آپریشن جبرالٹر: جنرل محمد موسیٰ کا فوجی کیریئر اور عسکری مہمات کے وہ منصوبے جن کا کوئی مالک نہیں
یہ سنہ 1958 کی بات ہے۔ ماہ اکتوبر کے آخری دنوں کے آتے آتے پاکستان میں بھی بہت کچھ تبدیل ہوا، مارشل لا لگا اور ایوب خان اس کے ناظم اعلیٰ (ایڈمنسٹریٹر کا لفظ اس وقت تک اُردو میں استعمال کرنے کی روایت نہ تھی) بنائے گئے اور وزرات عظمیٰ کا منصب بھی اُن ہی کی بھاری بھر کم شخصیت میں سما گیا۔
لیکن 28 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو اور بھی بہت کچھ بدل گیا۔
وہ اسکندر مرزا جو اب تک صدارت کے منصب پر فائز تھے جلاوطنی کے پہلے مرحلے میں کوئٹہ روانہ ہو چکے تھے۔ بس یہ وہی صبح تھی جس میں لیفٹیننٹ جنرل محمد موسیٰ خان صدارت کے منصب پر کچھ دیر پہلے قابض ہونے والے ایوب خان کے دفتر کے باہر بیٹھے ملاقات کے منتظر تھے۔
ملاقاتی کے لیے یہ واقعہ اُن کی زندگی کے اہم اور خوشگوار ترین دنوں میں سے ایک ہے کیونکہ جنرل ایوب خان نے انھیں بتایا کہ انھوں نے انھیں (یعنی جنرل موسیٰ کو) فوج کا کمانڈر اِن چیف (اس زمانے میں چیف آف آرمی اسٹاف ہی کو کمانڈر انچیف کہا جاتا تھا) بنانے کا فیصلہ کیا ہے، یوں صدر مملکت کی حیثیت سے ایوب خان اور بری فوج کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے جنرل محمد موسیٰ خان کے کیریئر کا آغاز تقریباً ایک ساتھ ہوا۔
جنرل موسیٰ اس سے پہلے بھی کچھ ایسے گمنام نہ تھے۔ سنہ 1958 سے چند برس قبل کراچی میں طلبہ کے وہ تاریخی فسادات ہوئے تھے جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، وفاقی وزیر داخلہ کی گاڑی اور انسپکٹر جنرل پولیس کا دفتر جلایا گیا جبکہ تھانوں اور شہر کی دکانوں سے اسلحہ لوٹ لیا گیا تھا۔
ان واقعات کی وجہ سے حالات بے قابو ہوئے تو حکومت نے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کر لیا۔ جنرل موسیٰ اُن دنوں جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی ہوا کرتے تھے۔ بحالی امن کے اس آپریشن کے دوران میں خود انھوں نے بھی کئی مقامات کا دورہ کیا۔
ایسے ہی کسی موقع پر صحافیوں نے ان سے سوال کیا: ’کیا حالات پر قابو پانے کے لیے آپ گولی چلائیں گے؟‘
جنرل موسیٰ نے بلاتامل جواب دیا: ’ہم اپنے بھائیوں کو ہلاک نہیں کریں گے۔‘
اپنے بھائیوں پر گولی نہ چلانے کا عزم رکھنے والے یہ وہی جنرل موسیٰ تھے جنھوں نے اُس واقعے کے ٹھیک پانچ برس کے بعد چار ستاروں والے جنرل کی حیثیت سے اُس ادارے کی قیادت کا منصب سنبھالا جس میں چالیس برس قبل انھوں نے ایک جوان کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی۔
ان کے طویل پیشہ وارانہ اور سیاسی کیریئر کے دوران بے شمار اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے ہوں گے لیکن فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جو واقعات ظہور میں آئے وہ نہ صرف تاریخی ہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے تعلق سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
ان واقعات کی تعداد تین ہے، یہ ایک دوسرے کاحصہ ہیں اور باہم منسلک ہیں۔ یعنی آپریشن جبرالٹر، آپریشن گرینڈ سلام اور سنہ 1965 کی پاکستان، انڈیا جنگ۔
یہ تین واقعات بھی آنکھ مچولی کے کھیل کی طرح ہیں جن میں فوج کے سربراہ کہیں دکھائی دیتے ہیں، کہیں دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ کہانی ذرا طویل ہے، اسی لیے ان تاریخی واقعات کا پس منظر سمجھنا مشکل ہو گا، اگر سات اپریل 1965 سے جن واقعات کا آغاز ہوا، ذہن میں نہ ہوں۔
