Site icon DUNYA PAKISTAN

وینچر کیپیٹل ازم: نوجوان افراد اپنے کاروبار کے لیے پیسہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں؟

Share

جب دو پاکستانی بہنوں نے ملک میں بین الاقوامی معیار کا جِم بنانے کی ٹھانی تو ان کے پاس آئیڈیا تو بہترین تھا لیکن اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار سرمایہ موجود نہیں تھا۔

اب بہت سے دیگر پاکستانی نوجوانوں کی طرح اُن کے ذہن میں بھی بس ایک ہی سوال تھا یعنی اپنا کاروبار جمانے کے لیے پیسہ یا سرمایہ کہاں سے لایا جائے؟

اکثر نیم متوسط گھرانوں کے نوجوان تو سرمایہ جمع کرنے کے خیال سے ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں کیونکہ انھیں نہ تو گھر میں اور نہ ہی خاندان میں کوئی ایسا وسیلہ نظر آتا ہے جو ان کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہوئے انھیں درکار سرمایہ فراہم کرنے کا رسک لے۔ یہی سوچ اور حالات ہوتے ہیں جن کے باعث بہت سے نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی سرکاری یا نجی محکمے کی ملازمت میں گزار دیتے ہیں۔

بی بی سی نے ایسے ہی نوجوانوں کی یہ جاننے میں مدد کے لیے وہ اپنے کاروبار کے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرمایہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں، یہ رپورٹ ترتیب دی ہے۔

اپنے کاروبار کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے کئی راستے ہیں۔

سب سے پہلے آتے ہیں آپ کے گھر والے، رشتہ دار اور دوست احباب، جن سے آپ ایک لمبے عرصے کے لیے پیسے ادھار لے کر اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے اہلخانہ اور دوست احباب کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں کہ وہ آپ کی مدد کر سکیں یا وہ آپ کے کاروبار میں پیسے لگانے سے ہچکچائیں تو پھر آپ کے پاس ایک طریقہ بینک سے قرضہ حاصل کرنے کا ہے۔

بینک سے قرضوں کے بارے میں تو آپ ہماری اس تحریر میں پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ تو آئیے اب ہم آپ کو آسان الفاظ میں ’وینچر کیپیٹل ازم‘ کے بارے میں سمجھاتے ہیں۔

وینچر کیپیٹل ازم (وی سی) کی اصطلاح سے شاید بہت سے پاکستانی نوجوان لاعلم ہوں گے لیکن دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنا بزنس جمانے کا یہ طریقہ خاصا مقبول اور عام ہے۔

وینچر کیپیٹل

وینچر کیپٹلسٹ وہ امیر افراد یا بڑی کمپنیاں ہوتی ہیں جو کسی نئے کاروبار میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرتی ہیں۔

’ایم فِٹ‘ نامی ایک سٹارٹ اپ (نئے کاروبار) نے حال ہی میں دس لاکھ ڈالر وینچر کیپیٹل ازم (وی سی) کے ذریعے جمع کیے ہیں۔ ایم فٹ کے کاروبار میں اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ پاکستان میں قائم ’انڈس ویلی کیپیٹل‘ نامی وی سی فنڈ نے کی ہے جس کے بانی عاطف اعوان ہیں۔

اس نئے کاروبار ’ایم فٹ‘ کی بانی دو بہنیں ہیں جن کے نام مہلکہ اور نور شوکت ہیں۔

مہلکہ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ انھوں نے اپنی کمپنی کا آغاز سنہ 2014 میں کیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں قومی سطح پر ورزش اور اس کے صحت پر اثرات کے حوالے سے آگاہی اور خاص طور پر خواتین کی صحت کے حوالے سے کام کرنا شامل تھا۔

عام تاثر ہے کہ اپنے کاروبار کو لگانے یا وسعت دینے کے لیے درکار سرمایہ کاری حاصل کرنا پیچیدہ ہو سکتا ہے لیکن مہلکہ کہتی ہیں کہ ’ایم فٹ کے لیے ہم نے جتنے بھی لوگوں سے سرمایہ کاری کے لیے رابطہ کیا ہمیں بہت مثبت ردعمل ملا اور جو چیز ایم فٹ کو منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ اس کی بانی دو خواتین ہیں جبکہ 90 فیصد سٹاف بھی خواتین پر ہی مشتمل ہے۔‘

