رونی ہاویں‘ تے ول پر یننی کیوں ہاویں؟
شرمندگی وغیرہ جیسے الفاظ تو اب ہماری سیاسی لغت سے خارج ہو چکے ہیں۔ کسی کو نہ تو کسی بات پر شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی غلطی تسلیم کر کے دوسرے سے معذرت کرنے پر تیار ہے۔ بلکہ کسی دوسرے سے معذرت کرنا تو رہا ایک طرف‘ اب سیاست میں جھوٹ کا اتنا چلن ہو گیا ہے کہ سیاستدان جھوٹ بول بول کر کسی اور کو تو شاید بے وقوف نہ بھی بنا پائیں لیکن وہ خود اپنے ہی جھوٹ پر یقین کرنے کی منزل پر آ چکے ہیں۔ شروع میں احمد فراز کے فرزند سے کچھ اچھی امید تھی ‘اب وہ بھی نہیں رہی۔اب کراچی والا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ ابتدا تو کیپٹن صفدر اعوان نے کی۔ اب اس بات پر بضد ہونا کہ جمہوریت کی سربلندی کیلئے کی جانے والی نعرہ بازی مزارِ قائد کے آداب کے منافی نہیں تھی‘ مناسب نہیں ہے۔ اس بات کا ذکر تو سعید غنی نے بھی کیا کہ مزارِ قائد پر جو ہوا وہ اس مقام کے وقار کے شایان شان نہیں تھا اور اسے کسی صورت مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا‘ کیا وہ مناسب تھا؟ اگر پہلا کام نامناسب تھا تو دوسرا باقاعدہ نامناسب ترین تھا۔ خدا جانے ہماری سیاست کس مقام پر جا کر سانس لے گی اور کب اس میں بلوغت کا عنصر شامل ہو گا؟
حکومت کو اس سارے کھیل میں (اگر وہ واقعتاً اس کی ذمہ دار ہے) کیا حاصل وصول ہوا؟ اگر یہ حکومت نے کیا ہے(حکومت سے مراد عمران خان صاحب کی حکومت ہے) تو یہ اس کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت ہے اور اگر یہ کسی نے بالا بالا کیا ہے (جس کا امکان زیادہ نظر آ رہا ہے) تو پھر یہ حکومت کے لیے سبکی کے ساتھ ساتھ اپنی رِٹ پر غور کرنے کا مقام ہے۔ ویسے لفظ ”رِٹ‘‘ کے بجائے کئی زیادہ مناسب الفاظ بھی موجود ہیں لیکن نہ لکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس جگہ پر اپنی مرضی کا لفظ استعمال نہ کریں۔ بعض اوقات الفاظ کا مفہوم نکالنے کا اختیار قاری کے پاس بھی ہونا چاہیے۔
ایک دکاندار نے اپنے بولنے والے طوطے کا پنجرہ دکان کے باہر لٹکا رکھا تھا۔ طوطا راہگیروں سے سلام دعا لیتا رہتا تھا۔ یہ طوطا ویسے تو خاصا مہذب اور تمیزدار تھا لیکن خدا جانے اس کو ایک پڑوسی سے کیا بیر تھا کہ اسے دیکھتے ہی وہ باقی راہگیروں کے برعکس اچھے طریقے سے سلام دعا لینے اور حال چال پوچھنے کے بجائے گالیاں دینے لگ جاتا تھا۔ ایک روز اس پڑوسی نے تنگ آ کر طوطے کے مالک سے شکایت کر دی۔ طوطے کے مالک نے طوطے کو آئندہ اس حرکت سے منع کیا اور مہذب طریقے سے پیش آنے کا کہا۔ اگلے روز طوطے نے پھر وہی حرکت کی اور اسے دبے دبے گالیاں نکالیں۔ پڑوسی نے دوبارہ طوطے کے مالک کو شکایت لگائی۔ اس بار طوطے کے مالک نے نہایت سختی سے طوطے کو وارننگ دی اور کہا کہ اگر اس نے اس ہمسائے کو دوبارہ گالیاں دیں تو وہ اسے ذبح کر دے گا۔ اگلے روز جب وہ شخص وہاں سے گزرا تو طوطے نے اس کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے اور اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ اس شخص نے اس کایا کلپ پر بڑی حیرانی سے طوطے کی جانب دیکھا تو طوطے نے اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے اس کو مخاطب کیا اور کہنے لگا: ” استاد! توں سمجھ تے گیا ای ہوویں گا‘‘ (استاد ! آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے) تو قارئین ! ! آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ کچھ خود سے بھی سمجھ جایا کریں۔