اس دن پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ کے ساحلی، دلدلی سرحدی علاقے میں مسلح چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہوا تھا۔ اس زمانے کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے مطابق اس روز ان جھڑپوں کا آغاز انڈیا کی طرف سے ہوا اور پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں انڈین توپیں خاموش ہو گئیں۔
تین دن کے بعد ایک اور تصادم ہواجس میں انڈیا سرحدی علاقے سے ایک پوسٹ خالی کر کے پیچھے ہٹ گیا۔ جنرل موسیٰ کی کمان میں فوج کا یہ پہلے بڑے کارنامے تھے جنھوں نے آنے والے دنوں میں عسکری اور سیاسی محاذوں پر اہم کردار ادا کرنا تھا۔
ان دو واقعات نے فوج کا حوصلہ بلند کر دیا، یہی سبب تھا کہ اب اس کے بعض افسروں کے دل اس محاذ پر کسی بڑے اور فیصلہ کن معرکے کے لیے مچلنے لگے، بالآخر 26 اپریل کو انھیں ایک موقع میسر آ گیا۔
اس حملے کی ابتدا 26 اپریل کو ہوئی جس کا معرکہ بیار بیٹ نامی مقام پر گرم ہوا، جسے پاکستان نے فتح کر لیا۔یہ چونکہ سمندری اور دلدلی علاقہ تھا اس لیے دلدلوں اور پانیوں کو عبور کر نے کے خصوصی انتظام ضروری تھے، ایسا ہی ایک انتظام انڈین فوج نے اس علاقے میں کیا تھا۔
الطاف گوہر کی کتاب ’ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال‘ کے مطابق انڈین فوج نے لوہے کے خالی گیلنوں کا پل بنا کر ایک سمندری کھاڑی کو عبور کیا تھا۔ بہت آسان تھا کہ اس عارضی انتظام کو تباہ کر کے انڈین فوج کی واپسی کا راستہ بند کر دیا جائے۔ جنرل موسیٰ ایوب خان سے اس کارروائی کی اجازت حاصل کرنے کے لیے متحرک ہوگئے لیکن ملک کا فوجی حکمراں اپنے کمانڈر انچیف سے مختلف انداز میں سوچ رہا تھا۔
اس معرکے میں پاکستانی فوج انڈین فوجی دستے کا راستہ بند کر دیتی تو صورتحال دھماکا خیز ہو جاتی۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے دو عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور برطانیہ پہلے ہی پریشان تھیں اور خطے کے دونوں بڑے ملکوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہی تھیں۔ ایسی صورت میں مسائل کچھ اور گمبھیر ہو جاتے اور دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ کے خدشات کو ٹالنا مشکل ہو جاتا۔
یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے حکمراں ایوب خان نے انھیں ایسی کسی کارروائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور انھیں ہدایت دی کہ وہ دشمن کا مزید تعاقب کرنے کے بجائے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے پر توجہ دیں۔
ایوب خان کا یہ فیصلہ فوج اور اس کے سربراہ کی خواہشات کے برعکس تھا جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں کچھ ایسے خیالات مزید پختہ ہوئے کہ جیسے یہ بوڑھا فوجی حکمراں پاکستان کی فتوحات کے راستے میں رکاوٹ بن چکا ہے۔
جنرل موسیٰ اس فیصلے پر خاموش ضرور ہو گئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے یہ منصوبہ ترک نہ کیا، اس کے شواہد آنے والے دنوں میں مزید واضح ہو کر سامنے آئے۔
جی ایچ کیو اور بعض فوجی افسروں کے دلوں میں سرسرانے والے ان خیالات کا اندازہ اس سے قبل 10 اپریل کو بھی ہو چکا تھا جب ایوب خان سوویت یونین کے دورے کے بعد جنرل ہیڈکوارٹر کے دورے پر پہنچے۔
