میری دوست یُسریٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسی جگہ سرمایہ کاری کریں جہاں سے انھیں اچھا منافع حاصل ہوتا رہے لیکن اُن کا سرمایہ بھی محفوظ رہے۔
صرف یسریٰ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں رہنے والے کئی نوجوان کاروبار یا سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی قسمت چمکانا چاہتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں جب بھی بچت و سرمایہ کاری کی بات ہوتی ہے تو یہاں نوجوانوں کے لیے حالات کچھ حوصلہ افزا نظر نہیں آتے۔
ایک تو پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کے باعث بچت کا رجحان عمومی طور پر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے اور اگر کوئی بچت کرنا چاہے بھی تو بات ماہانہ کمیٹی سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
محلے کی سطح پر ڈالی جانے والی کمیٹیوں میں پیسہ بوقتِ ضرورت مل تو جاتا ہے لیکن بڑھ کر نہیں ملتا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں لوگ پیسہ کمانا بھی چاہتے ہیں مگر خطرہ مول لینے سے بھی گھبراتے ہیں اور ’محفوظ‘ سرمایہ کاری کی تلاش میں رہتے ہیں، تو ایسے لوگ کہاں اور کیسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟
اس تحریر میں ہم ذاتی کاروبار سے لے کر سیونگز اکاؤنٹس، سٹاک مارکیٹ، سونے، اور میوچوئل فنڈز میں سرمایہ کاری جیسے مختلف آپشنز پر بات کریں گے۔
خطرہ ہی سرمایہ کاری کی بنیاد ہے
سرمایہ کاری میں بنیادی عنصر رسک یا خطرے کا ہوتا ہے اور عمومی طور کہا جاتا ہے کہ یہ رسک جتنا زیادہ ہو گا منافع کا امکان اور اس کی شرح بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔
اس کی مثال سیونگز اکاؤنٹ اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کسی بھی بینک میں اگر آپ سیونگز اکاؤنٹ کھلوائیں تو بینک کی جانب سے آپ کو ہر ماہ ایک مخصوص شرحِ سود کے حساب سے منافع ادا کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مانیٹری پالیسی کے تحت متعین کی گئی ملکی شرحِ سود (پالیسی ریٹ) کم ہو تو یہ منافع بھی اسی حساب سے کم ہوتا جاتا ہے۔
سیونگز اکاؤنٹ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو اس میں کچھ کام خود سے نہیں کرنا پڑتا۔ آپ اس میں رقم جمع کروائیں اور پھر چاہے ایک ہزار روپے منافع آئے یا 10 ہزار روپے، یا ایک لاکھ روپے، اس میں آپ کی محنت نہیں لگتی اور اس میں خطرہ کم ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ سٹاک مارکیٹ کی بات کریں تو وہاں پر سمجھ داری سے سرمایہ کاری آسان نہیں (لیکن ناممکن تو بالکل بھی نہیں)۔ اس میں پیسہ لگانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہاں پر آپ کو زبردست منافع بھی حاصل ہو سکتا ہے مگر آپ زبردست نقصان کے لیے بھی تیار رہیں۔
فی الوقت پاکستانی بینکوں میں مختلف بینکنگ مصنوعات کی اوسطاً شرحِ منافع پانچ فیصد سے لے کر سات فیصد کے درمیان ہے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شرحِ منافع 20 فیصد کے قریب رہی ہے۔
تاہم یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ سیونگز اکاؤنٹ کے برعکس سٹاک مارکیٹ کی شرحِ منافع کا مکمل طور پر دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کون سی کمپنیوں کے شیئرز خرید اور بیچ رہے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری بذاتِ خود مارکیٹ میں نہیں بلکہ وہاں مندرج کمپنیوں میں کی جاتی ہے، چنانچہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو اس مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے پر لازماً 20 فیصد کا منافع ملے گا۔
حالیہ دنوں میں شرحِ سود میں کمی کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کے رجحانات کیا ہیں، اس حوالے سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر ظفر موتی والا بتاتے ہیں کہ ’اب مانیٹری پالیسی کے تحت شرحِ سود سات فیصد پر معین ہے، تو لوگ [سرمایہ کاری کے لیے بینکوں کے علاوہ] دوسرے راستوں پر جا رہے ہیں جن میں سٹاک مارکیٹ شامل ہے جہاں سے وہ شیئرز کا ڈیویڈنڈ (شیئرہولڈرز میں تقسیم ہونے والا منافع) حاصل کریں، شیئرز کی قیمت میں بھی اضافہ ہو، یا پراپرٹی ہے، جہاں قسطوں پر اپارٹمنٹ لے لیا جائے اور جب وہ بن جائے تو اسے یا تو کرائے پر چڑھا دیا جائے یا اسے فروخت کر کے منافع حاصل کر لیا جائے۔’