’ہمارا بنیادی مقصد عورتوں کی صحت ہے اور یہی بات کئی سرمایہ کاروں کو اچھی لگی اور انھوں نے ہماری کمپنی میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ مشرق وسطیٰ کی چند کمپنیوں بلکہ ’سیلیکون ویلی کے چند وی سی فنڈز نے بھی ہماری کمپنی میں دلچسپی ظاہر کی۔ ماضی کی نسبت اب پاکستان میں چیزیں بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’اگر یہی سرمایہ کاری ہم آج سے تین چار برس پہلے جمع کر رہے ہوتے تو شاید اس وقت ہمیں پارٹنرز نہ ملتے لیکن اب پاکستان کی مارکیٹ میں بھی بہت سے سرمایہ کار سامنے آ رہے ہیں، خاص طور پر وی سی (وینچر کیپیٹلزم) میں، جو خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

مگر سوال یہ ہے کہ نوجوان پاکستان میں اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے، اپنے کاروبار کو فروغ دینے یا سرمایہ کاروں کو اپنے کاروبار میں پیسہ لگانے کے لیے رضامند کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

،تصویر کا کیپشنمہلکہ شوکت، چیف ایگزیکٹیو ایم فٹ

اس سوال کے جواب میں مہلکہ نے بتایا کہ کوئی بھی نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھے کہ اس کے کاروبار سے معاشرے کا کوئی مسئلہ حل ہو۔

’آپ کا کاروبار کوئی ایسا مسئلہ حل کرے جس کا لوگوں کو سامنا ہو کیونکہ بہت سے لوگ اس مسئلے کے حل کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کے مسئلے کا حل لے کر سامنے آتا ہے تو لوگ اس کا بھرپور انداز میں استقبال کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسرا یہ کہ لوگوں سے رابطہ کریں چاہے وہ سرمایہ کار ہوں یا صارفین۔ ان تک اپنی بات پہنچائیں، کھل کر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائیں۔ سوشل میڈیا پر موجود وی سی فنڈز سے رابطہ کریں وہ آپ کو جواب ضرور دیں گے۔‘

سٹارٹ اپ انکیوبیٹر

دنیا بھر میں نوجوان اپنے نئے کاروبار قائم کرنے کے لیے سٹارٹ اپ کا راستہ بھی اختیار کرتے ہیں اور کسی ’سٹارٹ اپ انکیوبیٹر‘ سے ہدایات حاصل کرتے ہیں۔

یہ کسی نئے کاروبار کی مدد کے لیے قائم ایسے سینٹر ہوتے ہیں جہاں نوجوانوں کو مالی و کاروباری مشورے دیے جاتے ہیں اور بعض اوقات انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے تک دفتر کے لیے جگہ بھی دی جاتی ہے۔

سٹارٹ اپ انکیوبیٹرز عام طور پر غیر منافع بخش تنظیمیں ہوتی ہیں جو سرکاری و نجی اداروں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ ایسے پلیٹ فارمز موجود ہیں جو نوجوانوں کی مدد اور رہنمائی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وفاقی سطح پر آئی ٹی کی وزارت کے زیر اثر ’این آئی سی‘ ایک ایسا انکیوبیٹر پروگرام ہے جو لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں مرحلہ وار نئے سٹارٹ اپس (نئے کاروبار) کا انتخاب کر کے انھیں ضروری مدد فراہم کرتا ہے۔

’بے بی پلانٹ‘ نامی آن لائن سٹور کے بانی عرفان احمد نے جب سنہ 2014 میں دوران تعلیم ہی اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی تو ابتدائی مدد پنجاب حکومت کے ’پلان نائن‘ نامی انکیوبیٹر سے لی۔