کیا اس انداز فکر کے پیچھے فوج کے سربراہ کا ذہن بھی کام کر رہا تھا؟ خیال یہی ہے کیونکہ اس موقع پر ایوب خان کو جو بریفنگ دی گئی اس کا بنیادی نکتہ ہی یہی تھا کہ انڈین فوج رن کچھ میں پوری تیاری اور لاؤ لشکر کے ساتھ آئی تھی لیکن ’ہمارے دلیر کمانڈروں کی قیادت میں لڑنے والی فوج کو دیکھتے ہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئی‘ لہٰذا پاکستان کو اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کا اس علاقے میں تعاقب کرنا چاہیے۔
ریاست کے سربراہ کو جی ایچ کیو میں دی جانے والے بریفنگ ان واقعات میں نہایت اہم ہے جس سے جنرل موسیٰ کا ذہن سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ 26 اپریل کو انڈین فوج کی واپسی کا راستہ بند کر کے دشمن کو بے دست و پا کرنے کا خیال بھی اسی ذہن کی پیداوار تھا۔ ایوب خان نے محسوس کیا کہ فوج کے سینیئر افسران بھی اس صورتحال پر بہت نازاں اور فتح کے نشے سے سرشار تھے اور ان کے خیال میں یہ ایسی ہی کامیابی تھی جیسی کامیابی چین کو سنہ 1962 میں انڈیا کے مقابلے میں حاصل ہوئی تھی، لہٰذا وہ چاہتے تھے اس نادر موقع کو ضائع نہ جانے دیا جائے اور انڈیا کو سبق سکھا دیا جائے۔
جی ایچ کیو میں دکھائی دینے والے ان مناظر نے ایوب خان کو پریشان کر دیا کیونکہ ان کے مشاہدے کے مطابق جنرل موسیٰ جن افسروں کے گھیرے میں تھے وہ انھیں کسی بھی وقت کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے یہ معاملہ جنرل موسیٰ پر چھوڑنے کے بجائے عسکری معاملات کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
اس کے بعد جو ہوا اس میں جنرل موسیٰ اگرچہ بہت نمایاں دکھائی نہیں دیتے لیکن معاملات نے جو رخ اختیار کیا، کیا یہ سب ان کے بغیر ممکن تھا؟ ایوب خان کے اس فیصلے نے بہت سے دلوں میں ان کے حوصلے وغیرہ کے بارے میں کئی سوال پیدا کر دیے۔ دورہ جی ایچ کیو اور 26 اپریل کو انڈیا کا سرگرم تعاقب کرنے سے روکنے کا یہ واقعہ ایک ایسی بنیاد کا کام دیتا ہے جس میں ایوب خان کے سیاسی مستقبل میں جھانکنا بھی آسان ہو جاتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ستمبر کی جنگ کے اسباب کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہی واقعات رہے ہوں گے جن کے باعث وزارت خارجہ پاکستان اور جی ایچ کیو کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کی ایک کیفیت پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں ریاستی امور میں فیصلہ کن کردار رکھنے والے ان دونوں اداروں بلکہ الطاف گوہر کی زبان میں فوج کی اعلیٰ قیادت اور وزارت خارجہ کے حلقوں میں ایوب خان کے خلاف دبی دبی تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جی ایچ کیو میں اس بات کا بہت افسوس تھا کہ رن کچھ میں پھنسے ہوئے انڈین فوجیوں کو ‘جال’ سے کیوں نکل جانے دیا گیا، حالانکہ ان کا راستہ بہت آسانی کے ساتھ کاٹا جا سکتا تھا۔
کیا ان لوگوں کو جنرل موسیٰ کی حمایت حاصل تھی؟ متعلقہ کرداروں نے اپنی کتب میں اس سلسلے جو گواہی رقم کی ہے، وہ اس اہم سوال کا جواب فراہم نہیں کرتی لیکن فوج کے سربراہ اس سے ناواقف رہے ہوں گے اور اگر جانتے ہوں گے تو سوال یہ ہے ان وزن پلڑے کے کس جانب تھا؟