شیئرز کے کاروبار میں نوجوان خواتین کہاں ہیں؟
پاکستان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ یہاں کی سٹاک مارکیٹ میں بروکرز اور ٹریڈرز کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے اور ملکی کاروباری منظرنامے پر ویسے تو خواتین کئی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہی ہیں مگر اس مارکیٹ میں وہ اتنی نظر نہیں آتیں۔
ظفر کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس مارکیٹ پر مردوں کا غلبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فطرتاً خواتین فکس آمدنی کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہیں اور [مارکیٹ] میں جو پیچیدگیاں ہیں، مثلاً مارکیٹ کو روزانہ دیکھنا، خبروں پر نظر رکھنا، اس میں ان کے مطابق تعلیم یافتہ خواتین تک بھی نہیں دیکھتیں کہ انھیں سرمایہ کاری کے لیے اگلا قدم کیا اٹھانا چاہیے۔
مشرف دورِ حکومت کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس عرصے میں جب پاکستانی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی تھیں، تب خواتین نے مارکیٹ میں حصہ لینا شروع کیا تھا اور ایک وقت میں ان کی ’بروکریج کی 20 فیصد تک کلائنٹس خواتین تھیں۔‘
’لیکن وہ خواتین اتنی خطرناک حد تک زیادہ شیئرز کی خریداری کر رہی تھیں کہ سنہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران وہ مارکیٹ سے باہر نہ نکل سکیں اور بُری طرح نقصان اٹھایا۔ اس کے بعد سے مارکیٹ میں خواتین کے آنے کا رجحان کم ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت خواتین میں رسک لینے کا عنصر کم ہے، اور اس مارکیٹ کی جانب لڑکوں کا رجحان اس لیے زیادہ ہے کیونکہ وہ ٹریڈ کو پہلے سے سمجھتے ہیں اور رسک لینے کے لیے تیار ہیں۔‘
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں خواتین سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، بلکہ کئی خواتین نامور بروکریج ہاؤسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں۔
اگر آپ کی ماہانہ بچت 50 ہزار ہو تو؟
ظفر موتی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ گذشتہ 10 سال سے اچھا منافع دے رہی ہیں جو ماہانہ دو فیصد تک ہو سکتا ہے، تو ایسی صورت میں ’گروتھ شیئرز‘ یعنی ایسی کمپنیوں کے شیئرز خریدے جا سکتے ہیں جو ترقی کر رہی ہیں۔
اس کی مثال وہ سیمنٹ اور سٹیل کے شعبے سے دیتے ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج کے بعد سے زیادہ منافع کما رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے شعبوں کی کمپنیوں کے شیئرز خریدے جائیں اور ان کا ڈیویڈنڈ حاصل کیا جاتا رہے تو یہ 50 سے 60 ہزار کے سرمائے والوں کے لیے بھی اچھا ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں نقصان سے کیسے بچا جائے؟
سٹاک مارکیٹ ملکی معیشت کی عکاس ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں۔ جو بنیادی فارمولہ اس مارکیٹ کے پیچھے کارفرما ہے وہ طلب اور رسد کا ہے۔
ظفر موتی کے مطابق سیاسی حالات، کمپنی کی صورتحال، اور اس شعبے کے حالات مثلاً انھیں خام مال، بجلی اور گیس وغیرہ کی فراہمی کیسی ہے، تو یہ تمام عناصر مارکیٹ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں کامیابی کے لیے خبروں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
’مثلاً ڈونلڈ ٹرمپ کے بیمار ہونے کی وجہ سے اور کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ پر اثر آیا، تو سرمایہ کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھے ورنہ اسے نقصان ہو سکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ سب تھوڑا پیچیدہ ہے مگر جو لوگ پڑھے لکھے ہیں ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
سیونگز اکاؤنٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
