کوئٹہ کے جلسے میں مریم کے آنسو
ایک بڑے نصب العین نے قوم کو ایک بار پھر ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ گوجرانوالہ اور کراچی کے بعد اتوار کی سہ پہر کوئٹہ میں بھی اس نعرے کی گونج تھی۔ 15نومبر کو پشاور میں بھی یہی پکار ہوگئی۔فیض یاد آئے ؎
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
بلوچستان پاکستان کا حساس ترین صوبہ سمجھاجاتاہے۔ یہاں قومی یکجہتی کے حوالے سے کچھ فالٹ لائنزموجود رہی ہیں‘ لیکن بلوچستان کی سیاسی قیادت اور عوام کی غالب اکثریت اپنی شکایات کا ازالہ وفاق ہی میں ڈھونڈتی ہیں۔ کوئٹہ میں اتوار کا جلسہ اس حقیقت کا ایک اور ثبوت تھا۔ سردارعطااللہ مینگل1973ء کے اوائل میں بلوچستان حکومت کی برطرفی کا زخم لئے‘ سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت آئے تھے اور یہاں وکلا سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کا مشرقی حصہ ہوسِ اقتدار کی نذر ہوا ہے مگر باقی ماندہ پاکستان کی حفاظت ہم سب مل کر کریں گے۔ نومبر1997ء میں جب چیف جسٹس ‘ وزیر اعظم کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے تھے اور یوں لگتا تھا پرائم منسٹر ہائوس کا مکین ‘صبح گیا کہ شام گیا۔ وزیر اعظم لاہور اسلام آباد موٹروے کے افتتاح کے لیے نکلے ‘ تو ان کی گاڑی کوئی اور نہیں ‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل ڈرائیو کررہے تھے۔سیاسی جماعتیں‘ سیاستدان اور سیاسی عمل مختلف علاقوں اور قومیتوں میں قربت کا باعث بنتے ہیں۔2دسمبر2017ء کو عبدالصمد اچکزئی کی چوالیسویں برسی پر نوازشریف ‘ محمود خان اچکزئی کے مہمانِ خصوصی تھے۔ چار ماہ پہلے (28جولائی کو)وہ وزارتِ عظمیٰ سے معزول ہوچکے تھے۔ کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے لیڈر کا خیر مقدم بے پناہ تھا۔ یہاں پختون بھی تھے اور بلوچ بھی ۔کوئٹہ میں بارود بھری گاڑی او رخود کش حملہ آوروں کی موجودگی کی خبریں آرہی تھیں‘ ہسپتال ہائی الرٹ پر تھے۔ نوازشریف خطاب کیلئے آئے تو بلٹ پروف سکرین ہٹاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: میرے عوام اور میرے درمیان یہ رکاوٹ بھی کیوں؟ میری حفاظت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پختون قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کہہ رہے تھے: پاکستان 20کروڑ عوام کا ملک ہے‘ ہم سب کا ملک ہے‘ ہمیں پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جنگ لڑنا ہے۔بھائیوں میں گلے شکوے ہوتے ہیں جنہیں مل بیٹھ کر طے کرلیا جاتا ہے۔ پرامن اور جمہوری پاکستان کی جدوجہد میں پشتون نوازشریف کے ساتھ ہیں۔
اتوار کی سہ پہر ‘ایوب سٹیڈیم میں ”چاروں صوبوں کی آواز‘ مریم نوازمریم نواز‘‘ کے نعروں کی گونج تھی(محترمہ بے نظیر بھٹو ”چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ ہوتی تھیں) مریم ہفتے کی دوپہر کوئٹہ پہنچ گئی تھیں۔ اس سے ایک روز قبل ‘ وہ لاہور کے فیصل چوک میں بلوچ طلبہ کے دھرنے میں بھی ہوآئی تھیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ‘ یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلبہ کے لیے مخصوص کوٹے اور وظائف کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے۔ ملتان میں ان کی چیخ پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی تو وہ پیدل مارچ کرتے ہوئے لاہور پہنچ گئے۔ کراچی کی طرح کوئٹہ بھی مریم کے لیے چشم براہ تھا۔ یہاں انہوں نے بڑا مصروف دن گزارا ۔ مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری سے ملاقات کے بعد جعفر خان مِند وخیل کے ہاں پہنچیں۔ مندو خیل یہاں مسلم لیگ(ق) کے صوبائی صدر تھے‘ اب مسلم لیگ(ن) میں شمولیت کو وہ اپنے گھر میں واپسی قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ چودھری شجاعت حسین کی اجازت سے مسلم لیگ(ن) میں شامل ہورہے ہیں کہ چودھری صاحب کی صحت اب سرگرم سیاست کی متحمل نہیں۔ جعفر خان مندو خیل نے مریم کو بلوچستان کا روایتی لباس بھی پیش کیا۔ ایوب سٹیڈیم کے جلسے میں بھی وہ بلوچستان کاروایتی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ ایک اخبار نویس کے سوال پر کہ اس سے وہ کیا میسج دینا چاہتی ہیں؟ مریم کا کہنا تھا: یہ کہ جتنی محبت مجھے پنجاب سے ہے ‘ اس سے زیادہ بلوچستان سے ہے۔ کراچی کے جلسے میں ‘ خواتین کے انکلوژر میں سب سے پہلے پہنچنے والی صغراں بی بی کا کہنا تھا کہ وہ مریم کیلئے آ ئی ہیں۔ بیوہ خاتون محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے اور اب مہنگائی کے ہاتھوں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ کوئٹہ میں بھی مریم خواتین کے نرغے میں تھیں۔ لیکن ان کا دکھ مختلف تھا۔ ان میں ادیبہ قمبرانی بھی تھیں۔ اس کی کہانی بیان کرتے ہوئے مریم کا کہنا تھا : مجھے گرفتار کیا گیا‘ میری آنکھوں میں آنسو نہ آئے۔ میرے والد قید ہوئے‘ میری آنکھوں میں آنسو نہ آئے میری والدہ لندن میں اس حالت میں اگلے جہان چلی گئیں کہ میں جیل میں تھی۔ میں پھر بھی نہ روئی‘ لیکن ادیبہ قمبرانی نے مجھے رلادیا ہے۔ اس کے تین جوان بھائی کئی سال سے غائب ہیں۔ ادیبہ نے موبائل میں تینوں کی تصاویر بھی دکھائیں۔ کچھ اور خواتین بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے کتبے اٹھائے ہوئے تھیں۔ ایک کتبہ مریم نے بھی تھام لیا اور ان کے ساتھ قطار میں کھڑی ہوگئیں۔ مریم کو کوئٹہ (اور بلوچستان ) کے حوالے سے کیا کچھ یاد آیا ۔سوئی فیلڈز پر ڈاکٹر شازیہ کی کہانی ‘ اکبر بگٹی کا المیہ‘ جس نے بلوچستان میں آگ لگا دی اور دشمنوں کو اس بہانے بلوچستان کے بعض نوجوانوں کو پاکستان سے بر گشتہ کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے والد قاضی عیسیٰ کو بھی یاد کیا۔ قائد اعظم کے معتمد رفیق جو قائد اعظم کے حکم پربمبئی میں وکالت چھوڑ کر کوئٹہ لوٹ آئے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ کو منظم کر سکیں ۔اور سٹاف کالج کوئٹہ میں قائد اعظم کا خطاب جس میں بابائے قوم نے حلف کی پاسداری اور سول سپریمیسی کی تلقین کی تھی۔گلگت بلتستان میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں مصروفیت کے باعث بلاول بھٹو نے ایوب سٹیڈیم میں حاضرین سے خطاب کے لیے ویڈیو لنک کو وسیلہ بنایا۔ نوجوان لیڈر کا کہنا تھا : تقسیم واضح ہو چکی۔ ایک طرف”سلیکٹڈ‘‘ حکومت اور اس کے سہولت کار ہیں اور دوسری طرف ساری قوم۔ تمام جماعتیں جو آئین کی کارفرمائی اور ووٹ کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا: ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ ہمیں قومی سلامتی کیلئے ان کی اہمیت کا بھی اعتراف ہے لیکن ان سے گلہ ہو گا تو اس کا اظہار بھی کریں گے۔ وہ اس کے لیے آنکھ کی پتلی اور پلکوں کو مثال لائے۔ پلکیں پتلی کی حفاظت کرتی ہیں لیکن کوئی بال آنکھ کے اندر آجائے اس پر آنکھ کا مضطرب ہونا فطری ہے۔اختر مینگل کا کہنا تھا: بلوچستان کے غیور عوام جمہوریت کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے‘ لیکن جمہوریت آئی تو بلوچستان اس میں اپنے جائز حصے سے محروم رہا۔یہاں انہوں نے اشعار کو وسیلہ بنایا: جب چمن کو لہو کی ضرورت پڑی/سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی۔ پھر بھی ہم سے یہ کہتے ہیں اہلِ چمن/یہ ہمارا چمن ہے تمہارا نہیں۔
محمود خاں اچکزئی نے اللہ اکبر کے نعرے لگوائے اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعتراف اور کسی بھی انسان کی غلامی سے انکار کا اعلان ہے۔ پروفیسر ساجد میر عوامی مینڈیٹ کی چوری کو سب سے بڑی کرپشن قرار دے رہے تھے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے کوئٹہ میں داخلے پر پابندی کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا جبکہ بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اویس نورانی نے آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ یہاں ان کے منہ سے ”آزاد ریاست ‘‘کے الفاظ واضح طور پر Slip of Tongue تھی جسے شبلی فراز نے ”آزاد بلوچستان کا نعرہ‘‘ بنا دیا۔ ایک ٹاک شو میں حلیم عادل شیخ بھی بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے فرزند بھی ”غدار‘‘ قرار پا گئے تھے۔ تو پھر یہاں محب وطن کون ہے؟