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی مسلح تصادم کے ضمن میں ایوب خان کس درجے کے محتاط تھے؟ اس کا اندازہ اسی صورت حال سے منسلک کئی واقعات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قریباً ایک برس قبل انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا انتقال ہوا تھا جس کی وجہ سے وہاں قیادت کا بحران پیدا ہوا۔ اس موقع پر ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز احمد نے انھیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن ناکام رہے کیونکہ ایوب خان نے مذاکرات کا راستہ ترک کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن رن کچھ کے واقعات سے لگتا ہے کہ جنرل موسیٰ کسی اور انداز میں سوچ رہے تھے کیونکہ اس کے بعد تو ایوب خان پر دباؤ بڑھا دیا گیا۔ لیکن اس مرحلے پر بھی انھوں نے اپنے دفتر خارجہ اور فوج کو یہی سمجھایا کہ ہمیں انڈیا پر دباؤ تو بہر حال رکھنا چاہیے لیکن کوئی ایسا راستہ بلکہ اشتعال انگیز حرکت ہرگز نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے ہم جنگ کی ہولناکیوں کا شکار ہو جائیں۔
ان کا ایک خیال اور بھی تھا، وہ دل سے سمجھتے تھے کہ کشمیر پاکستان کے لیے اہم ہے لیکن اس کی خاطر پاکستان کو خطرے میں ڈال دینا ان کے نزدیک عقل سے بعید تھا۔
ایسے شواہد بھی دستیاب ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور بعض معاملات میں دفتر خارجہ کی کارکردگی اور اہلیت کے بارے میں غیر معمولی تحفظات تھے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حضرت بل سے موئے مبارک کی چوری جیسے غیر معمولی واقعے کی وجہ سے کشمیر بہت بڑے ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔
ایوب خان کو ان واقعات کے بارے میں جو رپورٹیں پیش کی جاتی تھیں، ایوب خان نے انھیں ہمیشہ شک و شبے کی نظر سے دیکھا۔ خفیہ اداروں کی کارکردگی سے وہ ویسے بھی غیر مطمئن رہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہ ادارے پولیس کے پرانے طرز تفتیش سے چمٹے ہوئے ہیں اور انھیں انٹیلیجنس کی ابجد اور دور جدید کے طور طریقوں کی ہوا بھی نہیں لگی۔
گذشتہ برس جب حضرت بل کے واقعات کے ردعمل میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی تو اس موقع پر بھی (یعنی آپریشن جبرالٹرسے بہت پہلے) گوریلا فورس کشمیر میں داخل کی گئی تھی۔ یہ تجربہ بے کار ثابت ہوا اور انڈین فورسز نے ان تمام لوگوں کو چند دن میں اپنی گرفت میں لے کر پاکستان کے لیے شرمندگی کا سامان کر دیا۔
شیخ عبداللہ کچھ عرصے کے بعد پاکستان آئے تو انھوں نے بھی ایوب خان کو اس ناکام تجربے کی حقیقت اور ایجنسیوں کی کارکردگی سے آگاہ کیا تھا۔ایجنسیوں نے ایوب خان کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے جن رابطوں اور کامیابیوں سے آگاہ کیا تھا شیخ عبداللہ نے ان کی حقیقت کھول کر رکھ دی اور بتایا کہ یہ سب من گھڑت کہانیاں اور فرضی داستانیں تھیں۔
ان ناکام تجربات کے باوجود جی ایچ کیو کی طرف سے ایوب خان کے سامنے وقتاً فوقتاً کشمیر میں بغاوت کو ہوا دے کر کشمیریوں کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے وادی میں تربیت یافتہ گوریلا بھیجنے کے منصوبے پیش کیے جاتے تھے۔ سنہ 1964 میں جب وہ ایک بار ڈھاکا میں تھے، ان کے سامنے ایسا ہی منصوبہ پیش کیا گیا تھا، ایوب خان نے اسے بچگانہ منصوبہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