تنخواہ دار طبقہ عام طور پر قومی بچت یا سیونگز اکاؤنٹ کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ اس میں خطرے کا امکان کم ہوتا ہے اور مستحکم شرحِ منافع ملتی رہتی ہے۔ کئی بینکوں نے اس حوالے سے مختلف پراڈکٹس متعارف کروا رکھی ہیں جن میں طرح طرح کے سیونگز اکاؤنٹ شامل ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بھی بچت مراکز کے ذریعے مختلف سیونگز سرٹیفیکیٹس پیش کیے جاتے ہیں۔
گھریلو خواتین جو اپنی آمدنی کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں اضافہ چاہتی ہیں وہ ان آپشنز کا استعمال کر سکتی ہیں۔
تاہم اگر آپ ملازمت پیشہ نہ ہوں یا اپنے خاوند کا سہارا لیے بغیر اکاؤنٹ کھلوانا چاہیں تو یہ کتنا آسان ہے؟
ظفر موتی کہتے ہیں کہ یہ اکاؤنٹس اب کھولنے بہت آسان ہو گئے ہیں اور ایک وقت تھا کہ اس حوالے سے ’کوئی سوال نہیں‘ کی پالیسی تھی، تاہم اب اگر ٹیکس گوشواروں کے حوالے سے مزید کوئی شرائط عائد کی جاتی ہیں تو وہ صرف پچھلے دو سے تین سالوں کی ہی بات ہے۔
اس وقت پاکستان میں شرحِ سود گذشتہ کئی سالوں کی کم ترین سطح پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نیا کاروبار شروع کرنے کے خواہشمند نوجوانوں کو بینکوں سے اپنے کاروبار کے لیے ممکنہ طور پر کم قیمت پر سرمایہ مل سکتا ہے۔
ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے ایسے کون سے شعبے ہیں جن میں کاروبار شروع کرنا آئندہ آنے والے سالوں میں فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
اس حوالے سے ظفر موتی کہتے ہیں کہ نوجوان کچھ دوست آپس میں مل کر آئی ٹی یا مینوفیکچرنگ کا کام شروع کر سکتے ہیں۔
’گجرانوالہ، فیصل آباد اور کراچی میں لوگ کپڑے، ادویات اور کاسمیٹکس بنا رہے ہیں جس کے لیے وہ بینک کے پاس کچھ گروی رکھوا کر بڑا قرضہ حاصل کر لیتے ہیں۔‘
سونے کے زیورات خریدیں یا بسکٹ؟
عام طور پر سونا سرمایہ کاری کے لیے محفوظ تصور کیا جاتا ہے تاہم اس میں سرمایہ کاری کیسے کی جائے، اچھا سونا کیسے اور کہاں سے ملتا ہے، کیا دبئی سے خریدا گیا سونا پاکستان کے سونے سے زیادہ بہتر ہے، اس حوالے سے ہم نے آل سندھ صرافہ جیولرز ایسوسی ایشن کے سربراہ حاجی محمد ہارون رشید چاند سے بھی بات کی اور اپنے سوالات ان کے سامنے رکھے۔
ہارون چاند کہتے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر آنے کی صورت میں دنیا بھر کی معیشتیں ایک بار پھر دباؤ کی شکار ہو سکتی ہیں، اور بینکوں کی شرحِ منافع اگر کم رہی تو اُن کے مطابق صرف سونا ہی وہ واحد چیز رہے گی جس میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ منافع بخش ہو سکتی ہے۔
حاجی ہارون چاند کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سونے کے بسکٹ (بار، برِک) ایک گرام سے لے کر ایک کلو تک وزن میں آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون چاہتی ہیں کہ زیور اور سرمایہ کاری دونوں کے طور پر سونا خریدا جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ چوڑیاں یا کڑے خریدیں کیونکہ ان میں زیادہ نقصان نہیں ہوتا اور اگر فائن گولڈ لیں تو اس سے بہتر کچھ ہے ہی نہیں۔
ہارون چاند کہتے ہیں کہ زیورات کے سیٹ میں سب سے زیادہ سونا ضائع ہوتا ہے جبکہ چوڑیاں، کڑوں سے بھی زیادہ بہتر ہیں۔ تاہم ان کے مطابق سب سے اچھا یہ ہے کہ سونے کے بار (بسکٹ) خریدے جائیں۔
سب سے اچھا سونا کس ملک کا ہے؟ اس حوالے سے ہارون چاند کہتے ہیں کہ انڈیا کے سادہ زیورات اور پاکستان کے جڑاؤ زیورات اور چوڑیاں زیادہ مشہور ہیں اور یہیں سے یہ سامان بن کر جاتا ہے، تاہم ان کے مطابق سونے کا معیار عالمی سطح پر یکساں ہوتا ہے۔
سونے کو عام طور پر سب سے محفوظ سرمایہ کاری تصور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ظفر موتی اپنے خاندان کا تجربہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی پردادی نے جو 1970 کی دہائی میں جو پیسے سونے میں لگائے تھے وہ اب قدر میں ان کے خاندان کی تین نسلوں کی تمام تر سرمایہ کاری سے زیادہ ہے جو انھوں نے مختلف چیزوں میں کی تھی۔
