فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں نے ملک بھر میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر میں شدت آنے کے بعد قومی سطح پر دوسرا لاک ڈاؤن لاگو کر دیا ہے جس کا اطلاق کم از کم نومبر کے آخر تک ہوگا۔
صدر میکخواں نے اعلان کیا ہے کہ جمعے کے روز سے شروع ہونے والے اس لاک ڈاؤن میں لوگوں کو صرف ضروری کاموں اور طبعی وجوہات کی بنا پر گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی۔
غیر ضروری کاروبار جیسے کہ ریسٹورانٹ اور شراب خانے بند رہیں گے تاہم سکولوں اور فیکٹریوں کو کھولے رہنے کی اجازت ہوگی۔
اس وقت فرانس میں کورونا وائرس کی وبا اپریل کے بعد سے اونچی ترین سطح پر ہے۔ منگل کے روز ملک میں 33000 نئے کیسز سامنے آئے۔
صدر میکخواں کا کہنا تھا کہ ملک میں دوسری لہر سے مسائل بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ لہر پہلی سے زیادہ تباہ کن ہوگی۔
ادھر جرمنی میں بھی ایمرجنسی لاک ڈاؤن متعارف کروا دیا گیا ہے تاہم اس لاک ڈاؤن کی شدت قدرے ہے مگر وہاں بھی ریسٹورانٹوں، جمز، اور تھیٹروں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یورپ میں ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ بدھ کے روز برطانیہ میں 310 اموات اور 24701 نئے کیسز سامنے آئے۔
متعدد ممالک میں رات کے وقت کرفیو نافذ کیے جا رہے ہیں جن میں فرانس کے 46 ملین افراد بھی شامل ہیں۔
بدھ کے روز پورپ کی بڑی ترین معیشتوں میں لاک ڈاؤن کی اھلاعات سامنے آنے کے بعد فنینشل مارکیٹوں میں مندی دیکھنے کو ملی ہے۔
فرانس میں تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟
بدھ کے روز اپنے خطاب میں صدر میکخواں نے کہا کہ فرانس کو اب ’سختی سے بریک لگانی ہوگی‘ تاکہ وہ اس وبا میں تیزی سے بچ سکیں۔
’یہ وائرس اب اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے جتنی تیزی سے بدترین پیش گوئیوں میں بھی اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ملک میں انتہائی نگہداشت کے وارڈوں میں نصف مریض کورونا وائرس کے ہیں۔
صدر نے کہا کہ لوگوں کو اب اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے ایک فارم پر کرنا ہوگا جیسا کہ مارچ میں ابتدائی لاک ڈاؤن میں تھا۔ سماجی تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
’موسمِ بہار کی طرح آپ کو اپنے گھر سے نکلنے کے لیے یا تو کام پر جانے یا پھر ہسپتال جانے کی اجازت ہوگی یا پھر کسی بیمار رشتے دار کی مدد کرنے یا اشیائے خوردونوس لینے جانے کی اجازت ہوگی۔‘
تاہم انھوں نے کہا سرکاری سہولیات کی فراہمی اور فیکٹریوں کو کھلے رہنے کی اجازت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو روکا نہیں جا سکتا۔
صدر میکخواں نے کہا کہ مارچ میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے برعکس اس مرتبہ لوگوں کو معمر لوگوں کے کیئر ہونز میں جانے کی اجازت ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ یہ پابندیاں یکم دسمبر تک لاگو ہیں اور ان کا ہر دو ہفتے بعد جائزہ لیا جائے گا۔
جرمنی میں کیا تازہ پابندیاں ہیں؟
اس سے قبل جرمن چاسلر اینگلا مرکل نے کہا تھا کہ ان کے ملک اور اب اقدامات کرنے پڑیں گے اور انھو ںنے کورونا وائرس کے لیے ایک قومی کوشش پر زور دیا۔
اگرچہ جرمنی میں دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں انفیکشن ریٹ ابھی کم ہے، تاہم گذشتہ چند ہفتوں میں کیسز کی تعداد میں تیزی کی وجہ سے جرمن حکومت پریشان ہے۔
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ ’ہمارا نظامِ صحت آج کے چیلنج کا مقابلہ تو کر سکتا ہے مگر جس تیزی سے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں، ہم اس نظام کی صلاحیت کی حد پر چنف ہفتوں میں پہنچ جائیں گے۔‘
جرمنی میں دو نومبر کو ایک جزوی لاک ڈاؤن شروع کیا جائے گا جس میں:
- سکول کھلے رہیں گے۔
- سماجی روابط کو دو گھروں تک اور دس افراد تک محدود کر دیا جائے گا۔ سیاحتی سرگرمیاں روک دی جائیں گیں۔
- شراب خانے بند ہوں گے اور ریسٹورانٹوں کو صرف ڈیلیوری تک محدود کر دیا جائے گا۔
- ٹیٹو بنانے کی دکانیں اور مساج پارلر بند ہوں گے
- چھوٹی کمپنیاں جن کہ لاک ڈاؤن سے متاثر ہوں گی انھیں نومبر 2019 کی آمدنی کیں 75 فیصد دیا جائے گا
- اس صورتحال کا 11 نومبر کو دوبارہ جائزہ لیا جائے گا
جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات قومی سطح پر ایمرجنسی سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