کالم

زباں پر جب محمد مصطفیٰ کا نام آتا ہے

Share

ربیع الا ول کا مہینہ آتے ہی مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ اسی مہینے میں حضرت محمد ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ کئی ممالک میں مسلمان جلسہ کرتے ہیں اور کہیں جلوس نکالتے ہیں۔برطانیہ میں بھی مختلف مقامات پر جلوسِ محمدی آن و شان سے نکالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل سجائی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

اسلامی تاریخ کا اگرمطالعہ کیا جائے تو اسلام مذہب میں جشنِ سالگرہ اور اس سے منسلک رسومات کو نہ ہی تو ترجیح دیا گیاہے اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی حدیث پائی جاتی ہے۔ تاہم چند ممالک کے مسلمان اس موقعہ پر خوشی منانا درست مانتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔

حضرت محمد ﷺکو یاد کرنے کے لئے نہ تو کوئی وقت معیّن ہے،نہ کسی خاص جگہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی دن،مہینہ اور سال مقرّر ہے۔ ویسے بھی حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو اپنانا اور اس پر عمل کرنا ہم سب مسلمانوں کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہم دنیاوی ضروریات کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ مثلاً پابندی سے نماز پڑھنا، صدقہ دینا، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، غلط کام کرنے سے پرہیز کرنا، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا، صبر کرنا،شکر گذاری کرنا، معاف کرنا اور دوسروں کا خیال رکھنا جیسی کئی خوبیاں ہیں جس پر اگر ہم عمل کریں تو ایک مسلمان اپنے اللہ کو آسانی سے راضی کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس سے رو ز مرّہ کی دشواریوں سے چھٹکارہ ملے گا اور ہم دنیا میں ایک اچھے ا ور نیک انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتے ہیں؟ اور اگر کرتے ہیں تو ہم کیوں معمولی سے معمولی پریشانیوں کو حل نہیں کر پا رہے ہیں۔کیوں آج مسلمان پوری دنیا میں ذلّت کا سامنا کر رہا ہے۔ کیوں مسلمان آ ج بے بس ہے۔ کیوں مسلمانوں کو انتہا پسند کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ کیوں مسلمان آج نام اور اپنے خدّو خال سے پہچانا جاتا ہے۔ ایسے کئی سوالات ہیں جو ہمیں دن بدن پریشان کر رہے ہیں اور ہم اس کو حل کرنے کی بجائے اس میں الجھتے ہی جارہے ہیں۔

تو آئیے آج ہم مختصر طور پر حضرت محمد ﷺ آ ج کے دن میں کتنے متعلقہ ہیں اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ تاکہ ہم اور آپ یہ جان سکیں کہ اللہ نے جس عظیم انسان اور نبی کو ہمارے لئے بھیجا تھا اور جس نے پورے کائنات کی بھلائی کے لئے ایسی مثالیں قائم کی ہیں۔کیا اس پر ہم عمل کر رہے ہیں اور کیا ہم ایک نیک اور سچّے انسان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم بہت سارے مسلمان دنیا کو اپنی دیانت داری، خلوص، اخلاق، تعلیم، صبر، ہمدردی کا بہترین نمونہ پیش کر کے صرف اللہ کو ہی راضی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی اسلام کی خوبیوں سے متاثر کر رہے ہیں۔
میں اس بات کو نہیں مانتا کہ مذہب صرف ایک فرمان ہے بلکہ میں اسلام مذہب کو روز مرّہ کی زندگی گزارنے اور نیک انسان بننے کا ذریعہ مانتا ہوں جو چودہ سوسال قبل بھی اسی مقصد کے لئے تھا۔حضرت محمد ﷺ ایک عقل مند،تیز فہم،واضع سوچ اور شفقت والے نبی تھے۔ان کی تعلیم سوچی سمجھی،جامع اور انسانی زندگی کے پہلووئں کو بدلنے اور فائدے کے لئے تھا۔

حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کے لئے تین عظیم تحفہ دیا ہے۔ پہلا حقیقت کے حقیقی نقطہ نظر کی وضاحت،دوسرا اخلاقی اقدار اور انسانی تعلقات کا فروغ، اور تیسرا وجوہات کا ڈھونڈنا اور عقل کے استعمال کو بڑھا وا دیناہے۔

حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں لوگوں میں زندگی جینے کا مقصد محض کھاناپینا، اپنی خواہش کی تکمیل کرنا اور مر جانا تھا۔ اس طرح خواہشات ان کا خدا بن گیا اور اس کی پرستش ان کا عقیدہ تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں نے اپنے دولت اور عقیدے کے مطابق مٹّی اور پتھروں کے بتوں کو بنا کر پوجنا شروع کیا۔لیکن حضرت محمد ﷺ کا پیغام بالکل سادہ اور معنی خیز تھا انہوں نے اعلان کیا کہ ’ہم صرف ایک اللہ کو مانتے ہیں جو ہمارا رب ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اور وہ تمام تعریف کے لائق ہے‘۔حضرت محمد ﷺ نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسانی زندگی دنیا میں ایک سفر ہے۔ جس میں اس بات کا موقعہ دیا جاتا ہے کہ ہم کس طرح سے دنیا میں زندگی گزاریں اور ہمارے اعمال کتنے اچھے ہوں۔ جس کی بنا پر ہم جنت اور آخرت کے مستحق ہونگے۔

انفرادیت اور خود پرستی ہمارے معاشرے کی دو عام خصوصیات ہیں۔ جب انسان میں ہمدردی،رحمدلی،مغفرت اور صبرکا احساس ختم ہونے لگتا ہے تو اس میں آزاد خیال جیسا رویہ پنپنے لگتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے اخلاقی اقدار اور انسانی تعلقات کے متعلق بہت عمدہ باتیں بیان کی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے انسانی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے مظبوط کردار اور اخلاقی قدروں کو فروغ دینے کی تعلیم دی ہے۔ اسلام مذہب میں اندرونی اقدار کی محبت، رحمدلی اور صدقہ کو اہم مانا گیا ہے بجائے اس کے کہ اقدار کی انسدادصفات، دولت اور شہرت کو ترجیح دی گئی ہو۔اسلامی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ ا چھے خیالات کو اپنائے جس سے لوگوں میں ایک مظبوط کردار پیدا ہوگااور انسان میں رحمدلی، سخاوت اورمغفرت جھلکے گا۔

اسلام میں اخلاقی تعلیمات پر کافی زور دیا گیا ہے اور جذباتی مطالبات، اخلاقی جانکاری اور سماجی ذمّہ داریوں کو فراہم کرنے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ ذاتی تعلقات کی تعمیر اور سماجی تعلقات سے ایک فرد، اس کا خاندان اور سوسائٹی کواس کے ذریعے زندگی کے دائروں میں ضم کیا جا سکتا ہے۔اسلام نے کمیونٹی کو فروغ دینے کی بات کہی ہے جس کے لئے خود کی قربانی، رحمدلی، دوسروں کا خیال رکھنااور سخاوت جیسی باتوں کو اپنانے پر زور دیا گیاہے۔حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’اے لوگو! اللہ نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا ہے لہٰذا اسلام میں کہا گیا ہے کہ’سخاوت اور حسنِ اخلاق کے ساتھ زندگی بسر کرو،خرچ کرو(اللہ کی راہ میں) اور عرش والے سے کمی کا ڈر نہ رکھو‘۔
حضرت محمد ﷺ نے شکر گزاری اور مغفرت کے لئے عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔ یہاں میں حضرت محمد ﷺ کی اخلاقی رویےّ اور اخلاقی اقدار کی مثا لیں پیش کرونگا جسے انہوں نے اپنے پیروکاروں کو بتا یا تھا۔ ان میں ایک شکر گزاری اور دوسرا مغفرت ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے کہا کہ ’جو کوئی لوگوں کا شکر گزار نہیں کرتا ہو وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا ہے‘۔ محققین نے اس بات کو مانا ہے کہ شکریہ ادا کرنے کی فضیلت سے لوگوں کو فائدہ پہونچتا ہے اور اس سے صحت بھی اچھی ہوتی ہے۔

