Site icon DUNYA PAKISTAN

شہباز شریف: پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ کے جیل میں شب و روز اور اُن کے زیر مطالعہ چار کتابیں

Share

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ شہباز شریف ان کے بیٹے حمزہ شہباز اور دیگر کے جوڈیشل ریمانڈ میں دو نومبر تک توسیع کر دی ہے۔

احتساب عدالت نے استغاثہ کی استدعا پر منی لانڈرنگ ریفرنس کا جیل میں ٹرائل کرنے سے متعلق معاملہ بھی آئندہ سماعت تک مؤخر کر دیا ہے۔

منگل کو احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے جب کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو ملزمان شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت میں موجود نہ تھے جس پر جج نے برہمی کا اظہار کیا۔

صحافی رانا بلال کے مطابق جج جواد الحسن نے سوال کیا کہ ’صبح کے دس بج گئے ہیں لیکن ملزمان عدالت میں نہیں پہنچے، کیا اُن کو دوپہر دو بجے پیش کیا جائے گا؟‘

سماعت کے آغاز پر عدالت کے سامنے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جیل میں کھانا فراہم کرنے کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

جج نے کہا کہ ملزمان کی عدالت میں تاخیر سے پیشی ٹرائل میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ عدالت نے تاکید کی کہ آئندہ تمام سماعتوں پر ملزمان کو صبح ساڑھے نو بجے عدالت میں پیش کیا جائے۔ انھوں نے آئی جی پنجاب، جیل سپرنٹنڈنٹ اور ہوم سیکریٹری کو ان عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا بھی حکم دیا۔

سماعت کے دوران جج جواد الحسن کا مسلم لیگ نواز لائرز فورم کے ممبر راجہ خرم شہزاد کے ساتھ مکالمہ ہوا جس کے بعد جج جواد الحسن نے عندیہ دیا کہ وہ اس کیس کا ٹرائل جیل میں کریں گے۔

جج جواد الحسن کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو کورونا وائرس لگنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے اور انھیں عملے، استغاثہ اور وکلا کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے عدالت میں آنے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر جج جواد الحسن نے شہباز شریف کو کہا کہ ’آپ کے جو قانونی حقوق ہیں وہ آپ کو دیے جائیں گے۔‘

شہباز شریف نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ انھیں چارپائی دی گئی ہے مگر بیڈ فراہم نہیں کیا گیا اور زمین پر سونے پر مجبور کیا گیا۔

شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ نیب کو عمران خان کی خاص ہدایات ہے کہ انھیں تکلیف دی جائے جس پر سپیشل پراسکیوٹر نیب عثمان جی راشد چیمہ نے جواباً کہا کہ شہباز شریف بے بنیاد الزام لگا رہے ہیں۔

شہباز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے جج جواد الحسن نے کہا کہ آپ کے خلاف پلاٹوں والا کیس بند کر دیا گیا ہے، وہ میرے پاس منظوری کے لیے آیا ہے۔

اس پر شہباز شریف نے کہا کہ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ کون سا کیس بناتے ہیں اور کون سا نہیں بناتے۔ ’ان کا بس چلے تو پاکستان کے سارے کیس میرے خلاف ڈال دیں۔‘

اس پر جج جواد الحسن نے پوچھا کہ نیب میں آپ کے خلاف پلاٹوں کی انکوائری بند کی گئی ہے تو کیا وہ نیب کی بات مان لیں۔

اس پر شہباز شریف نے جواب میں کہا کہ ’سر برائے مہربانی نیب کہ ساری باتیں نہ مانیے گا۔‘ جس پر پوری عدالت محفل زار بن گئی۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کو ریفرنس کی مکمل کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’اللہ نے شیطان کو بھی سنے بغیر سزا نہیں دی تو یہ کیسے سنے بغیر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کر سکتے ہیں۔‘

اس پر عدالت نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کو وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کی کاپیاں فراہمی کے لیے تحریری درخواست دائر کرنے کا حکم دے دیا۔

