام جب قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہوا، ٹیلی ویژن پر ایک صاحب کا فون موصول ہوا۔ نہایت طیش کے عالم میں اردو تلفظ کی کسی غلطی کی نشاندہی کر رہے تھے۔ ستم ظریف کو ادراک نہیں تھا کہ ربع صدی پہلے اردو زبان سے شروع ہونے والا قضیہ جسد قومی کو سر تا پا کاٹتا ہوا نکل گیا ہے۔ اپنی تو خیر مجال نہیں لیکن مورخ ضرور لکھے گا کہ جہاں عدل کا اعتبار داؤ پہ تھا، وہاں ایک اداکارہ کے بیگ میں رکھے مائع طرب انگیز کے دو جرعوں کی جواب دہی کا ہنگامہ تھا، جہاں صحافت کے نرخرے پر زورآور کا گھٹنا رکھا تھا، وہاں بسکٹ کے اشتہار میں رقص کی جھلک پر نوحہ خوانی ہو رہی تھی، جہاں مطلق العنان اقتدار کے خمار سے قوم کی شرمناک ہزیمت برآمد ہوئی تھی، وہاں اہل منبر و محراب نے پیر مغاں کی دکان پر دھاوا بول رکھا تھا۔ جہاں غیر مستعمل اقامہ پر قوم کی تائید پامال ہو رہی تھی، وہاں اہل حکم کے ذرائع اور اثاثوں میں بے کراں خلیج پر مکمل سناٹا تھا۔ واقعے اور خبر میں اقتدار کے دخل کا یہ عالم ہو تو وطن کی سلامتی، ترقی اور احترام مانگنے والوں کے لئے مفروضہ غداری کا الزام ہی باقی بچتا ہے۔ تاریخ میں ایسی انگنت کہانیاں ہیں۔ اگست 1991ء کی ایک حکایت سنیے۔ اس کا وطن عزیز کے حالات حاضرہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ آپ اگر کھینچ تان کے اسے مفرور بنارسی ٹھگوں کی نام نہاد جمہوری تحریک سے جوڑنا چاہیں تو یہ سراسر آپ کی ذاتی فتنہ انگیزی ہو گی۔
1970 میں سوویت یونین کی معیشت امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ گھوڑے ہتھیار کی کمی نہیں تھی۔ ریاستی جبروت ایسا کہ شہری خواب میں بھی منظور شدہ ترانے گنگناتے تھے۔ رقبے میں روس اور آبادی میں چین دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک تھے جہاں سرخ اقتدار کا پھریرا لہرا رہا تھا۔ آدھے یورپ میں کٹھ پتلی حکومتیں بٹھا رکھی تھیں۔ لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ میں آرٹ، کلچر، امن کے نام پر استعماری استحصال کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں۔ آہنی پردے میں چھپے حقائق کا المیہ مگر یہ تھا کہ ہمہ گیر اقتدار اور جواب دہی سے ماورا بندوبست کے عصائے سلیمانی میں دیمک لگ چکی تھی۔ حکومت کی عمل داری پر جمود طاری تھا، معیشت کے اشاریے آواز دیے بغیر ڈوب رہے تھے۔ قیادت کے نام پر Nomenklatura نام کے ایک عفریت نے چھاؤنی چھائی تھی۔ اس روسی اصطلاح کا ٹھیک اردو مترادف تو ممکن نہیں، ایسی اہلکار مقتدرہ سمجھ لیجئے جس نے قومی نصب العین کے تعین کی از خود ذمہ داری اٹھا رکھی ہو۔ مارچ 1985میں 74سالہ چرننکو کے انتقال کے بعد اقتدار میں آنے والے گورباچوف نے کریملن کی دیوار پر نوشتہ پڑھ لیا۔ معاشی اور انتظامی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مطلق اقتدار میں اصلاح نہیں ہوا کرتی۔ ایک اینٹ نکلتی ہے تو پوری محل سرا زمین بوس ہو جاتی ہے۔ 1990آتے آتے اقتدار کے تین منطقے نمودار ہو گئے۔ ایک طرف گھاگ منصب دار تھے، دوسری طرف منہ زور اور خود پسند بورس یلسن تھا اور بیچ میں گورباچوف پرانے بندوبست اور نئی صورت حال کی متصادم قوتوں میں پچھاڑیں کھا رہے تھے۔ اگست 1991میں گورباچوف کریمیا کے ساحلی مقام پر چھٹیاں منا رہے تھے کہ پیوستہ مقتدرہ کے آٹھ ارکان نے ہنگامی حالت کا اعلان کر کے خود کو قومی کمیٹی قرار دے دیا۔
18اگست کو باغی گروہ کے پانچ عسکری نمائندوں نے گورباچوف سے ملاقات کر کے اپنے اقدامات کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ وہی 12اکتوبر 99کی شام والا منظر تھا۔ گورباچوف نے صاف انکار کر دیا اور عملی طور پر قید کر لئے گئے۔ ادھر ماسکو میں ہزاروں افراد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہو گئے۔ بورس یلسن صاحب ایک ناکارہ ٹینک پر چڑھے آگ اگل رہے تھے۔ باغی گروہ کے فرستادہ ٹینک اور دستے معمولی تصادم کے بعد پیچھے ہٹنے لگے۔ تین افراد مارے گئے۔ بغاوت ناکام ہو گئی۔ 21اگست 1991کی صبح بکھرے بالوں کے ساتھ بغیر نکٹائی پہنے گورباچوف کریمیا سے آنے والی فلائٹ سے ماسکو ایرپورٹ پر اترے تو بغاوت ہی نہیں، خود سوویت ریاست کا بھی بولو رام ہو چکا تھا۔