صحت

کورونا وائرس کی ایک عجیب علامت کا اسرار آخرکار سامنے آگیا

Share

عارضی طور پر سونگھنے کی حس سے محرومی نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی چند ابتدائی اور بہت عام علامات میں سے ایک ہے۔

درحقیقت یہ کووڈ 19 کی ایسی علامت ہے جو طبی ماہرین کو اس بیماری کو فلو سے الگ کرکے شناخت کرنے میں مدد دیتی ہے۔

مگر اب تک طبی ماہرین یہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ آخر کووڈ 19 کے مریض سونگھنے یا چکھنے کی حس سے کیوں محروم ہوجاتے ہیں اور اس کے پیچھے کیا میکنزم ہے۔‎

اب ماہرین نے آخرکار اس معمے کو ممکنہ طور پر حل کرلیا ہے اور کووڈ 19 کے مریضوں میں اچانک سونگھنے کی حس سے محرومی دماغی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔

یہ بات بیلجیئم میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آءی۔

یو ایل بی یونیورسٹی کی فنکشنل برین میپنگ لیبارٹری کی اس تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ کووڈ 19 کے کچھ مریض سونگھنے کی حس سے کیوں محروم ہوجاتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس کی وجہ اس حس کے کام کرنے کی کنجی کا کردار ادا کرنے والے مخصوص نیورونز کو سپورٹ فراہم کرنے والے خلیات کا متاثر ہونا ہے۔

محققین نے اس کو جاننے کے لیے سونگھے کی حس سے محروم ہوجانے والے کووڈ 19 کے 12 مریضوں اور 26 صحت مند افراد کے دماغ کا نقشہ امیجنگ تیکنیکس سے تیار کیا۔

ان میں سے 7 مریضوں میں سونگھنے کی حس سے محرومی کورونا وائرس کی بنیادی علامت تھی، 5 مریض 10 ہفتوں میں صحتیاب ہوگئے جبکہ دیگر کو کورونا وائرس کو شکست دینے کے 16 ہفتوں بعد بھی سونگھنے کے مسائل کا سامنا تھا۔

محققین نے نتیجہ نکالا کہ یہ وائرس دماغ کے ان حصوں پر براہ راست اثرات مرتب کرتا ہے جو بو کو سونگھنے کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں مخصوص حصے بشمول آلفیکٹری، آلفیکٹری بلبس اور ملحقہ دماغی ٹشوز بیماری سے متاثر ہوئے۔

تحقیق میں یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ اس بیماری سے ان دماغی خلیات کے لیے شوگر میٹابولزم کا عمل بھی متاثر ہوا جو کہ سونگھے کی حس میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ بو کی تفصیلات اکٹھی کرنے والے عصبی خلیاتی کنکشنز کے افعال میں بھی کووڈ 19 کے نتیجے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق سونگھنے کی حس سے محرومی کی شدید قسم کا تعلق کچھ آلفیکٹری کور میں زیادہ گلوکوز میٹابولزم سے جڑی ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور medRxiv پر جاری کیے گئے۔

اس سے قبل جولائی میں امریکا کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے زیرتحت بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے بھی اس حوالے سے ایک وضاحت دی تھی۔

انہوں نے سونگھنے میں مددگار خلیات کی ان اقسام کو شناخت کیا ہے جو نئے کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

حیران کن طور پر سونگھنے کی حس کے سگنل دماغ تک پہنچانے والے سنسری نیورونز ان متاثرہ خلیات میں شامل نہیں۔

جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ سنسری نیورونز ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے رابطے میں نہیں ہوتے، جن کو کورونا وائرس انسانی خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اس کے برعکس ایس 2 ان خلیات پر اثرانداز ہوتا ہے جو مخصوص اسٹیم سیلز اور خون کی شریانوں کے خلیات کے ساتھ سنسری نیورونز کے میٹابولک اور ساختی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ نان نیورونل خلیات کی اقسام پر اثرانداز ہوتی ہے جس سے مریض سونگھنے کی حس سے محروم ہوجاتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نیا کورونا وائرس سونگھنے کی حس میں تبدیلیاں براہ راست نیورونز کو متاثر کیے بغیر لاتا ہے اور یہ کام وہ معاون خلیات کے افعال کو متاثر کرکے کرتا ہے۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اکثر کیسز میں کورونا وائرس سونگھنے کی حس کے نیورل سرکٹس کو مستقل نقصان نہیں پہنچاپاتا ورنہ مریضوں کو ہمیشہ کے لیے اس حس سے محرومی کا سامنا ہوتا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے خیال میں یہ اچھی خبر ہے کہ ایک بار جب بیماری کا خاتمہ ہوتا ہے تو نیورونز کو بدلنے یا تعمیر نو کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اس حوالے سے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے تاکہ اس میکنزم کے بارے میں ہمارے نتائج کی تصدیق ہوسکے۔

طبی ریکارڈ کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں سونگھنے کی حس سے محرومی کا امکان 27 گنا زیادہ ہوتا ہے مگر یہ شرح بخار، کھانسی یا نظام تنفس کی مشکلات میں 2.2 سے 2.6 گنا ہے۔