طیب اردوغان: خطے میں دھاک بٹھانے کی اردوغان کی کوششیں اور ترک کرنسی کی قدر میں کمی
ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اور اب امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس کی قیمت 8.15 ہو گئی ہے، یعنی ایک امریکی ڈالر میں سوا آٹھ ترکش لیرے۔
کرنسی کی قدر میں یہ کمی ترک معیشت کے بارے میں سرمایہ کاروں کے تحفظات کے باعث بن رہی ہے۔ ترکی کو اس وقت ایک جانب کورونا وائرس کا سامنا ہے تو دوسری جانب اس کا نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تناؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے فرانس اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک لیرا کی قدر میں کمی ترکی میں افراطِ زر کی وجہ سے ہے جس کی شرح گذشتہ ماہ 11.7 فیصد تھی جبکہ ترکی کے مرکزی بینک نے اپنی بنیادی شرحِ سود بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔
شرحِ سود میں اضافے سے افراطِ زر میں کمی ہو سکتی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کی لیرا خریدنے میں دلچسپی دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق خطے کے ممالک لیبیا، شام اور قفقاز میں اور قبرص کے آس پاس ترکی کی دخل اندازی نے سرمایہ کاروں کو بدظن کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے زرِمبادلہ کے ایک تاجر کے حوالے سے بتایا کہ ’امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ارضی سیاسیاتی تناؤ میں اضافہ لیرا پر بڑھتے دباؤ کی ایک نئی وجہ ہے جس سے اس کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔‘
رابو بینک کے تجزیہ کار پیوتر ماٹیس نے کہا کہ اس حوالے سے تحفظات ہیں کہ اگر امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن جیت جاتے ہیں تو ترکی پر ’روسی ساختہ ایس 400 طیارہ شکن دفاعی نظام خریدنے کے باعث سخت پابندیاں لگ سکتی ہیں‘ اور ’مارکیٹ کو ترکی اور فرانس کے درمیان تیزی سے بگڑتے ہوئے تعلقات کے بارے میں بھی فکر ہے۔‘
لیرا نے رواں سال اپنی 26 فیصد قدر کھوئی ہے اور ترک حکام نے مبینہ طور پر گذشتہ 18 ماہ میں 134 ارب ڈالر (103 ارب یورو) خرچ کیے ہیں تاکہ اپنی کرنسی کو سہارا دیا جا سکے۔
میزائل تنازع
اکتوبر کی 23 تاریخ کو صدر اردوغان نے تصدیق کی تھی کہ ترکی نے متنازع ایس 400 میزائل نظام کی آزمائش کی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اتوار کو روس کے ساتھ اسلحہ معاہدے پر امریکی تنقید کے جواب میں کہا: ’آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آگے بڑھیں اور پابندیاں لگائیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ نے ترکی کو میزائل نظام فعال کرنے کی صورت میں ’اپنے سیکیورٹی تعلقات کے حوالے سے ممکنہ سخت نتائج کی دھمکی دی ہے۔‘
یورپی یونین ترکی کی سب سے بڑی تجارتی شراکت دار ہے۔ مگر رواں ماہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے صدر اردوغان کو ترکی کی جانب سے قبرص کے ساحلوں کے قریب گیس کی تلاش پر سخت وارننگ دی ہے۔
ایک سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ یورپی یونین کو ’ترکی کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم میں نئے، یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات پر افسوس ہے جس میں وسائل کی تلاش میں حالیہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔‘
یونان اور قبرص ترکی کے زیرِ انتظام شمالی قبرص کے معاملے پر ترکی کے سخت خلاف ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں خاص طور پر اس خطے میں ترکی کی سرگرمیوں کے مخالف رہے ہیں۔ اتوار کو صدر اردوغان نے انھیں فرانسیسی مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام دیا اور پھر انھوں نے عرب دنیا کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبوں کی حمایت کی۔ میکخواں فرانس میں ’اسلامی انتہاپسندی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر چکے ہیں۔
ترک معیشت کو کورونا وائرس کی وجہ سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ بہار میں آنے والی بدترین لہر کے بعد یہ ملک یومیہ نئے متاثرین کی تعداد کو 1000 سے کم رکھنے میں کامیاب ہوا مگر اب یہاں یورپی پڑوسیوں کی طرح نئے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بی بی سی ترک سروس کے انیس سینردیم کے مطابق گذشتہ ہفتے مرکزی بینک کی جانب سے شرحِ سود کو برقرار رکھنے کے غیر متوقع فیصلہ کا مقصد قلیل مدت میں قرضوں کی فراہمی میں اضافہ تھا۔
مگر صدر اردوغان خود بھی بلند شرحِ سود کے مخالف ہیں اور سینیردیم کے مطابق کئی ترک تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کا اثر و رسوخ مرکزی بینک کی جانب سے شرحِ سود کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
لیرا کو سہارا دینے کے لیے اربوں ڈالر کی فروخت نے ترکی کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچایا ہے۔ ترک معیشت کے رواں سال سکڑنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
صدر اردوغان کی جانب سے ترکی کے ایک اور بڑے تجارتی شراکت دار روس کے ساتھ گرم جوشی بھی ارضی سیاسیاتی مخالفت کی وجہ سے سرد پڑ رہی ہے۔
روس اور ترکی لیبیا اور شام میں متضاد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ صدر اردوغان آرمینیا کے زیرِ انتظام ناگورنو قرہباخ خطے کے حصول کی جنگ میں آذربائیجان کی حمایت کر رہے ہیں۔