گویا ایوب خان اور جنرل موسیٰ کے درمیان اعتماد کے رشتے میں دراڑ آنی شروع ہو چکی تھی۔ آنے والے دنوں میں جس کے شواہد تیزی کے ساتھ سامنے آئے۔
فروری 1965 میں یہی منصوبہ کابینہ کی انٹیلیجنس کمیٹی کے سامنے ایک بار پھر پیش کیا گیا۔ اجلاس میں ایوب خان کے علاوہ جنرل موسیٰ، ان کے قریبی فوجی افسر، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز احمد شریک تھے۔ اجلاس میں فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔
آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے بلیک بورڈ کی مدد سے حاضرین کو بریفنگ دی۔ اس کے بعد عزیز احمد نے کچھ مزید تفصیلات بیان کیں۔ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ انڈیا اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے، وہ قیادت کے بحران سے دوچار ہے، وادی پرجوش عوامی بغاوت کی لپیٹ میں ہے، لہٰذا مجاہدانہ کارروائی کے ذریعے کشمیر کی آزادی بہت جلد ممکن ہے۔
انھوں نے اس منصوبے پر ایک ممکنہ اعتراض کا جواب بھی ازخود ہی دے دیا کہ ان دنوں چونکہ پاک چین دوستی میں تیزی سے وسعت پیدا ہو رہی ہے اس لیے پاکستان پر انڈیا کے حملے کا خطرہ بھی بالکل نہیں ہے۔
اس گفتگو کے بعد کا منظر بڑا دلچسپ ہے۔ عزیز احمد جب بات کر ر ہے تھے تو ایوب خان اس وقت سر جھکا کر نوٹس لے رہے تھے جیسے ہی اِن کی بات ختم ہوئی ایوب خان نے سر اٹھا یا اور حاضرین سے سوال کیا ‘کیا کسی اور کو کچھ کہنا ہے؟’
جنرل موسیٰ اور دیگر افسران خاموش بیٹھے رہے جس کا مطلب یہ یہی لیا گیا کہ وہ اس منصوبے کے حق میں تھے۔ ایوب خان پھر بولے ’مجھے بتایا جائے کہ دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کو ایسا منصوبہ بنانے کی اجازت کس نے دی؟ اس طرح کی منصوبہ بندی ان کا کام نہیں ہے۔ میں نے تو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھی جائے، اِنھیں حکومت پر اس طرح کا منصوبہ تھوپنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔‘
ایوب خان کے اس سخت ردعمل کے بعد حاضرین پریشان ہو گئے۔ اس طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح مداخلت کا یہ منصوبہ داخل دفتر ہو گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اسی سال کی 14 جولائی کو یہی منصوبہ پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے سامنے تھا۔ اجلاس میں جنرل موسیٰ بھی موجود تھے لیکن ہمیشہ کی طرح خاموش۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ انھیں کیبنٹ روم میں طلب کیا گیا، ایوب خان نے انھیں دیکھتے ہی کہا ’بہت کچھ اس پر منحصر ہو گا کہ پروپیگنڈے کے محاذ پر ہماری کارکردگی کیسی ہوتی ہے۔‘
اتنا کہہ کر ایوب خان کمرے سے باہر چلے گئے اور ذوالفقار علی بھٹو اجلاس کی صدارت کرنے لگے، گویا ایوب خان نے عسکری معاملات کی ذمہ داری فوج کے سربراہ سے اپنے ہاتھ میں لی تھی، وہ انھیں واپس مل گئی۔
وزیر خارجہ نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا کہ ایک عوامی انقلاب نے تمام علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کشمیری عوام زندگی اور موت کی جنگ میں مصروف ہیں جب کہ حریت پسندوں کے بڑے بڑے جتھے انڈیا سے انھیں آزاد کرانے کے لیے جنگ بندی لائن عبور کر رہے ہیں، ایسے موقع پر پاکستان اگر خاموش تماشائی بنا رہا تو تاریخ اسے کبھی معاف نہ کرے گی۔اس لیے حکومت نے مجاہدین آزادی کی مناسب اخلاقی اور مادی امداد کا فیصلہ کیا ہے۔