دوسری جانب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر سپریم کورٹ میں ہیں اس وجہ سے وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کی کاپیاں منگل کو فراہم نہیں کی جا سکتیں۔

عدالت نے اس پر کہا کہ کاپیاں فراہم کر دیں گے تو اس کے ایک ہفتے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

اس کے علاوہ شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ نصرت شہباز پیش ہونا چاہتی ہیں مگر بیماری کے باعث پیش نہیں ہو سکتیں جس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ نصرت شہباز کی بیماری سے متعلق اچانک رپورٹس پیش کی گئیں ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ نصرت شہباز کو جب طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے تب بھی وہ حاضری معافی کی درخواست دائر کر سکتی تھیں لیکن نصرت شہباز کی جانب سے حاضری سے استثنی کی درخواست صرف اس لیے دی جب انھیں ادراک ہوا کہ عدالت پیش ہوئے بغیر کوئی چارہ ممکن نہیں۔

شہباز شریف نے پروڈکشن آرڈر کے لیے درخواست دینے سے منع کیا ہے‘

شہباز شریف کے وکیل عطا اللہ تارڑ نے بی بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شہباز شریف کے لیے چار کتابیں لے کر گئے تھے جن میں جون گوچ کی لکھی گئی ’موسیلینیز وار‘، صحافی ڈیکلن واش کی ’نائن لائیوز آف پاکستان‘، این ایپل بم کی ’ٹویلائٹ آف ڈیموکریسی‘ اور سونر کیگپٹے کی ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر لکھی گئی کتاب ’اردوغانز ایمپائر‘ شامل ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا شہاز شریف نے خود یہی کتابیں لانے کو کہا تھا، عطا اللہ تارڑ نے بتایا کہ شہباز شریف نے صرف وسیع عنوانات بتائے تھے لیکن کتابوں کا انتخاب میں نے خود کیا۔

جیل میں شہباز شریف کے معمولات کے متعلق بات کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے بتایا کہ ان کا دن اخبار اور کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ ’اس کے علاوہ وہ اپنے کیس کے حوالے سے چیزیں لکھتے رہتے ہیں۔‘

جیل میں شہباز شریف کو ملنے والی سہولیات کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف صاحب کی عمر 70 سال ہے اور وہ کمر کی تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن ان کو بہت سخت حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ پہلے دن ان کو فرش پر سلایا گیا، گدا، کرسی یا دوسری کوئی سہولت نہیں دی گئی جو ہر قیدی کا حق ہے۔‘

عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’آج بھی ہم نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس سب کے باوجود جیل حکام نے انھیں صرف ایک چارپائی دی ہوئی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر شہباز شریف کا صحیح طرح خیال نہ رکھا گیا اور فیزیوتھراپی وغیرہ کی سہولت نہ دی گئی تو ان کی کمر کی تکلیف بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلے شہباز شریف کے لیے گھر سے کھانا لانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

’حکومت کی طرف سے آرڈر تھا کہ کوئی کھانا نہیں، کوئی کرسی نہیں، کوئی بستر نہیں کوئی سہولت نہیں ملے گی، ان کو زمین پر سلایا اور بٹھایا جائے لیکن بعد میں کورٹ سے کھانے کی اجازت لینی پڑی۔‘

عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا ’شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شریف بھی اسی جیل میں ہیں۔ اگرچہ انھیں بیٹے سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی تاہم اس سب کے باوجود ان کا مورال بہت بلند ہے کیونکہ وہ پہلے بھی ایسے ہی حالات سے گزر چکے ہیں اور اندورنی طور پر وہ سکون میں ہیں۔‘

عطا اللہ تارڑ کے مطابق شہباز شریف نے سختی سے اپنے پروڈکشن آرڈر کے لیے اپلائی کرنے سے منع کیا ہے ’کیونکہ بعد میں حکومت ان کا غلط استعمال کرتی ہے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میں جیل کاٹ رہا ہوں مجھے کسی پروڈکشن آرڈر کی ضرورت نہیں ہے۔‘

Exit mobile version