سرمایہ کاری کرنی ہے مگر اتنا زیادہ وقت نہیں ہے؟
ایسی صورت میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں میوچوئل فنڈز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں کہیں تو میوچوئل فنڈز ایسی سرمایہ کاری سکیم ہوتی ہے جس میں آپ (سرمایہ کار) کسی انویسٹمنٹ مینیجر کے پاس اپنی رقم رکھواتے ہیں اور ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ آپ کی رقم سے آپ کے بتائے گئے معیارات کے مطابق سرمایہ کاری کے بہترین فیصلے لیں گے۔
اس حوالے سے پاکستان کے میزان بینک کے ذیلی ادارے المیزان انویسٹمنٹ مینیجمنٹ لمیٹڈ کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر محمد اسد نے پاکستان میں میوچوئل فنڈز کے حوالے سے پائے جانے والے عام سوالات کے جوابات دیے۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ میوچوئل فنڈز میں سرمایہ کاری کم از کم پانچ ہزار روپے سے شروع کی جا سکتی ہے۔ اب یہ سرمایہ میوچوئل فنڈز کی کس قسم میں لگایا جائے گا، اس کا تعین یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ سرمایہ کار کتنا خطرہ مول لے سکتا ہے، سرمایہ کاری کا مقصد بچت ہے، ریٹائرمنٹ، یا بچوں کی پڑھائی و شادی وغیرہ۔
اس کے بعد سرمایہ کار کی رہنمائی کی جاتی ہے کہ اسے کس قسم کے میوچوئل فنڈ میں پیسے لگانے چاہییں۔
میوچوئل فنڈز میں ایک قسم سٹاک مارکیٹ فنڈ کی بھی ہوتی ہے جس کے ذریعے آپ کے جمع کروائے گئے سرمائے سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ محمد اسد کہتے ہیں کہ چونکہ سٹاک مارکیٹ میں خطرہ بھی زیادہ ہے اور منافع بھی، اور نتیجتاً یہاں نقصان کا بھی اندیشہ رہتا ہے، اس لیے وہ سب سے پہلے سرمایہ کار کو فکس انکم فنڈز پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اگر کوئی خاتون فکس انکم فنڈ میں ایک لاکھ روپے رکھوانا چاہے تو وہ کتنے منافع کی توقع رکھ سکتی ہیں، اس پر محمد اسد کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد ملکی پالیسی ریٹ پر ہے جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ماضی کا منافع بتایا جاتا ہے اور اس کے بعد رہنمائی کی جاتی ہے کہ یہ پہلے کا منافع تھا اور آئندہ کا منافع اس قدر متوقع ہے۔
محمد اسد کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ سکوک نامی اسلامی بانڈز ہوتے ہیں جن میں منافع کی شرح تھوڑی زیادہ ہوتی ہے مگر منی مارکیٹ نامی فکس انکم فنڈز سے تھوڑا زیادہ خطرہ بھی ہوتا ہے۔
کیا ایسا کوئی بھی اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے خواتین کا ملازمت پیشہ ہونا یا اپنے شوہر یا والد کی جانب سے اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے؟ اس حوالے سے محمد اسد کہتے ہیں کہ مالیاتی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کار کے متعلق مکمل آگاہی رکھتے ہوں کہ ان کے گاہک کا ذریعہ آمدن کیا ہے، آپ کا پیشہ کیا ہے، اس میں کوئی بھی ایسی چیز جو [مالیاتی ادارے کو] مطمئن کر سکے، جس میں شناختی کارڈ، تنخواہ اور ملازمت کا ثبوت، یا کاروبار کی کوئی دستاویز جمع کروانی ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک اطمینان ہو سکے تصدیق کروائی جاتی ہے کہ یہ آمدنی قانون کی نظر میں جائز ہے یا نہیں۔
محمد اسد کہتے ہیں کہ طویل المدتی بنیادوں پر دیکھیں تو سٹاک مارکیٹ سے آپ کو فکس انکم فنڈز کے مقابلے میں زیادہ منافع ملتا ہے، لیکن بیچ کے کچھ برسوں میں مثلاً سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران اور سنہ 2017-18 میں یہ 20 فیصد سے زیادہ تک نیچے بھی گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں فکس انکم فنڈز میں سرمایہ کار کا سرمایہ محفوظ رہتا ہے تاہم منافع کی شرح ملکی پالیسی ریٹ پر منحصر ہونے کی وجہ سے آج کل گذشتہ ایک سال کے مقابلے میں کم ہے۔
چنانچہ محمد اسد کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری سے قبل یہ نہایت ضروری ہے کہ میوچوئل فنڈ کمپنی سے مل کر ان کی پیشکش کی دستاویزات، رپورٹس اور سرمایہ کاری میں موجود خطرے کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کر لی جائے۔