معاملے کی حساسیت کے پیش نظر کسی کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اجلاس گویا اس حقیقت کا اعلان تھا کہ آپریشن جبرالٹر کی نہ صرف منظوری دے دی گئی ہے بلکہ فوج کو اس پر عمل درآمد کے احکام بھی مل چکے ہیں۔
اجلاس میں اس وقت فوج کے کمانڈر انچیف یعنی جنرل موسیٰ، ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس اور دیگر اہم فوجی افسر موجود تھے۔ یہ سب اجلاس کی کارروائی کے دوران بڑے مودبانہ انداز میں بیٹھے رہے، ان کی طرف سے کسی اعتراض کا نہ کیا جانا اور مکمل خاموشی اختیار کیا جانا یہی غمازی کرتا ہے کہ یہ سب ان کی خواہشات کے مطابق ہو رہا تھا۔
آپریشن جبرالٹرکی منظوری کی نوبت کیسے آئی؟ یہ ایک ایسا معاملہ تھا، ایوب خان جس سے اب تک متفق نہ تھے اور وہ کئی بار اسے مسترد بھی کر چکے تھے۔ مگر پھر وہ یکایک اس پر آمادہ کیسے ہو گئے؟ یہ ایک معمہ ہے جس کا جواب کبھی سامنے نہ آ سکا لیکن ہندوؤں کے بارے میں ان کے ذہن میں ایک تصور تھا کہ جنگ و جدل ان کے بس کی بات نہیں، اگر ان پر درست وقت پر کاری ضرب لگا دی جائے تو انھیں دھول چٹائی جا سکتی ہے۔
یہ کارنامہ وزیر خارجہ سے انجام دیا یا فوج کے سربراہ نے؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن اندازہ یہی ہے کہ آپریشن جبرالٹر کے ان منصوبہ سازوں نے حالات کی وہ تصویر جو اس اجلاس میں بھٹو صاحب نے بیان کی، ان کے سامنے پیش کر کے ہندوؤں کے بارے میں ان کے احساسات کو جگا دیا ہو گا۔
جی ایچ کیو کی طرف سے کشمیر میں کارروائی پر اصرار اور ایوب خان کو قائل کر لینے میں کامیابی سے ایک بار پھر ثابت ہوا گیا کہ وہ اور جنرل موسیٰ مختلف انداز میں سوچ رہے تھے مگر اس کشمکش میں بالآخرجنرل موسیٰ ہی کامیاب رہے۔
سات اگست کو آپریشن شروع ہوا اور ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس نے سیکریٹری اطلاعات سے کہا کہ ’آئندہ چوبیس گھنٹوں میں مجاہدین بہت سے اہم مقامات پر قابض ہو چکے ہوں گے اور میں آپ کو ایسی خبر دوں گا جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے گی۔‘
کچھ دیر کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے کہا کہ وادی میں ہمارے بہت رابطے ہیں، میں تم پر خبروں کی بارش کردوں گا۔اس مکالمے کے صرف دو روز کے بعد انھوں نے سیکریٹری اطلاعات کونہایت شکستہ دلی کے ساتھ بتایا کہ سارے رابطے کٹ چکے ہیں اور ان کے سب لوگ غائب ہو گئے ہیں۔
آٹھ اگست کو آل انڈیا ریڈیو نے تین افراد کے انٹرویو نشر کیے جنھیں سُن کر ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس پریشان ہوگئے اور کہا کہ ‘بدذاتوں نے بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔’
اس آپریشن کے لیے حریت پسندوں کے سات گروپ تیار کیے گئے تھے۔ ان میں صرف ایک گروپ بچ سکا باقی تمام دشمن کے نرغے میں آ گئے یا ناکام ہو کر واپس پلٹ آئے جب کہ مظفر آباد دشمن کے نشانے پر آ گیا۔
الطاف گوہر کے الفاظ میں پورے کا پورا آپریشن منتشر ہو کر دم توڑ چکا تھا۔ دفتر خارجہ اور انٹیلیجنس کے تمام کے تمام اندازے غلط اور اطلاعات بے بنیاد ثابت ہو چکی تھیں۔
28 اگست کو انڈین فوج نے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر کے آپریشن کو نازک صورتحال سے دوچار کر دیا جس سے پریشان ہو کر کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ وزیر خارجہ کے پاس پہنچے کیونکہ ایوب خان اس نازک موقع پر اپنی پرانی عادت کے عین مطابق کسی نامعلوم وجہ کے باعث دارالحکومت سے غائب ہو کر سوات پہنچ چکے تھے۔
