ریئلٹی ٹی وی سٹار کم کارڈیشیئن ویسٹ نے اپنی 40ویں سالگرہ ایک جزیرے پر منائی ہے جس میں ان کے خاندان اور دوستوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تاہم وبا کے اس دور میں پرتعیش پارٹی کا انعقاد کرنے پر اُن پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ کم نے ایسا کر کے ’احساس سے عاری ہونے‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی برتھ ڈے پارٹی میں شریک مہمانوں نے نہ تو سماجی دوری کا ضابطہ اپنایا اور نہ ہی ماسک پہنے۔
تاہم کم کا کہنا تھا اس تقریب کے انعقاد مہمانوں کو دو ہفتوں تک قرنطینہ میں رہنے اور طبی معائنوں کے بعد کیا گیا تھا۔
اس تقریب کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا اس تقریب نے انھیں عاجزی کے ساتھ یاد دلایا کہ اُن کی زندگی کتنی مراعات یافتہ ہے۔
یاد رہے کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک گیارہ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بیشتر ممالک کو اقتصادی بدحالی کا سامنا ہے۔
تاہم جہاں کئی صارفین نے ان کی صاف گوئی کو پسند کیا وہیں دیگر نے انھیں ’غیر حساس‘ ہونے کے طعنے بھی دیے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ کتنا بےتکا ہے۔ امیر لوگ ایک نجی جزیرے پر سب کچھ نارمل ہونے کا فریب دے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقیت میں جو لوگ نارمل ہیں وہ کرسمس اور دیگر تقریبات کو (کورونا کی وجہ سے) منسوخ کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں ایک ریکارڈ تعداد میں شہری وبا کے باعث بے روزگار ہو چکے ہیں۔
برطانوی موسیقار پیٹر فریمپٹن نے کم کارڈیشیئن کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’کیا آپ اتنی بے حس ہیں کہ آپ کو احساس ہی نہیں کہ کورونا کے بدترین دور میں زیادہ تر لوگ اس قسم کی باتیں سننا نہیں چاہتے ہیں؟ لوگ فوڈ بینکس جا رہے ہیں (تاکہ زندہ رہنے کے لیے خوراک حاصل کر سکیں) نجی جزیروں میں نہیں۔‘
اس تقریب کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کم نے کووڈ 19 کے دنیا پر پڑنے والے گہرے اثرات کا بھی ذکر کیا۔
کم کارڈیشیئن کا کہنا تھا ’کووڈ 19 سے پہلے ہم میں سے شاید کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک محفوظ مقام پر اپنے خاندان اور دوستوں کے ہمراہ ہونا بھی ایک سہولت ہے۔‘
انھوں نے وضاحت دی کہ ’دو ہفتوں تک طبی معائنوں اور سب سے قرنطینہ کیے رکھنے کی درخواست کے بعد میں نے اپنے قریب ترین لوگوں کو اس سفر اور نجی جزیرے پر دعوت کا سرپرائز دیا جس میں ہم نے مختصر وقت کے لیے یہ ظاہر کیا کہ سب کچھ پہلے کی طرح نارمل ہے۔‘
’ہم نے رقص کیا، بائیکس چلائے، وہیلز کے قریب تیراکی کی، ساحل پر فلمیں دیکھیں اور بہت کچھ۔‘
’مجھے احساس ہے کہ کہ بہت سے لوگوں کے لیے ایسا کرنا ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ اس لیے ایسے لمحوں میں، میں عاجزی کے ساتھ خود کو یاد دلاتی ہوں کہ میری زندگی کتنی مراعات یافتہ ہے۔‘
کچھ لوگوں نے ان کی ٹویٹ کا جواب میمز سے دیا جبکہ کچھ میں ان کی تصاویر کو تبدیل کر دیا گیا۔
کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس دعوت کا ذکر کرنے کو شیخی بھگارنا قرار دیا۔
ایک صارف جینا کوئنگلے کا کہنا تھا ’واہ، لوگوں ںے اپنے پیاروں کو فون پر خدا حافظ کہا اور ہسپتال میں اکیلے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ لیکن سوشل میڈیا پر ایک مہنگے پرتعیش سفر کی تصاویر پوسٹ کرنا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب دنیا مشکلات کا شکار ہے۔ واقعی بہت عاجزی اور منکسر المزاجی کا کام ہے۔ سچ میں۔‘