عرفان احمد کا یہ آن لائن سٹور لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بچوں کے کپڑوں، جوتوں اور کھلونوں سمیت دیگر اشیا فروخت کرتا ہے۔ عرفان نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان کا کاروبار بہت چھوٹے پیمانے پر تھا اور اس کو وسیع پیمانے پر پھیلانے اور سرمایہ جمع کرنے میں ان سے چند غلطیاں بھی ہوئیں۔

’جب ہمیں تنخواہیں دینے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی اور ہمیں کاروبار میں تھوڑا نقصان ہوا تو تب ہم پیسے (سرمایہ کاری) جمع کرنے گئے مگر ہماری یہ ٹائمنگ بالکل صحیح نہیں تھی۔‘

’ہم بحیثیت نوجوان کاروباری بہت سی غلطیاں کرتے ہیں، سب سے پہلی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم آئیڈیا سٹیج (یعنی جب کاروبار کا صرف خیال ذہن میں ہوتا ہے) پر سرمایہ کاری جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی مارکیٹ دوسرے ممالک سے بہت مختلف ہے۔ ہمیں سرمایہ کاروں کے پاس جانے سے پہلے اور پیسے جمع کرنے سے پہلے اپنے آئیڈیا پر کام کرنا چاہیے اور اسے پرکھ لینا چاہیے کیونکہ سرمایہ کار آئیڈیا کو پرکھنے کے نہیں بلکہ کاروبار کی ترقی کے لیے پیسے دیتے ہیں۔‘

’میں نوجوان انٹرپرینور کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ سرمایہ کار کے پاس جانے سے پہلے آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ کو کتنے پیسے چاہیے، آپ یہ پیسہ کہاں اور کیسے استعمال کریں گے، اس سے آپ کی کمپنی کو کیا فائدہ ہو گا۔ اور جب تک آپ پیسے جمع نہیں کر لیتے اپنے اخراجات کو کم سے کم رکھیں، تب ہی آپ اپنے کاروبار کو کسی سطح پر لے کر جا سکتے ہیں اور سرمایہ کار کو اپنے کاروبار میں پیسے لگانے کے لیے رضا مند کر سکتے ہیں۔‘

،تصویر کا کیپشنعرفان احمد، چیف ایگزیکٹیو بے بی پلانیٹ

انھوں نے کہا کہ ’کاروبار کے لیے سرمایہ جمع کرنا ایک مشکل اور فل ٹائم کام ہے، ایسا ممکن نہیں کہ آپ کاروبار کو بھی دیکھیں اور سرمایہ بھی جمع کریں۔ میرے سے شروع میں یہ غلطی ہوئی کہ میں سرمایہ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ کاروبار کے دیگر معاملات کو بھی دیکھ رہا تھا لیکن کورونا کی وبا کے دوران جب میں نے دوبارہ سرمایہ جمع کرنا شروع کیا تو میں نے دفتری معاملات سنبھالنے کے لیے کسی اور کی خدمات لیں جس سے مجھے سرمایہ جمع کرنے میں خاصی آسانی ہوئی۔‘

کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار مینا طارق نے بھی کیا جو گذشتہ ڈیڑھ برس سے وینچر کیپیٹلسٹ فنڈ ’کارواں‘ میں ایک پارٹنر ہیں اور کئی برسوں سے پاکستان میں نئے کاروبار شروع کرنے والے افراد کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اپنے کاروبار کے لیے پیسے جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ پاکستان میں سٹارٹ اپس کا نظام کافی نیا ہے اور پاکستاں میں اس وقت صرف آٹھ سے نو ’وی سی فنڈ‘ ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’ایک طرف سٹارٹ اپس زیادہ ہیں تو دوسری طرف پیسے دینے والے لوگ یا وی سی فنڈ بہت کم ہیں۔‘

’پیسے جمع کرنے میں بہت وقت لگتا ہے، اکثر سٹارٹ اپس یہ بھول جاتے ہیں کہ کاروبار کے لیے پیسہ لانے میں تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں اور کمپنی کے مالک اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ اس دوران اپنی کمپنی کو کیسے چلایا جائے۔‘

