پاکستان

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن: عاصمہ جہانگیر گروپ کے وکیل لالا لطیف آفریدی کون ہیں؟

Share

پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس سال 76 برس کے ایڈووکیٹ عبدالطیف آفریدی کو اپنا صدر منتخب کیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ گروپ کے امیدوار لطیف آفریدی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا کی حمایت بھی حاصل تھی۔

وکلا سیاست میں عاصمہ جہانگیر گروپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ تصور کیا جاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو پاکستان بار کونسل کے بعد ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم تصور کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ان انتخابات کے معرکے کو وکلا برادری اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی اور حزب مخالف کی جماعتوں کے مؤقف کی حمایت کرنے والوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی حمایت اور مخالفت کرنے والے وکلا کے درمیان تصور کرتے ہیں۔

لطیف خان آفریدی ان وکلا میں شامل تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور اب اس ریفرنس پر سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کا فیصلہ آنے کے بعد صدر اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لطیف آفریدی کے مد مقابل صدارتی امیدوار ستار خان وکلا کے اس دھڑے کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے جو کالعدم قرار دیے گئے اس صدارتی ریفرنس کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ستار خان کو حامد خان گروپ کی حمایت حاصل تھی اور اس گروپ میں شامل اہم رہنماؤں میں حامد خان، منیر اے ملک اور رشید اے رضوی جیسے وکلا شامل تھے، جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی پیروی کرتے رہے ہیں۔

منیر اے ملک تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اس صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست کی پیروی بھی کرتے رہے ہیں۔

پیشہ وارانہ امور اور وکلا سیاست دو الگ الگ معاملات

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ پیشہ وارانہ امور اور وکلا کی سیاست دو الگ الگ معاملات ہیں لیکن ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر پیشہ وارانہ امور میں ایسے کسی معاملے کی مخالفت کی جا رہی ہے جو ان کے نظر میں غیر آئینی ہے تو پھر سیاسی میدان میں بھی اصولوں کو اپناتے ہوئے ایسے افراد کی مخالفت کرنی چاہیے جو غیر آئینی اقدام کی حمایت کرتے ہوں۔

اُنھوں نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں وکلا کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل تھی اور بہت کم اس کے مخالف تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے حالیہ انتخابات بھی آزاد عدلیہ کی تحریک کے تناظر میں لڑے گئے۔

لطیف آفریدی

امجد شاہ نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق حساس ادارے ان انتخابات میں بڑے متحرک نظر آئے اور اُنھوں نے ان انتخابات میں اس دھڑے کو کامیاب کرانے کے لیے کسی حد تک اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی، جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کی حمایت کرتا تھا۔

حامد خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جس امیدوار کی حمایت کی تھی ان سے یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی حمایت میں کوئی بیان نہیں دیں گے۔ ان کے مطابق اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں اور جہاں تک بات ہے آئین کی بالادستی کی تو پھر ہم سب ایک ہیں۔

لالا لطیف آفریدی کون ہیں؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر لطیف آفریدی ان افراد میں شامل ہیں جو 70 کی دہائی کے بعد ملک میں جتنے بھی مارشل لا نافذ کیے گئے اور پھر ملک میں حزب مخالف کی جتنی تحاریک چلیں تو وہ ہر بار جیل گئے۔

سابقہ قبائلی علاقے ضلع خیبر کی وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ لطیف آفریدی کا سیاسی تعلق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے ہے۔ رواں برس جولائی میں ان کی جماعت اے این پی نے انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی تھی جسے بعد میں بحال کر دیا گیا۔

ان کی آواز اور دبنگ انداز آج سے نہیں بلکہ زمانہ طالب علمی سے ہے۔ انھیں محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں حمایت کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ بطور سیاسی کارکن سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں بھی پانچ مرتبہ جیل گئے۔

پھر سنہ 2007 میں انھوں نے ملک میں پرویز مشرف کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کی شدید مخالفت کی۔

