وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے حوالے سے ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’جن افراد نے مطیع اللہ جان کو اغوا کیا ہے اُن کی شناخت ممکن نہیں ہے۔‘
اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کی طرف سے اس مقدمے کی تفتیش کے سلسلے میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی طرف سے تفتیش کی پیش رفت سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ صحافی کے مبینہ اغوا کی ویڈیو میں نظر آنے والے اغوا کاروں کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
21 جولائی کو اسلام آباد کے ایک سیکٹر سے اغوا کیے جانے والے پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان اپنے مبینہ اغوا کے واقعے کے تقریباً 12 گھنٹے بعد اپنے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔
دوسری جانب صحافی مطیع اللہ جان کا دعویٰ ہے کہ ’پولیس جان بوجھ کر کیمروں کی دستیاب فوٹیج کو تحقیقاتی رپورٹ کا حصہ نہیں بنا رہی ہے۔‘
رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟
اس ابتدائی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا نے ویڈیو میں نظر آنے والے مبینہ اغواکاروں کی شناخت سے معذوری ظاہر کی ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ویڈیو فوٹیج ’غیر معیاری کیمرے سے بنی ہے ’جس کی وجہ سے مبینہ اغوا کاروں کی گاڑیوں کے نمبر بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق واقعے کی جگہ پر سیف سٹی کا کوئی کیمرہ نصب نہیں تھا اور واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں، نہ ہی کسی رہائشی نے اس واقعے سے متعلق اپنا بیان جے آئی ٹی کو ریکارڈ کروایا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن افراد نے اس مقدمے کی تفتیش کے سلسلے میں بیان ریکارڈ کروایا ہے اُن میں مذکورہ صحافی کی اہلیہ اور سکول میں پھینکا گیا موبائل واپس کرنے والی ٹیچر شامل ہیں۔
اسلام آباد پولیس کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان کے بیان کے بعد نادرا سے زرک خان نامی شخص کا ڈیٹا لیا گیا ہے اور اس ادارے کے ریکارڈ کے مطابق ملک بھر میں 1200 سے زائد افراد زرک خان کے نام سے رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملزمان جس گاڑی میں مذکورہ صحافی کو اغوا کرکے لے کر جا رہے تھے اس کے بارے میں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی یعنی این ایچ اے نے تفتیشی ٹیم کی طرف سے اگست میں لکھے گئے خط پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق این ایچ اے سے تین ٹول پلازوں کی فوٹیج مانگی گئی تھی جو ابھی تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں نادرا پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ ادارے کی طرف سے ان پانچ افراد کی تصاویر دے کر ان کا پتہ پوچھا گیا، جو اس واقعہ کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں، لیکن نادرا نے یہ ریکارڈ فراہم نہ کیا۔
پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلیجنس بیورو یعنی آئی بی کے جیو فینسنگ ماہرین نے واقعے کے وقت علاقے میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ موبائل نمبرز ٹریس کیے ہیں اس کے علاوہ اس واقعے کے چند منٹوں کے دوران اغوا کاروں کے راستے پر سیف سٹی کیمروں میں 684 گاڑیوں اور 52 ڈبل کیبن گاڑیوں کی آمد و رفت ریکارڑ ہوئی ہے۔
’پولیس جان بوجھ کر فوٹیج کو رپورٹ حصہ نہیں بنا رہی‘
رپورٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جو گاڑیاں اُنھیں اغوا کرنے آئی تھیں وہ اس طرف سے آئی تھیں جس طرف لال مسجد واقع ہے اور وہاں پر سکیورٹی اور سیف سٹی کمیرے لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس جان بوجھ کر ان کیمروں کی فوٹیج کو تحقیقاتی رپورٹ کا حصہ نہیں بنا رہی۔‘
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 28 اکتوبر کو مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا اور ان کے خلاف توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے اسلام آباد پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ دن دیہاڑے ایک شخص کو اغوا کر لیا گیا لیکن ابھی تک ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا