عامر مجھ سے کہنے لگا: کیا آپ لوگوں نے سب رنگ ڈائجسٹ کو اپنی تحریروں سے دیومالائی کہانیوں کی طرح کی چیز نہیں بنا کررکھ دیا؟ آپ ہوگئے، ڈاکٹر شاہد صدیقی ہو گئے، رئوف کلاسرا ہوگئے، عامر ہاشم خاکوانی اور دیگر کئی اور اچھے لکھنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ آپ سب لوگ سب رنگ کے رطب اللسان ہیں اور اس کی تعریفوں کے ہمہ وقت پل باندھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا سب رنگ اتنا ہی انوکھا ڈائجسٹ تھا؟ آخر وہ کیا تھا؟ میں نے کہا: وہ اسم بامسمیٰ تھا، یعنی سب رنگ تھا۔ اس میں سارے رنگ تھے۔ قوس قزح کی مانند۔ وہ عالمی ادب کا ڈیپارٹمنٹل سٹور تھا۔ سب کچھ ایک چھت تلے دستیاب تھا اور معیاری، یہ نہیں کہ عوامی سطح پر پاپولر لیکن کچرا قسم کی کہانیوں سے ڈائجسٹ بیچ لیا جاتا۔ آج کل ایک دودھ کے اشتہار میں ماں بتاتی ہے کہ اس دودھ کے چھتیس ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ بیٹا کہتا ہے کہ یہ تو میری ٹیچر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ یہی حال سب رنگ کے معیار کا ہوتا تھا۔ کہانی ہم تک پہنچنے سے پہلے چھتیس ٹیسٹ پاس کرتی تھی۔ یہ سارے ٹیسٹ وہی ایک آدمی کرتا جس کا نام شکیل عادل زادہ ہے۔
پھر بھی، کیا چیز اسے دیگر ڈائجسٹوں سے ممتاز کرتی تھی؟ عامر نے پھر ایک سوال کر دیا۔ میں نے کہا: پہلی چیز جو اسے دیگر ڈائجسٹوں سے ممتاز کرتی تھی یہ ہے کہ وہ ڈائجسٹ تھا ہی نہیں۔ وہ دو قسط وار سلسلوں سے ہٹ کر عالمی ادب کا انتخاب تھا، دنیا بھر کے بہترین کہانیوں کا کشید کردہ عطر تھا اور ایک نشہ تھا۔ عامر کہنے لگا: اور ڈائجسٹ بھی تو اس زمانے میں عالمی ادب سے انتخاب چھاپتے ہوں گے‘ ترجمہ شدہ کہانیاں، دیگر ڈائجسٹوں کی بھی زینت بنتی ہوں گی تو پھر کوئی خاص بات؟ میں نے کہا: جب میں عالمی ادب کی بات کرتا ہوں تو وہ صرف مغربی اور انگریزی ادب کی بات نہیں ہوتی۔ رنگوں کی ایسی بہارکہ آج بھی اس کی تازگی دل کو فرحت سے بھردیتی ہے۔ ہرماہ ایک نیا رنگ دیکھنے کو اور پڑھنے کو ملتا تھا۔ ایسی دل کو چھو لینے والی کہانیاں کہ آپ کو دنیا و مافیہا سے کہیں دور پرے لے جاتی تھیں۔ خاص طور پر برصغیر کے ادب سے‘ علاقائی زبانوں سے انتخاب۔ ایسا انتخاب نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی اس کے بند ہو جانے کے بعد کہیں نظر آیا۔ ہندی ادب سے انتخاب ہوتا تو پانچ سات مختصر سی کہانیاں ایک ساتھ چھاپ دی جاتیں۔ ہر زبان کا اپنا ایک ذائقہ ہوتا ہے اور بالکل اپنی خوشبو! اپنا کلچر اور اپنی علیحدہ سی تہذیب۔ اس سے جو کہانی بن جاتی وہ ہم اردو کہانی کے شیدائیوں کے لیے بالکل ہی نئی زمین ہوتی اور اس زمین سے اٹھنے والی باس بھی بالکل مختلف ہوتی۔ جیسے بارش کے بعد ہر مٹی سے مختلف سی سوندھی باس اٹھتی ہے۔
کبھی سندھی ادب سے انتخاب ہوتا۔ کبھی تیلگو کہانیوں کی کہکشاں رنگ بکھیرتی اور کبھی تامل زبان کا رنگ بکھرتا۔ کبھی ملیالم ادب سے عطر کشید ہوتا اور کبھی مراٹھی ادب سے پھول چنے جاتے۔ کبھی گجراتی کہانیوں کی سحرانگیزی جکڑ لیتی اور کبھی بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولتا۔ وہی بنگال جس کی گورنری پر خوش رہنے والے ناصرالدین بغراخان نے بنگال کی شام کے حسن کی خاطر دہلی کے تخت کو لات مار دی اور اپنے والد شہنشاہ ہندوستان غیاث الدین بلین کی طرف سے ہندوستان کے تخت کو سنبھالنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ غیاث الدین بلین نے اپنے بڑے بیٹے محمد کی وفات کے بعد بغراخان کو پیغام بھیجاکہ وہ دہلی آکر ہندوستان کا تاج و تخت سنبھال لے مگر ناصرالدین بغرا خان نے واپس پیغام بھجوایا کہ کون بے وقوف ہوگا جو بنگال کو چھوڑکر ہندوستان کی سلطنت کا طلبگار ہو؟ غیاث الدین نے مایوس ہوکر اپنے پوتے کیخسرو کو ہندوستان کی سلطانی سونپ دی۔ ناصرالدین بغرا خان نے بعد ازاں بنگال کو خود مختار ریاست کا درجہ دے کر اپنی گورنری کو سلطانی میں بدل دیا تھا۔ باقی سب کچھ تاریخ ہے اور اس کا سب رنگ سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن بات بنگالی ادب کی ہو رہی تھی‘ بنگالی ادب سے ہمارا تعارف کہاں ہوتا اگر سب رنگ نہ ہوتا؟
ہر ماہ ایک نیا رنگ، ایک نیا ذائقہ اور ایک نئی خوشبو کا جہان کھلتا۔ کبھی مختصر کہانیوں سے تعارف ہوتا۔ ایک صفحے والی کہانیاں جو خوشبو کے ایک مرغولے کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتیں۔ ہم کنویں کے مینڈک بھلا گجراتی، بنگالی، ملیالم، تامل، تلگو اور مراٹھی ادب سے کہاں واقف ہو پاتے اگر سب رنگ کی جادونگری نے ہمیں اپنے سحر میں نہ جکڑرکھا ہوتا؟
پھر سب رنگ اپنا سارا مال اسباب لپیٹ کر آہستہ آہستہ ہم سے دور ہوتا گیا۔ پہلے مہینے دو مہینے کا وقفہ۔ پھر ہولے ہولے یہ وقفہ بڑھتا گیا۔ چھ ماہ، سال اور پھر سالہا سال۔ آخری بار تو وہ بک سٹال بھی بند ہوچکا تھا جہاں سے ہم ایک عرصے تک سب رنگ خریدا کرتے تھے۔ دل و نگاہ اب بھی منتظر ہیں کہ بازی گر مکمل ہو۔ کورا اور بابر زمان کی کہانی کسی سرے لگے۔ استاد بٹھل اور پیرو دادا کے چاقو سے زیادہ تیزدھار اور دل چیرنے والی انتظار کی کیفیت کسی انجام کو پہنچے۔ ہم اسیران سب رنگ کو عربی کہاوت الانتظارُ اشدُ من الموت (انتظار موت سے زیادہ شدید تر ہوتا ہے) سے نجات ملے۔ ہم اس کیفیت کے مارے کسی راہ لگیں‘ لیکن ایسے میں سب رنگ کہانیاں ایک بار پھر غنیمت بن کر آرہی ہیں۔
سب رنگ کہانیاں کا پہلا حصہ تو کب کا بھگتا دیا تھا اور اب اس کی اگلی جلد کا انتظار تھا جو تین دن پہلے عزیزم حسن رضا گوندل نے جہلم کے بک کارنر والے امر شاہد اور گگن شاہد کے ذریعے شاکر حسین شاکر کے وسیلے سے مجھ تک پہنچائی۔ گزشتہ تین دن اسی جلد کے نشے میں گزر گئے۔ کتاب اگر چھپی بھی خوبصورت ہو تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر ایک اور طرح کا لطف آتا ہے جو پڑھنے کے لطف سے مل جائے تو دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی اور قسم کا لطف تھا۔ سہ آتشہ اور چہار آتشہ قسم کا، ماضی کی یادیں، سب رنگ کے پیچھے خوار ہونے کے واقعات، سب رنگ کیلئے پیسے لے کر واپس آنے تک دل کا دھڑکنا کہ کہیں ختم نہ ہوگیا ہو۔ بوہڑ گیٹ اور شاہین مارکیٹ کے درمیان کارنر پر بک سٹال کے مالک سے دیرینہ گاہک کے حوالے سے کئی دفعہ ادھار خریدنے کا مزہ۔ غرض کوئی ایک بات ہے جسے یاد کیا جائے؟ ان ساری یادوں کا نچوڑ اور ماضی کے دنوں میں واپس پلٹنے کی جھلکیاں۔ سب رنگ کہانیاں عشروں پیچھے کھینچ کر لے جاتی ہیں۔ پڑھی ہوئی کہانیوں میں چالیس پینتالیس سال کا وقفہ پڑجائے تو سب کچھ پھر نیا ہوجاتا ہے اور اپنا یہی حال ہے کہ سب کچھ بالکل نیا ہوگیا ہے۔
اللہ بخشے بڑے بھائی طارق مرحوم کو، کئی بار تو ان سے پیسے لے کر سب رنگ خریدا جاتا تھاکہ ابا جی سے کم از کم اس مد میں پیسے مانگتے ہوئے ڈانٹ کا ڈر ہوتا تھا۔ کیا دن تھے؟ جب امتحانوں کے قریب ریڈیو پر محفلِ غزل سنتے ہوئے خیال رکھا جاتا تھاکہ ابا جی نہ دیکھ لیں اور سب رنگ پڑھتے ہوئے خوف رہتا تھاکہ ان کی نظر نہ پڑجائے۔ تب بھی عالم یہ تھاکہ امتحان کے خوف اور ابا جی کی ڈانٹ پر سب رنگ کی کشش غالب آ جاتی تھی۔ آج بھی یہ عالم ہے کہ دل بازی گر کا منتظر ہے اور سب رنگ کی اشاعت نو کیلئے دعاگو۔ ایسے میں سب رنگ کہانیاں غنیمت ہیں۔ کتاب کو خوبصورت انداز میں چھاپنا بھی جہلم کے دونوں بھائیوں کا پسندیدہ کام ہے اور سب رنگ سے عشق کی حد تک لگن رکھنے والے حسن رضا گوندل پر حیرت ہوتی ہے کہ لندن جیسے ظالم اور بے مہر شہر میں بیٹھ کر وہ یہ انتخاب قسط در قسط ہم تک پہنچا رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے میں اپنے کمرے میں ہونے کے باوجود خود کو چوک شہیداں والے گھر کے اوپر والے کمرے میں محسوس کرتا ہوں، جہاں گرمیوں میں محض گلی کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے آنے والی ہوا ویسی لگتی تھی جیسے آج کل ایئرکنڈیشنڈ مزہ دیتا ہے۔