جنرل موسیٰ نے کرب کے عالم میں چلاتے ہوئے کہا کہ ’میرے جوانوں کے پاس لڑنے کے لیے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘ وہ آپریشن جبرالٹر کے کمانڈر جنرل اختر حسین ملک سے مل کر آ رہے تھے جن کا خیال تھا کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے آپریشن گرینڈ سلام شروع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
جنرل موسیٰ چاہتے تھے کہ ایوب خان سے آپریشن شروع کرنے کی اجازت حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے بھٹو نے سوات جا کر ایوب خا ن سے ملاقات کی جنھوں نے ایک تحریری حکم جاری کیا جو وزیر خارجہ اور کمانڈر انچیف کے نام تھا۔اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ہمیں ایسا اقدام کرنا چاہیے جس کے ذریعے باقاعدہ جنگ کی نوبت آئے بغیرمسئلہ کشمیر کو زندہ کیا جاسکے۔
اس حکم نامے کی تفصیلات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 29 اگست تک انھیں حقائق سے بے خبر رکھا گیا تھا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ آپریشن جبرالٹر ناکام ہو چکا ہے۔ فوج کے سربراہ کے علاوہ یہ کس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ریاستی سربراہ کو جنگ کے حالات سے باخبر کرتا لیکن اس بحران سے متلعق تمام تذکرے اس بارے میں خاموش ہیں۔
جنرل گل حسن اپنی خود نوشت ’آخری کمانڈر انچیف‘ میں لکھتے ہیں کہ صرف ایوب خان ہی حقائق سے بے خبر نہ تھے بلکہ جی ایچ کیو میں بھی یہی حال تھا۔ محاذ سے جو رپورٹیں آتیں، متعلقہ افسر ناکامی کے شواہد مٹا کراُن میں کامیابی کی خبریں ڈال دیتے، اس طرح جی ایچ کیو میں بھی فتح کے ڈنکے بج رہے تھے۔
اگر یہ سب جنرل موسیٰ کے علم میں تھا تو کیا وہ بھی حقائق سے بے خبر تھے، اندازہ یہی ہے، اس کا ایک سبب تو جنرل گل حسن نے بتا دیا دوسری وجہ جنرل موسیٰ نے لکھی جس کے مطابق اس آپریشن کی سب سے کمزور کڑٰی کمیونیکیش کا کمزور نظام تھا۔
31اگست کو آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا گیا، دو محاذوں پر دشمن کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو آپریشن روک دیا گیا۔ دو ستمبر تک سارا آپریشن انتشار کا شکار ہو گیا۔ جنرل گل حسن کی گواہی یہ ہے کہ ابتدا میں جنرل ہیڈ کوارٹر میں کامیابی کی خبریں تھیں لیکن لگتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کی تپش اب جنرل موسیٰ تک پہنچ چکی تھی، یہی سبب تھا کہ اب وہ متحرک ہوئے اور آپریشن جبرالٹر کے کمانڈر جنرل ملک کے ہیڈ کوارٹر مری سے ہوتے ہوئے محاذ تک پہنچے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ہیڈ کوارٹر اور محاذ کے درمیان رابطے نہیں تھے، کوئی باخبر نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کہاں ہے؟ اس صورتحال میں انھوں نے آپریشن کی کمان بدلنے کا فیصلہ کیا۔
فیصلے پر فوراً ہی یعنی اسی شام عمل ہوا اورجنرل اختر حسین ملک کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کی کمان جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیں۔ کمان کی تبدیلی کی خبر سے عوام صدمے کا شکار ہو گئے کیونکہ وہ اب تک یہی سمجھ رہے تھے کہ پاکستا ن کو دشمن پر مسلسل فتوحات حاصل ہو رہی تھیں لیکن اب ایک مختلف صورت حال تھی۔