ٹیکسی سروس رومر کے چیف ایگزیکٹیو محمد ہادی نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں نوجوان انٹرپرینور کمپنی میں سرمایہ لاتے ہوئے سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ اپنی کمپنی کا زیادہ تر کنٹرول سرمایہ کار کو دے دیتے ہیں۔

’وینچر کیپیٹلسٹ کی تو کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پارٹنرز کو زیادہ سے زیادہ شیئر دلائے، تو نوجوانوں کو چاییے کہ وہ ایسی شرائط کے لیے مذاکرات کریں جو ان کے حق میں ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں نوجوان تکنیکی طور پر تو باصلاحیت ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے کاروبار کے مالی مسائل سے واقف نہیں ہوتے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے انھیں مالیاتی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔‘

،تصویر کا کیپشنٹیکسی سروس رومر کے چیف ایگزیکٹیو محمد ہادی

’صرف وہ سرمایہ کار نہ ڈھونڈیں جو آپ کے کاروبار میں پیسہ لگائیں گہ بلکہ ایسا سرمایہ کار ڈھونڈیں جو آپ کی کمپنی کی ترقی میں آپ کا ساتھ دیں گے۔‘

’باہر سے سرمایہ لانے کی صورت میں ہمیں وزارت داخلہ سے اس کی منظوری لینا ہوتی ہے جس میں پانچ سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ حکومت کو اس نظام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سرمایہ کار کن بنیادوں پر پیسہ دیتے ہیں؟

جب ہم نے مینا طارق سے پوچھا کہ سرمایہ کار کن بنیادوں پر سٹارٹ اپس میں سرمایہ لگاتا ہے تو انھوں نے اس کی وضاحت کچھ ایسے کی:

’کسی بھی ریس میں گھوڑے کو دیکھ کر دلچسپی پیدا ہوتی ہے لیکن پیسہ ہمیشہ گھڑ سوار پر لگایا جاتا ہے۔ سرمایہ کاری بھی بالکل ایسے ہی ہے جس میں آئیڈیا کو دیکھ کر سرمایہ کار کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے لیکن وہ پیسہ انٹرپنور، اس کی صلاحتیوں اور جذبے کو دیکھ کر لگاتا ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنمینا طارق گذشتہ ڈیڑھ برس سے وینچر کیپٹلسٹ فنڈ ’کارواں‘ میں ایک پارٹنر ہیں اور کئی برسوں سے پاکستان میں نئے کاروبار شروع کرنے والے افراد کے ساتھ کام کر رہی ہیں

’سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ کاروبار شروع کرنے والے کی تعلیم کیا ہے، اس کا تجربہ کیسا اور کتنا ہے، جن کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کاروبار کو چلانے کے لیے یہ شخص بہترین ہے یا نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد سرمایہ کار دیکھتا ہے کہ اس کاروبار کو خریدنے والی مارکیٹ کتنی بڑی ہے، کتنی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں یہ آئیڈیا پسند آئے گا اور وہ اس پراڈکٹ یا سہولت کو خریدیں گے۔‘

کیا صرف پیسہ یا سرمایہ ہی کاروبار کو کامیاب بناتا ہے، اس سوال کے جواب میں مینا نے نوجوانوں کو کامیاب کاروبار کے گُر بتاتے ہوئے ایک انتہائی دلچسپ انداز میں اپنی بات کا اختتام کیا۔

انھوں نے کہا: ’ہمارے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ کاروبار شروع کرنے میں سب سے مشکل چیز اس کے لیے پیسہ جمع کرنا ہے۔ فنڈز صرف ایندھن ہیں، باکل ویسے جیسے آپ اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈالتے ہیں اور کاروبار میں یہ پیٹرول پیسہ ہے۔ لیکن اگر آپ کو یہ نہیں پتا کہ آپ نے اس گاڑی کو لے کر کہاں جانا ہے اور کس راستے سے لے کر جانا ہے یا اگر آپ کو گاڑی چلانی ہی نہیں آتی تو پھر چاہے آپ گاڑی کی ٹینکی فل بھی کر لیں وہ آپ کے گھر میں ہی کھڑی رہے گی۔‘

Exit mobile version