اس بار وہ جیل تو نہیں گئے لیکن چھ اکتوبر سنہ 2007 کو ہی خیبر پختونخوا اسمبلی کے گیٹ پر جب وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے تو بکتر بند گاڑی نے انھیں روند ڈالا جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جس کے بعد اب وہ چھڑی کے سہارے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔

لطیف لالا کا سیاسی سفر

لطیف آفریدی سنہ 1968 میں گریجویشن کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ تین دہائیوں تک ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد وہ سنہ 2006 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

وہ چھ بار پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان بار کونسل کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر بھی۔

سنہ 1979 میں غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے پھر اس جماعت کا عوامی نیشنل پارٹی میں انضمام ہوا۔ لطیف آفریدی رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

کچھ عرصہ نیشنل عوامی پارٹی اجمل خٹک سے وابستہ ہوئے لیکن پھر اے این پی کا حصہ بن گئے۔

عبدالطیف آفریدی نے ہزاروں مزدوروں، سیاسی کارکنوں اور شہریوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑے ہیں۔

ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف صوبہ خیبر پختونخوا میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے ان میں سے زیادہ تر مقدمات کی پیروی لطیف آفریدی کرتے رہے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز کے خلاف درخواستوں کی پیروی بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر کرتے رہے ہیں۔

لطیف لالا کی جیت پر سوشل میڈیا پر رد عمل

لطیف لالا کی جیت کی خبر پر بار ایسوسی ایشن میں حامی وکلا بھنگڑے ڈالتے اور مبارکباد پیش کرتے دکھائی دیے۔ انقلاب اور جمہوریت کی جیت کے نعرے لگائے جاتے رہے اور ٹوئٹر پر مبارک ہو لالہ ٹرینڈ کرتا رہا۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے مبارکباد دیتے ہوئے لکھا کہ وہ اپنے استاد کو جیت کی مبارکباد دیتے ہیں اور یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان سب کے لیے قابل فخر ہے جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔

انھیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کامیابی کے لیے حمایت ملی۔ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے بھی ٹوئٹر پر انھیں کامیابی پر مبارکباد دی۔

صحافی حامد میر نے لکھا مادر ملّت زندہ باد کا نعرہ لگا کر غدار قرار پانے والے لالہ عبداللطیف آفریدی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نئے صدر منتخب ہو گئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیریں رحمان نے اپنے مبارکباد کے پیغام کے ساتھ لکھا یہ پاکستان میں طویل جمہوری جدوجہد کے ترقی پسند اور بہادر چہرے کی فتح ہے۔ مستقل دو قدم آگے اور دو پیچھے میں یہ ایک آگے ہے۔

سماجی کارکن عمار علی جان نے اس خبر پر اپنے ردعمل میں لکھا ’لطیف آفریدی صاحب نے آمریت کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اپنی پوری زندگی شہری آزادی کے لیے کام کیا۔ ان کا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے انتخاب ان تمام لوگوں کے لیے لاجواب خبر ہے جو معاشرتی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔‘

ممبر صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ لطیف آفریدی کا انتخاب ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ پاکستان قانون کی حکمرانی اور انسانی و شہری حقوق کے حوالے سے شدید بحران سے گزر رہا ہے تاہم انھوں نے یقین ظاہر کیا کہ وہ سول اور سیاست کی بحالی اور گنجائش کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

صدارتی انتخابات میں لطیف آفریدی کے ساتھ سیکریٹری سپریم کورٹ بار کے انتخابات جیتنے والے امیداور احمد شہزاد فاروق رانا ہیں۔ انھوں نے اپنے مخالف امیدوار کو 866 ووٹوں سے شکست دی تھی جو کہ سپریم کورٹ بار کے انتخابات کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ احمد شہزاد رانا کا تعلق لاہور سے ہے۔

نومنتخب سکریرٹری احمد شہزاد کا کہنا ہے کہ ان کی ترجیحات میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کو مزید بہتر بنانا شامل ہے۔

اُنھوں نے ملک میں رائج ججز کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ججز کی تعیناتی کا اختیار صرف چند ججز کو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اختیار پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے جو کہ ملک میں سب سے سپریم ادارہ ہے۔