فساد سارا یہ پڑا ہوا ہے کہ آئی جی کو علی الصبح چار بجے کس نے اغوا کیا تھا؟ مرکزی حکومت میں کوئی ماننے پر تیار ہی نہیں کہ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے پر بڑی سختی سے جمی ہوئی ہے کہ صوبے کی پولیس کے سربراہ کو رات دو بجے اٹھایا گیا اور چار بجے کہیں لے جایا گیا اور زور زبردستی سے ایف آئی آر درج کروا کر کیپٹن صفدر کو ہوٹل سے اٹھا کر تھانے لے جایا گیا۔ دروازہ توڑا گیا اور چادر و چار دیواری کو پامال کیا گیا۔ اس پر آئی جی سندھ سمیت کئی سینئر پولیس افسران نے کام چھوڑتے ہوئے چھٹی کی درخواستیں دے دیں جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ اوپر سے مزید خرابی یہ ہوئی کہ ایف آئی آر کا مدعی بذات خود ایک پرچے میں غالباً اشتہاری تھا اور اب اس پرچے میں ضمانت کروانے کے بعد لاپتہ ہے۔
دوسری طرف جو بیان ہو رہا ہے وہ بھی بہت سی مشکوک باتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ فریق ثانی کا بیان ہے کہ ہوٹل میں کیپٹن صفدر کے کمرے کے باہر موجود سادہ لباس والے کیپٹن صفدر کے ذاتی محافظ تھے اور بعد ازاں دروازے کا ہینڈل بھی ان کے انہی ذاتی گارڈز نے توڑا اور وہ اس کی سی سی ٹی وی کی فوٹیج بھی پیش کرتے ہیں۔ آئی جی سندھ اور دیگر سینئر پولیس افسران کی چھٹی کی درخواستوں کا متن بھی حرف بحرف ایک ہے اور وہ سب ایک ہی پرنٹر سے ٹائپ شدہ درخواستیں ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ساری ”احتجاجی چھٹی مہم‘‘ میں سندھ حکومت شامل ہے۔ ادھر سندھ پولیس کا بیان سامنے آیا ہے کہ کیپٹن صفدر کو دروازہ توڑ کر گرفتار نہیں کیا گیا دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی جب تیس منٹ تک دروازہ نہیں کھلا تو ہم نے نیچے استقبالیہ سے جا کر فون کیا اور انہیں باہر بلا کر گرفتار کیا۔
خرابی کا یہ تعین کرنا ہمارا کام نہیں کہ کس نے زیادہ کی اور کس کی جانب سے کم ہوئی ‘تاہم بادی النظر میں بھی جائزہ لیں تو اس میں حکومت کی جانب سے واضح مس ہینڈلنگ نظر آتی ہے اوراس عالم میں بھی جبکہ خود آرمی چیف نے بلاول بھٹو کو فون کر کے اس معاملے کی چھان بین کی یقین دہانی کروائی ہے سرکاری جگت بازی کا یہ عالم ہے کہ فیاض چوہان نہایت عامیانہ انداز میں انکشاف کرتے ہیں کہ کیپٹن صفدراور مریم نواز تو الگ الگ کمرے میں تھے۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ جو کام مرکزی حکومت کو کرنا چاہیے تھا وہ آرمی چیف نے کر کے یہ ثابت کیا کہ مفاہمت کیلئے جو قدم اسلام آباد کو اٹھانا چاہیے تھا وہ راولپنڈی سے اٹھایا گیا۔
اس سارے معاملے میں اگر ایک بات کا جواب مل جائے تو اس عاجز کے ذہن میں اٹھنے والے کئی سوالات کو جواب مل جائے گا کہ حکومت کی رِٹ کہاں ہے؟ اگر پرچہ درج کیا تھا تو پھر اس کا سارا نزلہ صرف کیپٹن صفدر پر ہی کیوں ڈالا؟ دیگر ملزمان کو تو ویسے ہی ایک طرف کر دیا جس طرح پانامہ لیکس میں صرف نواز شریف کو ہدف بنایا گیا اور باقی سارے ملوث ملزمان کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ مریم نواز شریف ببانگ دہل اعلان کرتی پھر رہی ہیں کہ کسی میں ہمت ہے تو مجھے پکڑ کر دکھائے۔ اس سے پہلے بھی نیب کی پیشی پر ایسی صورتحال پیش آ چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی تقریباً پوری اعلیٰ قیادت بمعہ تین عدد ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف بغاوت کا پرچہ از خود کہیں ڈر کے مارے چھپا ہوا ہے اور محمد زبیر تھانے کے باہر للکارے مارتا پھر رہا تھا کہ آؤ مجھے گرفتار کرو اور تھانے والے جواباً دروازہ بند کر کے ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔ حکومت میں اگر نبھانے کی سکت نہیں تو ایسے قدم ہی کیوں اٹھاتی ہے جو خفت اور بے عزتی کا باعث بنیں؟ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے کہ ایک خاتون نے رخصتی کے وقت روتی ہوئی دلہن سے کہا کہ ”رونی ہاویں‘ تے ول پرنینی کیوں ہاویں؟‘‘ یعنی اگر رونا ہی تھا تو پھر شادی کی ہامی کیوں بھری تھی؟ اگر حکومت میں پرچے نبھانے کے ”تپڑ‘‘ نہیں ہیں تو پھر خواہ مخواہ پہلے سے خراب عزت کو مزید کیوں خراب کرتی پھر رہی ہے؟ حکومت کی رِٹ تو اب بالکل مذاق بن کر رہ گئی ہے۔