حضرت محمدﷺ کو معاف کرنا سب سے زیادہ پسند تھا۔ جب حضرت محمد ﷺ طائف شہر پہونچے تو قریش نے ان پر بڑے ظلم ڈھائے۔ اس وقت حضرت محمد ﷺ کافی اکیلے ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ اور ابو طالب کا انتقال ہوچکا تھا اور آپ ذہنی طور پر کافی پریشان تھے۔ آپ کی باتوں کو ماننے سے لوگوں نے انکار کر دیا اور آپ پر پتھروں سے حملہ کیا گیا۔ جس سے آپ لہو لہان ہوگئے اور آپ ذہنی اورجسمانی طور پر ذخمی ہوگئے۔ اس وقت حضرت محمد ﷺ نے اللہ سے دعا ما نگی کہ ’یا اللہ تو میری کمزوری کو سمجھ، میری بے بسی کو دیکھ۔ اے اللہ تو رحیم اور کریم ہے! آپ مظلوم انسانوں کے مالک ہیں اور آپ میرے بھی رب ہیں تو آپ کس کے حوالے مجھے چھوڑ رہے ہیں۔ان کے حوالے جو میری ذلّت کر رہے ہیں یا ان دشمنوں کے حوالے جن کا غلبہ ہے۔یا اللہ آپ کی خوشی ہی میرا مقصد ہے‘۔

قرآن نے علم حاصل کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے اور وجوہات جاننے اور بتانے کا فرمان دیا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب اور علم کی مہارت رکھنے والے انسان میں ہمیشہ یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ وجہ جاننا چاہتا ہے اورمنطِق اور مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔پروفیسر (Maurice Bucaille)موریس بوکیل نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قرآن کی بہت ساری باتیں جدید سائنس میں پائی جاتی ہیں جو کہ ایک کمال ہے۔

قرآن نے حضرت محمد ﷺ کو ایک خوبصورت، پیار کرنے والا، شفقت اور دیکھ بھال کرنے والا نبی بتایا ہے۔ یوں تو تاریخ نے عظیم لیڈر، اسکالر،حکمراں، موسیقار،شاعر، ڈاکٹر اور موجد کو پیدا کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے اپنے طور پر دنیا میں ایسے ایسے کارنامے کئے ہیں جسے دنیا یاد رکھتی ہے۔لیکن حضرت محمد ﷺ کوایک منفرداور سادہ زندگی گزارنے کے بعد بھی دنیا ان کو ایک عظیم انسان کے طور پر مانتی ہے۔ وہ انسان جس نے دنیا میں اسلام مذہب کی خوبصورت بات کو لوگوں تک پہونچایا اور امن کا پیغام پھیلایا۔ حضرت محمد ﷺنے حسنِ اخلاق اور کردار کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے جس کا اعتراف دنیا کر چکی ہے۔ قرآن نے حضرت محمد ﷺ کو پوری کائنات کا ایک مثالی شخصیت بیان کیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی عقیدت کی طہارت، نرم رویہّ، اعلیٰ کردار اور رحمدلی نے اس بات کو سچ ثابت کیا ہے۔

حضرت محمد ﷺ سے محبت ہر مسلمان کا بنیادی اور اہم جزوہے یوں بھی ہر مسلما ن حضر ت محمد ﷺ سے ایک منفرد لگاؤ اور محبت رکھتا
ہے۔ آج ہم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ہم حضرت محمد ﷺ کی زندگی کے چند خوبصورت پہلو کے ذریعہ اپنے اعمال کو درست کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ میں اپنے اس شعر سے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں کہ:
زباں پر جب محمد مصطفیٰ کا نام آتا ہے
میرے دل کو میسّر دائمی آرام آتا ہے