کمان جنرل یحییٰ کے سپرد کرنے کا مطلب آپریشن کو سمیٹنا تھا۔ آپریشن کی کمان چھوڑنے کے بعد جنرل اختر ملک سیکریٹری اطلاعات سے ملے تو وہ آبدیدہ ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گا۔
آپریشن جبرالٹر ہو یا آپریشن گرینڈ سلام، یہ دونوں کارروائیاں قومی تاریخ کا ایک اہم اور پُراسرار باب ہیں جن کے کئی سوالوں کے جواب اب تک اس کے ذمے داروں کے ذمہ ہیں کیونکہ یہ کارروائیاں نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بنیں بلکہ مسئلہ کشمیر پر بھی ان کے انتہائی مضراثرات مرتب ہوئے۔
فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے بہت سے سوالوں کے جواب جنرل موسیٰ کے ذمہ تھے، وہ اس جنگ کے مختلف کرداروں میں واحد کردار ہیں جنھوں نے اپنی دو کتابوں ’مائی ورژن‘ اور ’جوان ٹو جنرل‘ میں اس موضوع پر بات کی ہے۔
’مائی ورژن‘ میں انھوں نے اس منصوبے کی تمام تر ذمہ داری وزارت خارجہ پر ڈال دی اور دعویٰ کیا کہ جی ایچ کیو نے کئی بار اس منصوبے کو مسترد کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس آپریشن کے مقاصد وادی کے ذرائع مواصلات کو تباہ کرنا اور بغاوت کے حالات پیدا کرنے کے لیے مختلف کارروائیاں کرنا تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آپریشن کرنے والے ان دستوں نے مجموعی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کارروائیوں کے لیے نہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے عوام تیار تھے اور نہ وہاں کی سیاسی قیادت ہی کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ یہ کام کسے کرنا تھا؟ یہ ذمہ داری انھوں نے کسی پر نہیں ڈالی۔
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کشمیر میں پانچ ڈویژن فوج تعینات تھی جس کی موجودگی میں وہاں کے عوام کوئی مزاحمت کر ہی نہ سکتے تھے، اگر ایسا تھا تو آپریشن کیوں شروع کیا گیا؟ اس سوال کا جواب بھی جنرل موسیٰ نے نہیں دیا۔
ان آپریشنوں کے انجام اور جنرل موسیٰ کے اعترافات سے بعض اداروں اور ذمہ داران کی اہلیت کی قلعی ہی نہیں کھلی بلکہ انٹیلیجنس وغیرہ کے بارے میں ایوب خان کے تمام خدشات کی تصدیق بھی ہو گئی لیکن کیا اتنے بڑے حادثے کے بعد ان کا یہ کہہ دنیا کافی ہے یہ وزارت خارجہ کا منصوبہ تھا جس کی انھوں نے بار بار مخالفت کی۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ اس منصوبے کے مخالف تھے تو اس سلسلے میں انھیں ریاست کے سربراہ کی حمایت بھی حاصل تھی جو ایسی کسی مہم جوئی کے حق میں نہ تھے، اگر یہ تمام کا تمام منصوبہ وزارت خارجہ کے ذہن کی اختراع تھا تو جن دنوں وزارت خارجہ میں اس منصوبے کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی، جنرل موسیٰ کے افسران کا بھی تو ان ہی دنوں وہاں آیا کرتے تھے، ان دنوں ایوب خان کے خلاف سرگوشیوں کا جو سلسلہ جاری تھا، اس میں ان افسروں کا نام بھی آتا تھا، کیا یہ لوگ جنرل موسیٰ کے کہنے میں نہیں تھے، اس کی انھیں خبر نہیں تھی یا یہ سب ان کی منشا کے عین مطابق ہو رہا تھا؟
الطاف گوہر نے کھل کر کوئی الزام تو نہیں لگایا لیکن ان کا اشارہ تیسرے امکان کی جانب ہے۔ اس قسم کے حالات تھے جن میں انڈیا جیسے دشمن کے خلاف ایک غیر معمولی مضمرات رکھنے والی کارروائی شروع کی گئی لیکن جب یہ ناکام ہو گئی تو جنرل موسیٰ نے یہ کہہ کر خود کو بری الزمہ قرار دے دیا کہ یہ منصوبہ تو وزارت خارجہ میں تیار ہوا تھا۔